منو بھائی: نایاب ہو تم


میری پسندیدہ ادبی شخصیت ”منو بھائی“ کو ہم سے بچھڑے کئی سال بیت گئے لگتا ہے گویا صدیاں بیت گئی ہیں۔ انہیں خراج تحسین پیش کرنا میرے لیے ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے کیونکہ باوجود کوشش کے وہ لفظ ملنا ناممکن ہو جاتے ہیں جو ان کی تعریف میں لکھے یا بیان کیے جا سکیں۔ بس اتنا کہوں گا کہ منو بھائی ایک عظیم شخصیت تھے وہ بہت زبردست دانشور، شاعر ڈرامہ نگار اور ایک عظیم مصنف تھے۔ جنہوں نے اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

وہ ایک دن خاموشی سے ہم سے رخصت بھی ہو گئے مگر ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں اللہ کریم ان کے درجات بلند کریں آمین! اس درویش صفت انسان نے بائیں بازو کے نظریات اور عوام دوستی کو کرخت نعروں کی بجائے اپنی انسان دوست، نفاست اور شیریں لہجے میں عوام تک پہنچایا اور مشکل نظریاتی اور فلسفیانہ الجھن کو شاعرانہ چابک دستی، اور حکیمانہ روایات کے مقامی لہجے میں بیان کر کے لوگوں کے دلوں میں اتر گئے۔ منو بھائی کے کالم ادب کے اعلیٰ معیار کے بھی عکاس ہوتے تھے۔

کیسی کیسی عظیم ادبی شخصیات تھیں جو دنیا میں نہ رہیں یقیناً منو بھائی ایک عظیم اور تاریخ ساز لکھاری تھے۔ جنہوں نے اردو ادب کی بیش بہا خدمت کی وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے تاریخ کے بہتے دھارے تبدیل کیے اور اپنی تحریروں سے حساس موضوعات کو اجاگر کیا اور ساتھ ساتھ اپنے قلم سے اپنی قوم کو جوڑے رکھا۔ وہ بزرگی میں بھی سب کے بھائی تھے۔ یہ ستر کی دہائی کی بات ہے جب میں میٹرک کا طالب علم تھا۔ مجھے اخبارات پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔

اپنے شہر کی لائبریری میں جاکر اخبارات پڑھنے کا خبط سوار تھا۔ اس زمانے میں ملتان سے روزنامہ ”امروز“ شائع ہوا کرتا تھا۔ جس میں منو بھائی کا کالم ”گریبان“ شائع ہوتا تھا۔ اسے پڑھ کر مجھے منو بھائی کی تحریر میں چھپی تلخ سچائی کی تصویر کشی بڑی اچھی لگتی تھی۔ وہ معاشرے کی برائیوں اور لوگوں کے رویوں پر اپنی روایتی شگفتگی اور مزاحیہ انداز سے طنز کرنے میں ایک خاص مہارت رکھتے تھے اور میں رفتہ رفتہ ان کی تحریروں کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا گیا۔

جب تک ان کا ”گریبان“ پڑھ نہ لوں چین نہ آتا تھا۔ مجھے منو بھائی کے نام سے ایک عجیب سی انسیت ہو چکی تھی ان کے گریبان میں جھانک کر اپنے آپ کو دیکھنا بڑا اچھا لگتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب خواتین کے حقوق کی بات کرنا جرم گناہ سمجھا جاتا تھا اور ہم جیسے لوگوں کو ”سرخے“ یا بائیں بازو کے لوگ کہا جاتا تھا۔ ایسے میں ایک مذہبی سیاسی جماعت نے ملک بھر میں فحاشی اور عریانی کے نام پر خواتین کے خلاف ایک بڑی مہم چلائی ہوئی تھی۔

پورے ملک میں خواتین کی تصاویر والے سائن بورڈ اور اشتہارات نذر آتش کیے جا رہے تھے۔ ایسے میں ”منو بھائی“ کو میں نے اس بارے میں ایک خط لکھا۔ جس میں اس سیاسی مہم کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کیا اور خواتین کے حقوق کی بات کی تو مجھے حیرت ہوئی کہ چند دن بعد ہی انہوں نے میرا خط اپنے کالم کی زینت بنا کر لکھا کہ جاوید بھائی! آج کا کالم آپ کے اس خط سے کر رہا ہوں جو بات میں کرنا چاہتا تھا وہ آپ نے کر دی ہے وہ کالم شائع ہوا تو اس زمانے میں ایک شور سا مچ گیا وہ کالم آج بھی میرے پاس یادگار کے طور پر موجود اور محفوظ ہے پھر تو مجھے حوصلہ ملا اور میں نے کئی خطوط انہیں لکھے۔

جب بھی میرا خط ملتا وہ اس کی اصلاح کر کے اپنے کالم کی زینت بنا کر میری خوب خوب حوصلہ افزائی فرماتے یوں ہماری دوستی کی ابتدا ہوئی خواتین کے بارے میں میرے خیالات اور کرداروں کو انہوں نے اپنے ڈراموں کا بھی حصہ بنایا اور پھر غم روزگار نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا اور منو بھائی روزنامہ امروز ملتان سے روزنامہ مساوات اور پھر روزنامہ جنگ میں لکھنے لگے روزنامہ امروز اور مساوات وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کا قصہ بن کر رہ گیا اور وہ آخری وقت تک روزنامہ جنگ میں ہی لکھتے رہے اور میں بھی منو بھائی کا گریبان ہمیشہ پڑھتا رہا۔

ان کے ڈرامے دیکھ کر لطف ضرور لیتا رہا۔ لیکن خط و کتابت کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا اور ہماری قلمی دوستی بھی ماضی کا حصہ بن گئی۔ بڑے دنوں بعد خوش قسمتی سے ایک مرتبہ ریواز گارڈن لاہور میں ان سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا تو احساس ہوا کہ چھوٹے سے قد کا یہ انسان درحقیقت ایک بہت قد آور اور بہت بڑی شخصیت کا مالک ہے۔ ان کو دیکھ کر ان کی تحریروں کا درد سمجھنے میں کچھ دیر نہ لگی میں نے اپنا تعارف کرایا تو پہچان لیا۔

مجھے گلے لگا کر بڑے خوش ہوئے ُ اور کہنے لگے یار تم تو نوجوان ہو تمہاری تحریریں کیوں بوڑھی ہیں؟ تمہارے خط پڑھ کر تو میں سمجھتا تھا کہ یہ تو کوئی بڑی عمر کا بندہ ہے۔ آج پہلی مرتبہ کسی جوان میں کوئی بوڑھی روح دیکھ رہا ہوں پھر مجھے ہدایت کی کہ سیاست کی بجائے معاشرتی اقدار اور مسائل کو اپنے کالموں کا موضوع بنانا اور ہمیشہ محروم طبقے کے ساتھ کھڑے ہونا میں نے پوچھا کہ ”منو بھائی“ آپ کے کالم کا نام ”گریبان“ بہت متاثر کن ہے یہ نام کیسے رکھا تو انہوں نے مجھے ایک شعر سنایا

راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے

ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے

پھر بتایا کہ مجھے منیر احمد قریشی سے منو بھائی احمد ندیم قاسمی صاحب نے میری شاعری کی وجہ سے بنایا تھا اور پھر میں سب کا بھائی بن گیا یوں مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔ کہتے ہیں کہ منیر احمد قریشی عرف منو بھائی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز بطور رپورٹر کیا اس لیے سماج کا کوئی پہلو بھی ان کی نظروں سے پوشیدہ نہ تھا۔ اس لیے بہت سے دانشور انہیں معاشرے کا ضمیر بھی کہتے تھے منو بھائی کی طویل صحافتی اور ادبی جدوجہد نے انہیں اور ان کی تحریروں کو تاریخ میں معتبر کر دیا ہے۔

ان کی تحریروں اور ڈراموں میں بناوٹ کا عنصر کہیں نظر نہیں آتا بلکہ ان کے ڈراموں میں گلی محلوں اور ارد گرد کے عام اور حقیقی کردار نظر آتے ہیں انہوں نے 1965ء کی جنگ پر ڈرامہ“ پل شیر خان ”لکھ کر ڈرامہ نویسی کا آغاز کیا اور ان کے کھیل“ کی جاناں میں کون ”سونا چاندی، خوبصورت، جھوک سیال، دروازہ، ضرورت، گم شدہ، چھوٹے، دشت ِ گمشدہ اور آشیانہ اور میری سادگی دیکھ آج بھی لوگوں کے دلوں پر نقش ہیں اپنے ڈراموں میں وہ جس طرح اپنی علاقائی ثقافت اور زبان کو اجاگر کرتے ہیں ان کے ڈراموں میں جو دیہاتی منظر نگاری اور معصوم دیہاتی لوگوں کردار نگاری اور بے ساختگی نظر آتی ہے وہ صرف انہیں کا کارنامہ ہے۔

وہ علمی ادبی اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک مخلص، سچے، کھرے، اور سادہ سے انسان تھے مجھ جیسے بے شمار لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا فن خوب جانتے تھے انہوں نے مجھ جیسے بے شمار لوگوں کو کالم نویسی کا راستہ دکھایا منو بھائی کا نام آئے ُ اور پنجابی شاعری کی بات نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے پنجابی شاعری میں ان کا منفرد مقام کسی سے پوشیدہ نہیں ہے“ اجے قیامت نہیں آئی ”جیسی نظم کے خالق تھے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

وہ پچاسی سال تک سب کا بھائی تھا پیر و جواں سب انہیں بلا تفریق“ منو بھائی ”ہی کہتے تھے اردو اور پنجابی کا یہ معروف ادیب، کالم نگار، فلسفی، ڈرامہ نگار اور دانشور 19 جنوری 2018ء کو سفر آخرت پر روانہ ہوئے تو ادبی دنیا میں ایک بڑا خلا چھوڑ گئے جو شاید کبھی پورا نہ ہو سکے۔ آج اپنی زندگی کے ستر سال گزار کر میں انہیں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ منو بھائی اب میں واقعی بوڑھا ہو گیا ہوں لیکن آپ کی حوصلہ افزائی اور محبت کی وجہ سے میری تحریریں ہمیشہ جوان ہی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments