لوٹ کے بدھو گھر کو آئے


غیر حاضر دماغی، لاپرواہی اور غیر ذمہ داری میری شخصیت کے بنیادی عناصر ہیں۔ دکاندار سے سامان خرید کر ادائیگی کرنا اور سامان دکان میں چھوڑ دیتا۔ ایک دکان سے سامان خرید کر دوسری دکان میں جاکر سامان خریدنا اور پہلی دکان کا خریدا ہوا سامان دوسری دکان میں بھول جانا۔ بل کی ادائیگی کرتے وقت دکاندار سے بقایا پیسے لینے یاد نہ رکھنا روز مرہ کا معمول تھا۔ بلکہ اب تو اس میں مزید برکت پڑ گئی ہے۔ ان تمام علتوں کا حل تم نے یہ نکالا کہ مجھے جب بھی بازار خریداری کرنے جانا ہوتا تم میرے ساتھ ساتھ ہوتیں۔ ایک دن میں بازار کسی کام جا رہا تھا اور تمہارے پاس شاید کوئی مہمان خواتین آئی ہوئی تھیں۔ گرمیوں کی آمد آمد تھی۔ آتے وقت تم نے بازار سے روح افزاء اور کچھ دوسرے شربت لانے کو کہا۔ میں اپنا کام ختم کرنے کے بعد پنسار سٹور پر چلا گیا۔ گرمیوں کے موسم میں مختلف رنگوں کے شربت پینا میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ میں نے روح افزاء کے ساتھ سنہرے اور پیلے رنگ کے شربت کی دو بوتلیں بھی لے لیں۔

دکاندار نے تینوں بوتلوں کو شاپر میں ڈال کر میرے حوالے کر دیا۔ اور میں نے اسے بائیک کے سیف گارڈ سے لٹکا لیا اور گھر کی طرف چل دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے محسوس ہوا۔ کہ ایک باریک سی سرخ رنگ کی لکیر موٹر سائیکل کے ساتھ ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔ میں نے ذہن پر زور دیتے ہوئے سوچا کہ یہ کیا ہو سکتا ہے۔ پیلے رنگ کی لائنیں تو ٹریفک والے خود بھی سڑکوں پر لگاتے ہیں۔ لیکن وہ تو خاصی چوڑی ہوتی ہیں۔ یہ تو باریک سی لکیر تھی۔

کاغذ پر کھینچی گئی لکیروں سے تھوڑی سی موٹی۔ شاید ٹریفک والوں نے نئے انداز میں لکیروں کو کھینچا تھا۔ لیکن یہ لکیر تو سڑک کے درمیان موٹر سائیکل کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ وہ تو سڑک کے ایک سائیڈ پر لگاتے ہیں۔ میں نے موٹر سائیکل کے سامنے دیکھا دور دور تک کوئی لکیر نظر نہیں آ رہی تھی۔ جب میں نے اپنے پاؤں کے ساتھ ساتھ دیکھا تو لکیر موجود پائی۔ اب میں نے خصوصی توجہ سے حالات کا جائزہ لینا شروع کیا۔ میں موٹر سائیکل سے تھوڑی دور آگے دیکھتا لکیر موجود نہ ہوتی۔

لیکن جونہی بائیک اس جگہ پر پہنچتی۔ تو بائیک کے پائیدان اور ہینڈل کے درمیان وہی منحوس لکیر موجود پاتا۔ مسئلہ گمبھیر صورت اختیار کر چکا تھا۔ میں اپنی تمام تر فہم و فراست، عقل و دانش اور علم و حکمت کے بھر پور استعمال کے باوجود اس معمے کو حل کرنے سے قاصر رہا۔ اسی سوچ بچار اور شش و پنچ میں گھر پہنچ گیا۔ شاپر بائیک سے اتارا گیا تو وہ منحوس لکیر یہاں بھی موجود تھی۔ بہر حال اب میں تھوڑا خوفزدہ سا گھر میں داخل ہوا۔

تو سامنے ہی تم موجود تھیں۔ مجھے دیکھتے ہوئے فوراً بولیں۔ انجم میں اسی لیے تمہیں اکیلے بازار سے کچھ لانے کا نہیں کہتیں۔ روح افزاء سارا ہی راستے میں گرا کر آئے ہو۔ اور آگے بڑھ کر شربتوں والا شاپر میرے ہاتھ سے پکڑ کر اس میں سے روح افزاء کی بوتل باہر نکالی۔ تو اس کے پیندے میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہو گیا تھا۔ اور اسی جگہ سے شاپر میں بھی سوراخ موجود تھا۔ جہاں سے شربت روح افزاء تھوڑا تھوڑا کر کے نیچے گر رہا تھا اور سڑک پر وہ منحوس لکیر کھنچی چلی آ رہی تھی۔ غالباً نیچے سے کسی نوکیلی چیز نے شاپر اور بوتل دونوں میں ہی ایک باریک سا سوراخ کر دیا تھا۔

دو تین دن سے تمہارے کان میں کوئی چھوٹا موٹا مسئلہ چل رہا تھا۔ میں نے کہا چلو ڈاکٹر زاہد صدیق سے مل لیتے ہیں۔ اور ہم دین میڈیکل کمپلکس میں آ گئے۔ ڈاکٹر نے معائنہ کیا۔ کچھ ادویات استعمال کے لئے دیں کچھ احتیاط کر نے کی تاکید کی اور فارغ کر دیا۔ ہم ہسپتال سے باہر نکلے۔ میں سٹینڈ سے بائیک نکالنے لگا۔ تو وہاں پر سٹینڈ والے کے ساتھ ایک فقیر کھڑا ہوا تھا۔ اور مریضوں کے کچھ لواحقین بھی یہاں موجود تھے۔ میرا یہ عام وتیرہ تھا کہ جب بھی میں دین میڈیکل کمپلکس میں آتا تو سائیکل سٹینڈ والے بابا جی کو سو پچاس روپے ضرور دیتا۔ اور وہ عموماً مجھ سے بلال اور بچوں کی خیریت دریافت کرتا۔ بلال نے اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز یہیں سے کیا تھا۔ تمہارے ساتھ کی وجہ سے میں نے سٹینڈ والے بابا اور فقیر دونوں کو نظر انداز کر دیا۔

اور وہاں موجود رش میں سے سنبھال کر بائیک نکالی سیدھی کر کے سٹارٹ کی اور چل دیا۔ گھر سے ہم پروگرام بنا کر چلے تھے کہ واپسی پر رحیم سپر سٹور سے کچھ سودا سلف بھی خریدتے ہوئے آئیں گے۔ اب ہم اسی طرف رواں دواں ہیں اور میں تمہیں بتا تا جا رہا ہوں۔ کہ سٹور پہ جا کر میں تمہیں وہاں اتار دوں گا۔ اور خود ساتھ ہی موجود اے ٹی ایم سے پیسے لے لوں گا۔ اور تم سامان وغیرہ نکلوا کر بل بنوا لینا۔ اور پھر واپس آ جائیں گے۔

خراماں خراماں چلتے ہوئے سٹور کے سامنے پہنچ کر میں نے بائیک روکی اور تمہیں نیچے اترنے کو کہا۔ اس کے بعد چلنے سے پہلے میں نے ویسے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا تو تم تو کہیں موجود نہ تھیں۔ میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ اب میں سوچ رہا ہوں کے تم راستے میں کہیں گر گئی ہو۔ اور گری بھی ایسے برے طریقے سے ہو کہ گرتے ہوئے تمہاری آواز بھی نہیں نکلی۔ اسی پریشانی کے عالم میں میری واپسی ہوئی۔ واپسی پر ون وے کے ایک طرف ایک سڑک پر میں چلا جا رہا تھا۔

لیکن دھیان دوسری سڑک پر تھا۔ جس سے ہوتا ہوا میں سٹور تک پہنچا تھا۔ کہ کہیں کوئی مجمع ہو کسی مریض کو اٹھایا جا رہا ہو۔ اسی بے دھیانی میں میرا اپنا ایکسیڈنٹ بھی ہوتے ہوتے بچا۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے میں ہسپتال واپس پہنچ گیا۔ لیکن تم کہیں نہیں نظر نہ آئیں۔ ہسپتال میں ادھر اُدھر جھانکا۔ ٹی روم میں دیکھا۔ میاں حفیظ سے پوچھا لیکن ندارد۔ اسی پریشانی میں کھڑا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی اجنبی نمبر تھا۔ ایک بار تو موجود ذہنی کیفیت کے سبب اسے نظر انداز کرنے کا سوچا۔

لیکن تین چار گھنٹیاں بجنے کے بعد اٹینڈ کیا تو آگے سے تم تھیں۔ آپ کہاں ہیں۔ میں دین میڈیکل کمپلکس میں ہوں اور تم کہاں ہو۔ میں ڈاکٹر یوسف کے ہسپتال کے سامنے کھڑی ہوں۔ مجھے وہاں سے لے لیں ٹھیک ہے۔ اب میں ڈاکٹر یوسف کے ہسپتال کی طرف جا رہا تھا جو یہاں سے قریب ہی ہے۔ میں سڑک پر بڑی توجہ اور دھیان سے دیکھتے ہوئے مذکورہ ہسپتال تک پہنچا۔ لیکن تم یہاں بھی ہنوز ندارد تھیں اسی طرح آہستہ آہستہ چلتے ہوئے آگے سے یوٹرن لے کر واپس مڑا اور جب ہسپتال کے سامنے پہنچا تو تم اپنے بازوؤں کو دونوں اطراف پورے پھیلا کر سڑک کے درمیان اس طرح کھڑی تھیں۔

کہ سڑک ٹریفک کے لیے تقریباً بند ہو کر رہ گئی تھی۔ اور ساتھ ہی رکو رکو رکو کا شور مچائے جا رہی تھی۔ اور پھر میں رک گیا۔ میرے استفسار پر تم نے اپنی آب بیتی کچھ اس طرح سنائی جب ہم ہسپتال سے باہر نکلے۔ تم نے اپنی بائیک نکالی میں ابھی بائیک پر بیٹھنے ہی والی تھی کہ تم نے اسے چلایا۔ اور پل بھر میں یہ جا وہ جا۔ میں آواز بھی نہ دے سکی۔ موبائل میں گھر بھول آئی تھی۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھی۔ کہ میرے پاس کھڑے ہوئے ایک نوجوان سے لڑکے نے کہا، کہ آنٹی سر تو آپ کو چھوڑ کر چلے گئے۔

چلیں ہم مل کر ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ سارا شہر تمہارے سٹوڈنٹس سے بھرا پڑا ہے۔ اور یقینا یہ بھی انہی میں سے ایک تھا۔ یہ سوچتے ہوئے میں اس کے ساتھ تمہارے پیچھے پیچھے چل پڑی۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد مجھے خیال آیا۔ کہ سٹور پر پہنچ کر جب تمہیں میری عدم موجودگی کا پتہ چلے گا۔ تو یقینا پریشان ہو گے۔ اور پھر تم وہاں پر تو نہیں بیٹھے رہو گے۔ اس لیے اس طرح تمہارے تعاقب میں جانا تو لاحاصل ہے تو میں نے اس بچے سے موبائل لے کر تمہیں کال کی۔

اور ایک بار تو جب تم منہ اٹھائے ہوئے ہمارے پاس سے گزر کر آگے نکل گئے۔ تو یہ لڑکا پریشان ہو گیا۔ کہ آنٹی سر جی تو پھر آگے نکل گئے۔ لیکن جب تم یو ٹرن سے واپس ہوئے تو پھر ہم دونوں نے مل کر پوری سڑک گھیر لی۔ کہ کہیں تم اب بھی آگے نہ نکل جاؤ۔ اور تمہیں یہاں پر روک لیا۔ میں نے بچے کا شکریہ ادا کیا۔ وہ بلال کا کلاس فیلو تھا۔ اس کے بعد بقیہ کام نمٹا کر خیر سے گھر کو آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments