نظر کی کمزوری جو انمول دعاؤں کا سایہ دے گئی


میں نے ڈرتے ڈرتے ابو کو بتایا کہ چونکہ مجھے بلیک بورڈ صاف نظر نہیں آتا اس لیے ہر ٹیسٹ میں فیل ہو رہا ہوں۔ توقع کے عین مطابق ابو بولے کہ میں بہانے بنا رہا ہوں اور اصل میں میرا پڑھائی میں دل نہیں لگتا اور میں کام چور ہوتا جا رہا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی کان کے نیچے ایک زور دار تھپڑ بھی پڑا۔

کافی دن سے سکول میں ہر ٹیسٹ میں میرا سکور گرتا جا رہا تھا۔ میں برا طالبعلم نہیں تھا۔ پچھلے سال نئے انگلش میڈیم سکول میں داخلے سے پہلے میں پرانے سکول میں کلاس کے پہلے چار پانچ بہترین طلباء میں شمار ہوتا تھا۔ نئے سکول میں بھی چھٹی جماعت میں میرا نتیجہ ٹھیک ٹھاک ہی تھا لیکن ساتویں میں یکایک میری کارکردگی بالکل گر گئی۔ اس کی وجہ وہ ہی تھی جو میں نے ابو کی بازپرس کے جواب میں بتائی تھی لیکن کسی کو یقین نہیں آیا تھا۔

مجھے بلیک بورڈ صاف نظر نہیں آتا تھا لیکن وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ باقی کلاسوں میں تو میں ساتھ بیٹھے لڑکوں کی کاپی سے سوال دیکھ کر جواب لکھ لیا کرتا تھا۔ یا آنکھیں تھوڑی میچ کر اور زور ڈال کر کچھ نہ کچھ پڑھ لیا کرتا تھا لیکن حساب کے انگریز ٹیچر ہر روز بلیک بورڈ پر ایک ٹیسٹ دیتے تھے اور پانچ سوال پانچ منٹ میں حل کرنے ہوتے تھے۔ اور کسی طرف دیکھنے کی سخت ممانعت تھی۔ ان حالات میں اور اتنی پابندی میں سوال دیکھنے کے لیے کسی حربے کے استعمال کا موقع ہی نہیں ملتا تھا اور وقت ختم ہو جاتا تھا۔

میں جوابات جاننے کی باوجود نہ لکھ پاتا کیونکہ سوال ہی نہ پڑھ سکتا اور یوں ہر ٹیسٹ میں فیل ہو جاتا۔ میتھ ٹیچر روز ڈائری پر میرے کالے کرتوت سرخ قلم سے لکھ کر گھر بھیج دیتے اور مجھے ابو یا امی کو دکھا کر دستخط کروا کر واپس لانی ہوتی جس سے روزانہ پٹائی اور بے عزتی ہوتی۔ زندگی عجیب مشکل میں پھنس گئی تھی اور نکلنا مشکل نظر آ رہا تھا کیونکہ امی ابو میری بات پر یقین کرنے پر تیار نہیں تھے۔

اللہ بھلا کرے میرے مرحوم خالو ساجد حسین صاحب کا جو ہمارے پڑوس میں ہی رہتے تھے اور جنہوں نے میری مشکل آسان کی۔ وہ ایک سرکاری ملازم تھے اور کافی پڑھے لکھے اور سمجھدار شخص تھے۔ ہوا یوں کہ وہ ایک دن ہمارے گھر عین اس وقت تشریف لائے جب مجھے اسی بات پر زبردست ڈانٹ پر رہی تھی۔ وہ بہت حیران ہوئے کیونکہ وہ میری گزشتہ اچھی کارکردگی جانتے تھے۔ جب ابو نے بتایا کہ صاحبزادے کا بہانہ ہے کہ اسے بورڈ صحیح سے دکھتا نہیں حالانکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ خالو نے جب مجھ سے تصدیق کی تو بولے کہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ اس کی نظر بھی تو خراب ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر ابو نے مجھے ایسے دیکھا جیسے میرے سینگ نکل آئے ہوں۔ گھر میں سب کی نظر ٹھیک تھی تو میری کیسے خراب ہو سکتی تھی۔ اور اس کا حل کیا ہو گا؟

خالو شاید خود اس مسئلے سے گزر چکے تھے اور جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ کل سکول سے واپسی میں صدر بازار میں خیبر آپٹیکو چلے جانا اور مالک دکان یوسف صاحب کو میرا بتا کر نظر چیک کروا لینا۔ میں نے ایسا ہی کیا۔

یوسف صاحب ایک بہت دھیمے اور شائستہ شخص تھے۔ پہلے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے؟ جب بتایا کہ بلیک بورڈ نظر نہیں آتا تو فوراً بولے کہ لگتا ہے دور کی نظر کمزور ہو گئی ہے۔ اس زمانے میں کمپیوٹر سے نظر چیک نہیں ہوتی تھی۔ ان کی دکان میں ایک نظر چیک کرنے والا انگریزی حروف تہجی والا بورڈ اور عدسوں والا بریف کیس تھا۔ مجھے سٹول پر بٹھا کر ایک عجیب سے فریم کی بغیر شیشوں والی عینک پہنائی گئی۔ اس کی بعد ایک آنکھ کو ڈھک کر دوسری آنکھ کے آگے ایک عدسہ لگا کر کہا کہ پڑھو اس بورڈ پر کیا لکھا ہے؟

میری جو کیفیت ہوئی وہ وہی سمجھ سکتا ہے جس کو پہلی بار اپنی خراب نظر چیک کروا نا یاد ہو۔ میری تو جیسے دنیا یکایک روشن ہو گئی ہو۔ مجھے پہلے تو کافی دیر تک یقین ہی نہیں آیا۔ پھر میں نے فر فر سارا بورڈ پڑھ لیا۔ یہی کچھ دوسری آنکھ کے ساتھ بھی کیا گیا۔ معمولی ایڈجسٹمنٹ سے عینک کا نمبر۔ 1.5 فائنل ہو گیا۔ پلاسٹک کا ایک فریم پسند کرنے کے بعد بتایا گیا کہ دو دن میں عینک مل جائے گی۔ اور دو دن بعد عینک مل گئی اور استعمال کرنا شروع بھی کر دی۔

اب کیا تھا۔ سارا بورڈ صاف صاف دکھنے لگا۔ اس دن کے بعد سارے ٹیسٹ اور امتحان پاس ہونے لگے۔ وہ تمام استاد جو مجھ سے مایوس ہو چکے تھے، دوبارہ مجھ پر توجہ دینے لگے۔ میں کند ذہن یا غبی تو کبھی نہیں تھا۔ بہ آسانی باقی ہم جماعتوں میں نمایاں ہونا شروع ہو گیا۔

انہی دنوں کسی نے بتایا کہ کیڈٹ کالج بھی کوئی ادارہ ہے جہاں اگر داخلہ مل جائے تو بہت ہی اعلٰی بات ہو گی اور زندگی سنور جائے گی۔ میرے فرشتوں کو بھی اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ انہی دنوں کیڈٹ کالج کوہاٹ میں آٹھویں جماعت میں داخلے کے ٹیسٹ کا اشتہار بھی سکول نے نوٹس بورڈ پر لگا دیا۔ ایک استاد سے پوچھا تو انہوں نے مقابلے میں شرکت کے لیے حوصلہ بندھایا۔ انکل ساجد نے ڈومیسائل وغیرہ اور فارم بھرنے میں مدد کی۔ بہت سے کٹھن مراحل بھی آئے لیکن، قصہ مختصر، سب کی امیدوں کے خلاف، پورے پاکستان سے منتخب ہونے والے سو بچوں میں میرا نام بھی آ گیا اور میں کیڈٹ کالج کوہاٹ پہنچ گیا۔

جن قارئین کو اس بارے میں علم نہیں، ان کو بتاتا چلوں کہ کیڈٹ کالج کوہاٹ 1964 میں قائم ہونے والا، حسن ابدال کے بعد ، ملک کا دوسرا کیڈٹ کالج تھا۔ اب تو ملک کے ہر کونے میں اصلی اور جعلی کیڈٹ کالج کھل گئے ہیں جن میں سے بہتوں کے پاس صرف چند کنال زمین ہوتی ہے۔ لیکن کوہاٹ کیڈٹ کالج 144 ایکڑ پر پھیلا ہوا شاید ملک کا سب سے بڑا کیڈٹ کالج تھا۔ اعلٰی منتظمین کے زیر نگرانی کیڈٹس کو نصاب کے ساتھ ساتھ پریڈ اور لازمی جسمانی ورزش، کھیل اور ہم نصابی سرگرمیوں میں مشغول رکھا جاتا تھا۔ صبح فجر کی نماز سے لے کر رات 10 بج کر 10 منٹ پر روشنیاں گل کرنے تک ہمارا ایک ایک منٹ مصروف رکھا جاتا تھا۔

اس صورتحال میں عینک کا استعمال مختلف مشکلات پیدا کرنے لگا۔ کبھی صبح سخت سردی میں دوڑ لگاتے ہوئے ہر چیز کو دیکھنے سے پہلے شیشوں سے بھاپ صاف کرنا پڑتی تو کبھی گرمیوں میں ہر وقت بہتے پسینے سے عینک کے فریم کی دھاتی ڈنڈیاں جلد کے ساتھ لگ لگ کر زنگ آلود ہو کر شدید خارش کا باعث بننے لگتیں۔ کبھی پلاسٹک کے فریم سے شیشے باہر نکل آتے تو کبھی دھاتی فریم ایسا ٹیڑھا ہوتا کہ سیدھا ہونے کا نام نہ لے۔ کبھی سوئمنگ کے لیے عینک اتار کر سائڈ پر رکھو تو کوئی شرارتی دوست چھپا لے تو کبھی خود کہیں رکھ کر بھول گئے اور کمزور نظر کے ساتھ سامنے پڑی عینک ڈھونڈ بھی نہ سکے۔ غرض عینک لگنے کے بعد زندگی دوسری قسم کی مشکلات میں پھنس گئی تھی۔ اس دوران ہر گزرتے سال عینک کا نمبر بھی بڑھتا جا رہا تھا جو آخر 6.5۔ پر جا کر رک گیا۔ یہ نمبر اتنا زیادہ تھا کہ بقول شفیق الرحمٰن ”یہ نظر ہرگز اس قابل نہیں کہ اسے نظر کہا جا سکے“ ۔

لیکن ایک اچھی بات بھی ہوئی۔ اس سارے عرصے میں عینک سے متعلق متعدد حادثات سے گزرنے کے بعد میں عینک کی ہر قسم کی چھوٹی موٹی مرمت کا ماہر بن چکا تھا۔ میں ٹیڑھا فریم سیدھا کر سکتا ہوں، پلاسٹک کے فریم سے نکلے شیشے واپس لگا سکتا ہوں، ٹوٹ پھوٹ کو ایلفی سے جوڑ سکتا ہوں۔ حتٰی کہ rim۔ less عینک سے نکلے شیشے بھی اس باریک ڈوری اور جھری میں واپس لگا سکتا ہوں۔ ایک دفعہ تو کالج میں فٹبال کھیلتے ہوئے فٹبال منہ پر لگا اور فریم بالکل سیدھا ہو گیا اور شیشے وہ دور جا پڑے۔

میں نے جوڑ جاڑ کے پھر پہن لیا۔ ایک دفعہ ایک لڑائی میں مد مقابل نے عینک کھینچ کر زمین پر پھینک دی اور جوتوں سے مسل دی۔ میں نے اسے بھی سیدھا کر کے پہن لیا۔ غرض میں عینکوں کا ایکسپرٹ بن چکا تھا۔ بعد میں گھر میں، یونیورسٹی کی کلاس میں، سائٹ پر، دفتر میں سب جاننے لگے۔ ہر کوئی اپنی ٹوٹی عینک میرے پاس لاتا لیکن میں لوگوں کی مدد کر کر کے تنگ آ چکا تھا۔ عام طور پر لوگوں کو کوئی بہانہ بنا کر مدد سے انکار کر دیتا۔

2005 میں چھوٹے بھائی شیراز کے ساتھ اللہ کے گھر جا کر عمرہ کرنے کا موقع ملا۔ دل کی نظر کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے بھی خانہ کعبہ دیکھا اور اللہ کا شکر ادا گیا۔ جب طواف اور نوافل سے تھک جاتا تو صرف بیٹھ کر حرم کی زیارت کرتا رہتا اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا۔

مدینہ میں ہمارا قیام کا ارادہ صرف ایک دن اور رات کا تھا کیونکہ ارادہ تھا کہ جدہ سے واپسی کی فلائٹ لینے سے پہلے مکہ میں جمعہ کی نماز اور ایک عمرہ اور کیا جائے۔ لیکن مدینے میں اگلی صبح سارے ارادے درہم برہم ہوتے نظر آئے۔

ہوا یوں کہ رات کو مسجد نبویﷺ میں نوافل وغیرہ کی ادائیگی اور جنت البقیع کی زیارت کے بعد جب بھوک لگی تو باہر نکلتے ہی قریب ہی ایک شوارما والا نظر آیا۔ میں نے آج تک شوارما نہیں کھایا تھا۔ بھائی نے بھی تعریف کی تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ آج آزمایا جائے۔ بھوک زور کی لگ گئی تھی۔ یاد نہیں شاید دو شوارمے کھا لیے۔ واقعی اچھا تھا۔ آب زم زم کافی پی چکا تھا تو منہ کا ذائقہ بدلنے کو، کھانے کے ساتھ ایک بوتل لبن (نمکین عربی لسی) لے لی جو بہت خوش ذائقہ تھی۔ خوب اچھی طرح کھا پی کر سیر ہو کر ہم ہوٹل جا کر سو گئے۔

رات کو شاید 3 یا 4 بجے ہڑبڑا کر اٹھنا پڑا اور واش روم کی جانب دوڑ لگائی۔ مت پوچھیے پھر کیا برا حال ہوا۔ متواتر اور زور زور سے قے اور اسہال نے ادھ موا کر دیا۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا محال ہو گیا۔ صبح تک ہر چند منٹ کی وقفے سے یہی بار بار ہوا۔ میری نقاہت اور کمزوری دیکھ کر بھائی نے کہا کہ ایک دن اور رک جاتے ہیں اور اگلے دن واپس مکہ چلے جائیں گے۔ یا اگر طبیعت نہ سنبھلی تو مکہ کی بجائے آخری دن ڈائریکٹ جدہ جا کر واپسی کی فلائٹ پکڑ لیں گے۔ مشکل یہ آن پڑی کہ عمرے کے سیزن میں ہوٹل کہ بکنگ میں توسیع ممکن نہ تھی۔ باہر نکل کر کوئی اور ہوٹل ڈھونڈنا پڑتا جس میں مزید خواری ہوتی۔

واپسی کی بس کی ٹکٹ ہو چکی تھی۔ بس کمپنی سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ بس میں واش روم بھی ہوتا ہے۔ سو اللہ کا نام لے کر واپس روانہ ہوئے لیکن متواتر واش روم کے چکر لگ رہے تھے۔ راستے میں ایک چھپڑ ہوٹل پر چائے کے لیے رکے تو ایک منرل واٹر کی بوتل خرید کر میز پر رکھی چینی کے چار چمچ اور کھلے نمک کا ایک چمچ ملا کر او آر ایس بنا لیا اور گھونٹ گھونٹ پیتا رہا جس سے بہت افاقہ ہوا اور ہم خدا خدا کر کے مکہ پہنچ گئے۔

میری نقاہت حد سے گزر چکی تھی۔ ایک ڈاکٹر کو دکھا کر دوا لی، دودھ پیا اور جا کر ہوٹل میں سو گیا کیونکہ اگلے روز جمعہ تھا اور ہماری واپسی تھی۔

میں پتہ نہیں کتنی دیر سوتا رہا۔ شیراز مجھے بتا کر ایک اور عمرہ بھی کر آیا لیکن میں سوتا رہا۔ بیچ میں اٹھ کر دودھ پی کر پھر سو گیا۔ میں اگلے دن کے لیے ساری طاقت اور ہمت مجتمع کرنا چاہتا تھا۔

اگلے دن جب جمعہ کی نماز کی اذان ہوئی تو میں ہمت کر کے بستر سے اٹھا اور نہا دھو کر حرم پہنچ گیا۔ جمعہ کی نماز میں مسجد کی چھت پر جگہ ملی۔ نماز کے بعد حرم سے واپسی کرنا تھی تاکہ جدہ وقت پر پہنچ سکیں۔ لیکن واپسی کو دل نہیں مان رہا تھا۔ حجر اسود کو بوسہ دینا یا ایک اور عمرہ کرنا تو نا ممکنات میں سے تھا۔ میں نے شیراز سے کہا کہ تم ہوٹل پہنچ کر سامان باندھو میں ایک طواف کر کے آتا ہوں۔

طواف کرتے ہوئے یکایک میری نظر ان دو عمر رسیدہ نورانی چہرے والی خواتین پر پڑھی جو زمین پر بیٹھی کچھ جوڑنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ شاید وہ جو بھی چیز تھی وہ ٹھیک نہیں ہو پا رہی تھی کیونکہ دونوں بار بار کوشش کر رہی تھیں اور ناکامی پر جھنجھلا کر دوسرے کو دے دیتیں۔ میں جب طواف پورا کر کے دوبارہ وہیں پہنچا تب سمجھ آیا کہ وہ کیا جوڑنا چاہ رہی تھیں۔

میں نے انگریزی میں ان سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کوئی اور زبان بول رہی تھیں جو شاید عربی بھی نہیں تھی۔ بات سمجھنے اور سمجھانے میں ناکامی پر میں نے ان کے ہاتھ سے وہ عینک لے لی جس کو جوڑنے کی تگ و دو ہو رہی تھی۔ عینک کا شیشہ نکل گیا تھا جو ان سے واپس نہ لگ رہا تھا۔ سالہاسال کے عینک جوڑنے کے تجربہ کے بعد یہ میرے لیے تو بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ میں نے فٹا فٹ شیشہ فریم میں واپس فٹ کیا، اپنے دامن سے اچھی طرح شیشے صاف کیے اور واپس پہننے کے لیے دے دی۔

اس دن مجھے لگا کہ شاید اسی دن کے لیے میں پچھلے کئی سالوں سے عینک پہن رہا ہوں، توڑ رہا ہو، جوڑ رہا ہوں۔

مجھے آج بھی ان فرشتہ خاتون کے چہرے کی وہ مسرت اور وہ مسکراہٹ نہیں بھولتی جو اس وقت نمودار ہوئی جب اس عینک کو لگا کر انہوں نے کعبہ کی طرف نگاہ کی۔

اور پھر ان دونوں نے میری جانب دیکھ کر اور دامن آسمان کی جانب اٹھا کر کسی انجانی زبان میں مجھے وہ دعائیں دیں جو میں سمجھ تو بالکل نہیں سکا لیکن ان دعاؤں کا سایہ آج بھی میرے ساتھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments