ابراہیم رئیسی الوداع، پیوٹن کا دورہ چین۔


روسی خبر رساں ایجنسی نے مجھ سے سوال کیا کہ صدر پیوٹن کے حالیہ دورہ چین اور اس سے قبل پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے حالیہ دورہ چین میں کوئی تعلق آپ کو محسوس ہوتا ہے۔ روسی کسی ادارے کی جانب سے ایسا سوال اس بات کی وضاحت کر رہا تھا کہ دنیا پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور اس کے ہر اقدام کی گہرائی کو جانچنا چاہتی ہے کیوں کہ روس میں صحافت ویسے نہیں سوچ سکتی ہے یا سوال قائم کر سکتی ہے جیسے کہ وطن عزیز میں اجازت ہے۔

ان کو تو جو جواب دینا تھا دیا اور اسی موضوع پر گزارشات تحریر کرنے کے ارادے سے قلم سنبھالا ہی تھا کہ ایرانی صدر، وزیر خارجہ کی شہادت کی تصدیق ٹی وی سکرین پر چلنے لگی۔ ابھی حال ہی میں جب وہ وطن عزیز پاکستان تشریف لائے تھے تو ان سے اور ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات کا موقع ملا تھا۔ میں ابراہیم رئیسی کی معاملہ فہمی کا پہلے سے ہی مداح تھا کیوں کہ جب ان سے میری دو ہزار سولہ میں ایران میں ملاقات ہوئی تھی اور وہ ابھی صدر ایران کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے تو اس ملاقات میں انہوں نے کسی جذباتی گفتگو یا سیاسی انداز کی زبانی جمع خرچ کی بجائے ایران اور پاکستان کے تعلقات کی نزاکتوں پر بہت مدلل گفتگو فرمائی تھی اور وہ اس پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ برادرانہ قریبی تعلقات دونوں ممالک کے انتہائی مفاد میں ہیں اور صدیوں سے جاری نظریاتی بحثوں کی آنکھ سے ان کو نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔

اسی لئے جب پاکستان ایران سرحد پر نا خوش گوار صورت حال قائم ہوئی تو انہوں نے اس صورت حال کو پیدا کرنے والے عناصر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فوری طور پر ایرانی وزیر خارجہ کو اسلام آباد روانہ کیا اور پھر اب خود بھی تشریف لاکر تلخی کو قصہ ماضی بنا دیا۔ امید رکھنی چاہیے کہ ایرانی قیادت ان کے ویژن کے مطابق پاکستان دوست پالیسی کو مزید توانا کریں گی۔ جیسا کہ ابتدا میں عرض کی کہ روسی صدر کے دورے کو سب اپنی اپنی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور اس کے بین الاقوامی تعلقات بالخصوص چین کے اپنے ہمسایوں اور ارد گرد پر اس کے اثرات کا تجزیہ کر رہے ہیں۔

یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ صدر پیوٹن نے یہ دورہ ان حالات میں کیا ہے کہ جب روس عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ ان دونوں ممالک نے باہمی معاہدہ کر رکھا ہے کہ ہر سال ان میں سے ایک ملک کا صدر دوسرے ملک کا دورہ کریں گا۔ اس دورے میں صدر پیوٹن نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں کہ جو علامتی نوعیت کے ہیں اور ان سے در حقیقت دوسرے ممالک کو پیغام دینا مقصود تھا۔ مثال کے طور پر وہ ان سوویت یونین کے فوجیوں کی یادگار پر چینی شہر ہربن میں گئے جو کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران چین میں جاپان کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے تھے جب جاپان نے چین کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور اسی دورے کے دوران روس اور چین نے سو سال سے جس جزیرے پر تنازعہ تھا پر آپس میں معاہدہ طے کر لیا اور بندر گاہ کی تعمیر کا اعلان کر دیا اس جزیرے پر بندر گاہ کے قیام سے چینی بحری جہازوں کے لئے آبنائے جاپان کا راستہ کھل جائیں گا اور اس سے جنوبی کوریا اور جاپان کے لئے ایک صاف پیغام ہو گا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ چین کی پوزیشن روس کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ روس یوکرائن جنگ کے بعد دنیا بھر سے الگ تھلگ ہو گیا ہے جبکہ چین نے کامیابی سے اس حکمت عملی کو طے کر رکھا ہے کہ چاہے کشیدگی ہی کیوں نہ بڑھ جائے مگر مغرب اور امریکہ سے قطع تعلق کی کیفیت پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ چین کی معیشت بھی بہت آگے بڑھ چکی ہے اور یہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ روس کو اس وقت چین کی ضرورت ہے خاص طور پر یوکرائن جنگ کے بعد تو یہ ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔

گزشتہ ماہ امریکہ نے انٹلیجنس تجزیہ جاری کیا تھا جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ چین روس کو مشینی آلات، مائکرو الیکٹرانکس اور ٹیکنا لوجی فروخت کر رہا ہے اور روس اس سے مزائل، ٹینکس، جنگی جہاز اور دیگر ہتھیاروں کو بنانے میں استعمال کر رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے اسی جانب گزشتہ ماہ اشارہ کرتے ہوئے چین کو اس سے رک جانے کا کہا تھا مگر امریکی خدشات کو عملی طور پر کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے چین نے صدر پیوٹن کا ہربن انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کا دورہ کروایا، یہ انسٹیٹیوٹ چین کی دفاعی تحقیق میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور اس دورے میں صدر پیوٹن نے سینٹ پیٹرز برگ اسٹیٹ یونیورسٹی اور ہربن انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مشترکہ اسکول کا اعلان کیا کہ جس میں 1500 افراد تربیت لیں گے۔

صدر پیوٹن نے دنیا میں تنہا سپر پاور کے نظریہ کے بر خلاف یہ بات کہی کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ملٹی پولر ورلڈ تشکیل پا رہا ہے اور یہ حالات کا فطری بہاؤ ہے۔ حالاں کہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری باہمی شراکت داری کسی کے خلاف نہیں ہے۔ اس دورے کا امریکہ بغور جائزہ لے رہا ہے اور اس کے نیشنل سیکورٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں مگر ان دونوں ممالک کی باہمی تعاون کی کوئی لمبی چوڑی تاریخ نہیں ہے۔

با الفاظ دیگر یہ زیادہ دیر تک باہمی تعاون کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ امریکہ میں یہ بھی سوچ پائی جاتی ہے کہ صدر شی جن پنگ اور صدر پیوٹن خود کچھ بھی چاہے مگر دونوں ممالک کی اعلی سطح کی اسٹیبلشمنٹ میں ایسے افراد موجود ہیں جو کہ ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس لئے یہ شراکت داری پائیدار نہیں ہو سکتی ہے۔ روس اور چین کی بڑھتی شراکت داری پر تائیوان کا اپنا نکتہ نظر ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس کا نکتہ نظر وہ ہی ہوتا ہے جو کہ امریکا کا ہوتا ہے تائیوان کے وزیر خارجہ جوزف وو نے یوکرائن جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر قیمت پر یوکرائن کی مدد کرنی چاہیے کیوں کہ اگر یوکرائن شکست کھا گیا تو ایسی صورتحال میں چین بھی انڈو پیسیفک میں اپنی فوجی طاقت کو بڑھائے گا اور ہم جانتے ہیں کہ انڈو پیسیفک میں امریکی مفادات و اہداف کسی سے ڈھکے چھپے ہوئے نہیں ہے۔

روسی خبر رساں ایجنسی کا سوال بے جا نہیں تھا ابھی چاہے پاکستان کے نائب وزیر اعظم کے دورے کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو مگر پاکستان اس صورت حال سے لا تعلق نہیں رہ سکتا ہے اگر دنیا ملٹی پولر ورلڈ کی طرف بڑھ رہی ہے تو ہمیں ابھی سے اپنے اہداف کو متعین کرتے ہوئے ان کے حصول کا طریقہ کار طے کر لینا چاہیے ورنہ دیر ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments