سوفٹ نیوز کتنی ہارڈ ہوتی ہے


اخبار کے دور سے کم عمر بچے کے پہلے پہلے قدموں جیسے چلنے والی صحافت اب گھوڑے کی طرح بھاگنے لگی ہے۔ وقت کی ضرورت کے حساب سے نصابی تبدیلیاں کم دیکھنے کو ملی لیکن صحافتی دنیا میں نئی نویلی دلہن کے نخروں کی طرح بڑھتے چڑھتے ٹرینڈز نے صحافتی ڈھانچے میں روح پھونک کے ڈجیٹل جرنلزم کا نام دے کر کچھ حد تک شُغل میلا لگا رکھا ہے۔

ڈجیٹل صحافت کا پتنگ جب ہوا میں اڑنے لگا تو سوشل میڈیا کی مانجھے کی زد میں ایسا پھنسا کہ پھر بڑے بڑے میڈیا ویب سائٹ نے اپنی ویب سائٹ میں ”فیکٹ چیک“ فیچر متعارف کروایا جس میں وہ بعض اوقات سوشل میڈیا کی خبروں کی تردید کرتے نظر آتے ہیں یہ بات کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اب زیادہ عام تب ہوگی جب اے آئی ٹول کی مدد سے تصاویر، ویڈیوز، آڈیوز سے جھوٹے سچے، سچے جھوٹے کیے جائیں گے۔

پھر سائبر سیکورٹی قوانین میں ترمیم اور پی ٹی اے کی جانب سے موبائل سم پر خبردار کی سرخی سے میسج کیا جائے گا۔ ان کو جنہوں نے موبائل سم کا استعمال چھوڑ دیا ہے، اور اسٹار لنک کی مدد سے انٹرنیٹ سروسز میں عنقریب داخل ہونے والے ہیں۔

میرے اور میرے جیسے نا جانے کتنوں نے موبائل کمپنیوں کے کال اور مسیجز فیچرز کو چھوڑ دیا ہے ٹیلی کمپنیوں کو بھی چاہیے کہ وہ انٹرنیٹ بنڈل کی اختتامی تاریخ کو واٹس ایپ پر میسج کر دیں۔ اے آئی بھی تو ہمارے واٹس ایپ فیچر میں گھس کے پھٹ گیا ہے۔

خیر واپس بات اور صحافت پر آتے ہوئے میں اس بات کا عرض کرتا چلوں کہ یہ یوں ہی ہوتا ہے جیسے ابھی میں کہیں سے کہیں نکل گیا تھا بالکل ایسے ہی صحافت کہیں سے کہیں نکل گئی پتا بھی نہیں چلا۔ جب پتا چلا کہ اب اتنا آگے نکل آئے ہیں کہ واپس جانا محال ہے تو وہاں ہم نے سافٹ نیوز کا کھمبا گاڑ دیا اب آؤٹ آف باکس جاکر کچھ بھی لکھ کر ہم بول سکتے ہیں یہ سافٹ نیوز ہے، میڈیا سے باہر کے بندوں کو بتاتا چلوں سافٹ نیوز سو کالڈ ”انٹرٹینمنٹ نیوز“ کی بات کر رہا ہوں۔

”عاصم اظہر نے اپنے انسٹاگرام پروفائل پر سے تمام پوسٹس ڈیلیٹ کر کے سب کو ان فالو کر دیا ہے“ یہ خبر ہے اور اس جیسی دن میں نا جانے کتنی خبریں سافٹ نیوز کے زمرے میں آتی رہتی ہیں لیکن کب سافٹ نیوز ہارڈ نیوز بن جاتی ہے اس میں اتنا ہی فرق ہے کہ عاصم اظہر ہے تو سافٹ نیوز ہے عاصم منیر ہے تو ہارڈ نیوز ہے۔ جیسے ابھی کل کی بات ہے نازش جہانگیر نے بابر اعظم کو ”سب کا بھائی“ بول دیا آج میرے سوشل میڈیا پر آنے والی خبروں میں زیر بحث رہی جبکہ (صوبہ سندھ کے محکمہ آبپاشی نے عالمی بینک کے تعاون سے دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والے سب سے پہلے اور تاریخی سکھر بیراج کی مرمت اور کُل 66 دروازوں میں سے 56 دروازے تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کر دیا ہے ) جیسی خبر کہیں انگوٹھے کے انگڑائی لینے کے بعد سامنے آئی۔

دلچسپ بات اور دلچسپی کا معیار بھی سب کا اپنا اپنا ہے ”میٹا (فیس بک ) کے بانی کو پاکستانی پچاس ارب روپے کا نقصان والی خبر انٹرٹینمنٹ نیوز کے فیچر میں ڈالنا کہاں کا انصاف ہے بھلا؟ جبکہ میرے جیسے (جو ماضی میں ویب ڈیسک ایڈیٹر رہا ہے ) کا پہلا سوال تو یہی ہو گا اتنے پیسے ہوتے بھی ہیں؟

بہرحال بات یہ ہے کہ سلمان خان کے گھر پر فائرنگ والی خبر سافٹ نیوز ہے اور اسی جواب دار کی گرفتاری ہارڈ نیوز ہے جبکہ سلمان خان کو رواں سال ملنے والی ڈیتھ تھریٹ پر تفصیلی خبر انویسٹی گیٹو جرنلزم کہلاتی ہے۔ لیکن ہم کیا پڑھنا چاہتے ہیں یا ہماری کیا دلچسپی ہے یہ بھی ایک کمیونیکیشن کے تھیوری ہے جس پر بھگدڑ میں صحافتی اصول روندے جا رہے ہیں اور اب اس ڈھانچے میں کون سی روح پھونک کر کون سا کبوتر بنتا ہے یہ شعبدہ باز کی مرضی ہے۔ تماشائیوں کو کبوتر سے مطلب ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments