(مکمل کالم) پرائیویسی کتنی ضروری ہے


یہ شاید 1994 کی بات ہے جب میں پہلی بار برطانیہ گیا تھا۔ پہلی ہی رات میرے میزبان مجھے بریڈ فورڈ کے ایک جوئے خانے میں لے گئے، ویسے تو ولایت جانے والا ہر بندہ ہی اس قسم کی جگہوں پر جاتا ہے مگر واپسی پر سفرنامہ یوں لکھتا ہے جیسے حج کر کے آیا ہو۔ بہر کیف، جب میں کسینو میں داخل ہوا تو وہاں کی چکا چوند دیکھ کر بھونچکا رہ گیا، فرط جذبات سے مغلوب ہو کر میں نے میزبان سے درخواست کی کہ وہ رولیٹ میز کے سامنے میری تصویر بنائے، نہ جانے پھر کبھی زندگی میں یہ موقع نصیب ہو نہ ہو۔ جیسے ہی اس نے پہلی تصویر کھینچی، کہیں سے ایک خاتون نمودار ہوئی اور بڑے شائستہ انداز میں مجھ سے کہا کہ میں کیسینو میں تصویریں نہیں لے سکتا۔ میرے استفسار پر اس عفیفہ نے بتایا کہ کیسینو جیسی جگہ پر کیمرہ استعمال کرنا ان لوگوں کے لیے قابل اعتراض ہو سکتا ہے جو یہاں کھیلنے آتے ہیں کیونکہ یہ ان کی پرائیویسی میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔ اگرچہ میں تھوڑا سا حیران ہوا تاہم میں نے فوراً معذرت کر لی۔ لیکن میری معافی قبول کرنے کے بجائے اس نے کہا کہ میں اپنا کیمرا اس کے حوالے کروں تاکہ وہ تصویر ضائع کی جا سکے جو میں نے وہاں بنائی تھی۔ میں نے اپنے میزبان کی طرف دیکھا مگر وہ اس وقت یوں بن گیا جیسے وہاں موجود ہی نہ ہو، بلا چوں چرا میں نے اپنا کیمرہ خاتون کو تھما دیا، اگلے روز اس نے باقی تصویروں کے تیار شدہ پرنٹس کے ساتھ کیمرا مجھے واپس کر دیا اور میرا شکریہ ادا کیا۔ میری تصویریں مفت میں ڈیویلپ ہو گئیں حالانکہ قصور میرا تھا!

دوسرا واقعہ 2007 کا ہے جب میں سرکار کی طرف سے یونیورسٹی کا مختصر کورس کرنے کی غرض سے امریکہ گیا۔ پہلے دن یونیورسٹی کے معاون نے ہمیں دستخط کرنے کے لیے ایک فارم دیا جس میں لکھا تھا کہ ”امریکہ میں میرے قیام کے دوران مجھے کلاس روم میں یا کسی جگہ سیر کے دوران یا کسی عوامی اجتماع وغیرہ میں تصویر کھنچوانے یا فلمائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔“ اس وقت، میں نے اس ”بیکار“ سے فارم کا کافی مذاق اڑایا تھا کیونکہ میری رائے میں یہ مکمل طور پر ایک غیر ضروری اقدام تھا تاہم کورس کے اختتام پر میں نے محسوس کیا کہ رازداری (پرائیویسی) کے معاملات امریکیوں کی نظر میں کتنے اہم ہیں۔ میں نے بحیثیت پاکستانی کبھی اس طرح کبھی نہیں سوچا تھا اس لیے مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ہماری تصاویر لینے کے لیے اجازت بھی ہونی چاہیے۔

تیسرا واقعہ پاکستان کا ہے۔ دو سال پہلے کی بات ہے، میں گاڑی میں ایک جگہ جا رہا تھا، گاڑی اشارے پر رکی تو ایک نوجوان لڑکا اور لڑکی ہاتھ میں مائیک اور کیمرہ لیے میرے قریب آئے، لڑکے نے مائیک میرے چہرے کے سامنے کیا جبکہ لڑکی کیمرے سے فلم بنانے لگی، ساتھ ہی لڑکے نے سوال داغ دیا ”سر، سیلاب نے ہمارے ملک کو تباہ کر دیا ہے، آپ اس نیک مقصد کے لیے کتنا چندہ دینا چاہیں گے؟“ پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ کون لوگ ہیں، میں نے ان سے پوچھا ”کیا آپ نے یہ ریکارڈنگ شروع کرنے سے پہلے میری اجازت لی ہے؟“ جواب ان کے لیے بالکل غیر متوقع تھا تاہم دوسری طرف ان کا ردعمل میرے لیے غیر متوقع نہیں تھا۔ دونوں نے پہلے تو حیرانی سے میری طرف دیکھا، کچھ دیر ناگوار انداز میں گھورتے رہے اور آخر کار چلے گئے۔

یہ تینوں واقعات بظاہر معمولی ہیں مگر سچ پوچھیں تو ان کے سنجیدہ مضمرات ہیں۔ بحیثیت قوم ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ کسی فرد کی رازداری کا کیا مطلب ہے، یہ کتنی اہم چیز ہے، اس سلسلے میں ہمارے کیا حقوق ہیں اور ہمارے پاس کیا طریقہ ہے جس سے ہم اپنے اس حق کی حفاظت کر سکتے ہیں؟ کسی کی اجازت کے بغیر تصویر بنانا یا فلمانا ہمارے ملک میں بالکل عام سمجھا جاتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ (یا اکیلے بھی ) بازار میں خریداری کر رہے ہیں اور اچانک ایک کیمرہ مین نمودار ہوتا ہے اور آپ سے ملک میں جاری مہنگائی یا ٹی وی پر نشر ہونے والے مارننگ شوز کے معیار کے بارے میں کچھ بے معنی سوالات کرنے لگتا ہے، آپ اسے روک نہیں سکتے۔ یقیناً ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جنہیں اس ناپسندیدہ فلم بندی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن پھر بے شمار لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی اجازت کے بغیر کسی ٹی وی پروگرام کے لیے ان کی فلم بندی کی جائے۔ ٹی وی چینل کے کیمرہ مین سمجھتے ہیں کہ انہیں ہر چیز کی فلم بنانے کا حق ہے اور شاید انہیں یہ بھی غلط فہمی ہے کہ پاکستان کا ہر شہری اسکرین پر آنے کا دیوانہ ہے، اس لیے ایک عام آدمی کو ٹی وی پر دکھانا دراصل ان کا اس عام آدمی پر احسان ہے! اور یہ کام صرف ٹی وی چینلز ہی نہیں کرتے، پرائیویٹ افراد بھی آپ کو بتائے بغیر آپ کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جو اس سے بھی زیادہ خطرناک بات ہے!

آج کے دور میں پرائیویسی کی سب سے بڑی خلاف ورزی گوگل اور ایپل جیسی کمپنیاں کرتی ہیں، بظاہر یہ اجازت لے کر آپ کے موبائل فون کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرتی ہیں تاہم اگر انہیں اجازت نہ دی جائے تو آپ کا موبائل عملاً بیکار ہوجاتا ہے اور آپ کوئی ڈھنگ کی ایپ استعمال ہی نہیں کر پاتے۔ ان کمپنیوں کو آپ کی تصاویر، لوکیشن، مائیک، غرض ہر چیز تک رسائی حاصل ہے، اسی لیے جب آپ فون پر کپڑوں کی خریداری سے متعلق بات کرتے ہیں یا کہیں سیر پر جانے کا پروگرام بناتے ہیں تو تھوڑی ہی دیر بعد آپ کو فون پر ان چیزوں سے متعلق اشتہارات نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ گوگل اور ایپل آپ کے فون میں کہاں تک گھسا ہوا ہے تو App Permissions میں جا کر دیکھیں، آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے اور سوچیں گے کہ کب آپ نے اپنے فون تک رسائی کی یہ سب اجازت دی۔

سو، پیارے بچو آج ہم نے یہ سیکھا کہ ہر فرد کو اپنی پرائیویسی کا حق حاصل ہے، ہمیں یہ حق استعمال کرنا چاہیے، ویسے بھی آج کی ہائی ٹیک دنیا میں یہ اور بھی اہم ہو گیا ہے کیونکہ آپ کو کبھی علم نہیں ہو سکے گا کہ کسی بیمار ذہن کے شخص نے کہاں کیمرا نصب کیا ہو۔ اور ضروری نہیں کہ ایسے کیمرا ہمیشہ کسی عوامی جگہ پر ہی ہو، یہ جگہ ملبوسات کی دکان میں کپڑے بدلنے والا کمرہ بھی ہو سکتی ہے۔ لہذا ہوشیار رہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 511 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments