خاکروب کا کلیدی عہدہ اور مسیحی شہری


یہ کوئی نئی بات نہیں جب پاکستان میں غیر مسلم کے ساتھ ناروا سلوک نہ کیا گیا ہو بالخصوص غریب غیر مسلم کے ساتھ تو دوہرا تعصب ہوتا ہے حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اس مذہبی تعصب کو ایک خاص طبقہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ ویسے تو اس کی ابتدا پاکستان بننے سے پہلے ہی ہو چکی تھی جب پاکستان کا مطالبہ مذہبی بنیادوں پر حاصل کرنے کی جہدوجہد سے شروع ہوا تھا اور برصغیر کے عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا مسلم اور غیر مسلم، بمطابق مطالعہ پاکستان۔

ہندو اور مسلمان، یعنی ہندو جو کہ بتوں کو پوجنے والی قوم ہے جو ذات پات میں تقسیم ہے اور مسلمان ایک خدا پر ایمان رکھنے والے اور ہم سب خدا کی بارگاہ میں برابر ہیں، مطلب کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، فرق ہے تو وہ تقویٰ کی بنیاد پر۔ یہاں تک تو بات درست ہے لیکن جیسے ہی زمینی حقائق پر نظر دوڑائیں تو سب کچھ مختلف دکھائی دیتا ہے۔ نہ محبت، نہ بردباری، نہ اخلاقیات، نہ انصاف، نہ انسانی بنیادوں پر برابری۔

ویسے تو انسانوں میں برابری کا نہ ہونا فطری عمل ہے، زمین پر زندہ رہنے کے اپنے ہی اصول ہیں جیسے ہر طاقتور کمزور کو کھا جاتا ہے اور کمزور طاقتور کی غذا بنتا ہے۔ یعنی ہم سب ایک دوسرے کی خوراک ہیں اس کے باوجود بھی ہم اگر یہ بات کے دعوے دار ہیں کہ سب انسان برابر ہیں تو جس بنیاد ہم یہ دعویٰ کرتے کم از کم اس کی مان ہی لیں کیونکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب سے پہلے انصاف اور پھر محبت اور امن ہونا چاہیے کیونکہ بہرحال ہم ایک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں۔ افسوس یہ تینوں ہمارے ملک میں ناپید ہے۔

حسب روایت پچھلے دنوں کے پی کے میں محکمہ صحت میں نئی بھرتیوں میں ایک اشتہار چھپا جس میں مختلف پوسٹوں کے ساتھ خاکروب کی سیٹوں کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس میں حسب روایت ایک بار پھر خاکروب کی سیٹوں کے لیے غیر مسلم بالخصوص مسیحوں کو ترجیح دینے پر زور دیا گیا۔ خدارا! یہ وہی مسیحی ہیں جن کے سکولوں اور کالجوں میں پڑھ کر پاکستان کی اشرافیہ اور افسر شاہی آج اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں آپ اس قدر احسان فراموش ثابت ہوں گے اس بات کا ادراک تو شاید بابائے قوم کو بھی نہ ہو۔

پاکستان کی خدمت ہر پاکستانی پر فرض ہے لیکن فرض میں بھی طبقاتی اور مذہبی منافرت، جو اخلاقی طور پر قطعاً قابل قبول نہیں اور آئینی طور پر کیونکہ پاکستان کا آئین پاکستان کے ہر شہری کو اس کے دین اور عقیدے کی بنیاد پر ہراساں کرنے کے تاثر کو، چاہے وہ بول کر ہو یا لکھ کر، آرٹیکل 298 کے مطابق سزا وار سمجھتا ہے۔ اقلیتوں کی شرافت اور تربیت کا اندازہ کر لیں آج تک کسی نے ایسے افراد کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی۔

کس قدر حیرت کی بات ہے کہ جب یہ اشتہار بن رہا ہو گا تو یقیناً اسے کسی فرد واحد نے تو ڈرافٹ نہیں کیا ہو گا اور نہ ہی فرد واحد نے پاس کیا۔ یہ نہایت شرم اور افسوس کی بات ہے جب آپ سرکاری سطح پر جس پر آپ نے یہ حلف لیا ہے کہ پاکستان میں خدمت بغیر کسی تعصب، رنگ، نسل اور مذہب کے کروں گا اور پاکستان کا شہری پاکستان کا مالک ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔

اب وہ دو قومی نظریہ جس میں واشگاف ہندوؤں کے ممکنہ تعصب کے خوف کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے چودہ نکات میں سے ایک نکتہ رکھا گیا جس کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک چلی اور پھر بعد میں وہ تحریک کامیاب بھی ہوئی اور ملک پاکستان حاصل بھی کر لیا گیا۔ ویسے بابائے قوم کے خطبوں میں بھی اس بات کے خدشات کا اظہار ملتا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کا وجود ناگزیر تھا۔ لیکن وہ بات واقعی سچ تھی یہ پاکستان ایک خاص طبقہ کے لیے ہی لیا گیا تھا۔ یوں کہہ لیجیے طاقتور مسلمانوں کے لیے نہ کہ کمزور لوگوں بالخصوص غیر مسلموں کے لیے۔

دوسری بات اگر صفائی نصف ایمان ہے تو یہ فرائض غیر مسلم بالخصوص مسیحوں کے لیے ہی کیوں؟ کیا صفائی نصف ایمان صرف مسیحوں کے لیے ہی کہا گیا ہے؟ کیا ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں فیصلہ کن عہدوں پر صرف مسیحی لوگ شامل ہیں۔ افسوس صد افسوس اس سوچ پر۔ اس سوچ نے ہماری اجتماعی اخلاقیات کا پردہ فاش کر دیا ہے۔ روحانی معیارات اور سماجی انصاف کے دعووں کو چوُر چُور کر دیا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے آپ کو انگلی پکڑ کر لکھنا سکھایا، آپ کی توتلی زبان کو پڑھنا سکھایا، جب آپ کو اقتدار ملا تو آپ نے وہ سلوک کیا جو مصریوں نے اسرائیلیوں سے کیا، جو برما کی سرکار نے مسلمانوں سے کیا، جو ہندستانیوں نے کشمیریوں سے کیا۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے پنجاب اور سندھ میں کے کچھ اداروں کے اشتہاروں میں بھی ہوا ہے۔ اس مذہبی و طبقاتی تعصب پر پہلے ہی پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ اب آپ کو یہ جھوٹ مطالعہ پاکستان میں سے نکال دینا چاہیے جس میں ہندوؤں کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے مظالم کا ذکر بار بار کیا جاتا ہے۔ اب کس خوف کی بنیاد پر آئین میں یہ شرط رکھی ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اور صدر مسلمان ہی ہونا چاہیے۔

سچ تو یہ ہے کہ اس عہدے کے لیے غیر مسلم تو دور کی بات کوئی مڈل کلاس خاندان کا فرد بھی نہیں آ سکتا ہے۔ کیونکہ ہمارے وطن میں صرف اور صرف طاقتور، وڈیرہ، جاگیردار یا پھر سرمایہ دار ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو سکتا ہے۔ امن و انصاف کے فقدان اور اقتدار کے نچلی سطح تک منتقلی کے خوف نے ہمیں دنیا میں رسوا کر کے رکھ دیا، یہ وہی خوف ہے جس کو سامنے رکھ کر خاکروب کی پوسٹوں کے اشتہار میں غیر مسلم کو ترجیح دی جاتی ہے۔ حالانکہ صفائی تو نصف ایمان ہے۔ اس تعلیم کو ماننے والوں کو صفائی کی ملازمت قبول کرنے سے عار کیوں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments