کولکتہ میں یہودی عبادت گاہوں کے مسلمان متولی


سنہ 1772 سے سنہ 1911 تک، یعنی لگ بھگ 140 سال، کولکتہ برٹش انڈیا کا دارالحکومت رہا۔ کولکتہ جو کہ مغربی بنگال کے وسط میں دریائے ہگلی کے کنارے واقع ایک پُررونق اور کمرشل شہر ہے۔

خلیجِ بنگال سے 150 کلومیٹر دور اس شہر کی سٹرٹیجک پوزیشن کچھ ایسی تھی کہ ناصرف غیر ملکی تاجر یہاں تجارت سے غرض سے آتے تھے بلکہ چینی، یونانی اور آرمینیائی باشندوں سمیت کئی غیر ملکی برادریاں یہاں آ کر آباد ہوئیں۔

انھی برادریوں میں مشرقِ وسطیٰ کے یہودی بھی شامل تھے۔

آج کے دور کے عراق اور شام سے تعلق کی وجہ سے یہ یہودی ’بغدادی یہودیوں‘ کے نام سے پہچانے گئے۔ یہ یہودی تارکینِ وطن کولکتہ میں سنہ 1798 میں آباد ہونا شروع ہوئے تھے۔

ابتدا میں ایک یہودی تاجر شالوم کوہن یہاں روزی رزق کی تلاش میں آئے تھے اور اُن کی ہیروں، ریشم، کپاس، اور افیون کی کامیاب تجارت کی خبریں جیسے جیسے پھیلنا شروع ہوئیں تو کولکتہ کی یہودی آبادی میں اضافہ ہونے لگا اور 1900 کے اوائل تک ہزاروں یہودی کولکتہ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگے تھے۔

کولکتہ

دوسری جنگِ عظیم کے بعد تقریباً پانچ ہزار یہودی کولکتہ میں رہتے تھے۔ 1940 کی دہائی میں جب اس برادری کی آبادی اپنے عروج پر تھی، اس وقت کولکتہ میں پانچ کنیسا یعنی یہودی عبادت گاہیں تھیں۔ مگر انڈیا کی ایک وقت میں سب سے بڑی یہودی آبادی آج صرف 24 افراد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ زیادہ تر بغدادی یہودی اسرائیل، برطانیہ، کینیڈا، اور آسٹریلیا منتقل ہو چکے ہیں۔

مگر اس برادری کے لوگوں کی تعداد کم ہو یا بڑھے، اس نے ایک بین الاثقافتی روایت تین نسلوں سے جاری رکھی ہوئی ہے یعنی کولکتہ میں بچ جانے والے تینوں یہودی عبادت گاہوں کا خیال مسلمان خاندان رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

راجستھان کے ارب پتی تاجروں کے سنسان محل اور حویلیاں

’جگاڑ‘ لگانے کی ماہر قوم: مسائل کا غیر روایتی حل نکالنا کوئی انڈیا والوں سے سیکھے

بدتمیزی کی حد تک دوٹوک رویہ رکھنے والا شہر: ’ہمارے بیٹے کی شادی طے ہو گئی ہے، اب رشتے نہ لائیں‘

سنہ 1856 میں بنے کولکتہ کے ’بیتھ الکنیسہ‘ کی ماربل کی سیڑھیاں چڑھتے اور رنگین کھڑکیوں سے گزرتے ایک نایاب منظر دیکھنے کو ملتا ہے، چار مسلمان مرد اس کی لکڑی کی بنی بالکونیوں کو پالش کرتے، ’سٹار آف ڈیوڈ‘ کو چمکاتے، سات موم بتیوں کے منورے کو صاف کرتے نظر آتے ہیں۔

اس کنیسا کے منتظم سراج خان کا خاندان تین نسلوں سے اس عبادت گاہ کا خیال کر رہے ہیں۔ کولکتہ کی یہودی کمیونٹی کے جنرل سیکریٹری اے ایم کوہن کا کہنا ہے کہ شہر میں یہودی عبادت گاہوں کا خیال رکھنے والے سراج خان اور دیگر مسلمان یہودی برادری کا حصہ مانے جاتے ہیں۔

اسی یہودی عبادت گاہ سے 300 میٹر کی دوری پر شہر کا ایک اور کنیسا ’میگن ڈیوڈ‘ ہے۔ اٹلی میں ریناسانس دور کے طرزِ تعمیر پر بنی یہ لال عمارت بھی چار مسلمان مردوں کے ذمے ہے جن کے خاندان نسلوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ ’بیتھ ال کنیسا‘ کی طرح بھی یہاں مسلمان ہی کنیسا کھولتے ہیں اور صاف کرتے ہیں۔ صفائی ستھرائی اور دیگر کاموں کے دوران ہی یہاں کام کرنے والے نماز کے وقت جائے نماز کھولتے ہیں اور قبلہ رُخ ہو کر اپنی نماز پڑھ لیتے ہیں۔

کولکتہ کے آخری چند یہودیوں میں سے ایک یائل سلمن کے مطابق یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان کولکتہ میں ہمیشہ سے ثقافتی ہم آہنگی رہی ہے کیونکہ کولکتہ میں سب سے پہلے آنے والے یہودی عربی زبان بولتے اور عربی لباس پہنتے تھے۔

کولکتہ سے علاوہ بھی ان دونوں مذاہب میں ہم آہنگی کی ایک تاریخ ہے۔

دوسری جنگ عظیم سے پہلے اور اس کے ہنگامہ خیز برسوں کے دوران، بہت سے یورپی یہودی نازی جرمنی سے فرار ہو گئے اور کولکتہ میں محفوظ پناہ گاہ لی۔ اپنے مشرق وسطیٰ سے آئے پیشروؤں کی طرح، ان نئے آنے والے یورپی پناہ گزینوں نے جلد ہی محسوس کیا کہ اُن میں مسلمانوں کے ساتھ بہت زیادہ مماثلت ہے جو کولکتہ کے سب سے بڑے اقلیتی گروہ پر مشتمل ہیں، کوشر اور حلال کھانے کے درمیان مماثلت سے لے کر موسیقی اور رقص تک۔

سرا خان کہتے ہیں کہ ’خدا ہر جگہ ہے، چاہے وہ مسجد ہو، مندر ہو، چرچ ہو یا کوئی اور عبادت گاہ، اور اس نایاب عبادت گاہ میں کام کرنا خدا کی خدمت ہے جو میں پورے دل سے کرتا ہوں۔‘ سراج خان کے دادا اور والد ’بیت ال‘ عبادت گاہ کی دیکھ بھال کرتے تھے اور یہی کام سرا خان اب اپنے بھائی کے ساتھ مل کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب محبت اور مہربانی کی زبان بولی جاتی ہے تو اس کے نام یا شکل میں فرق نہیں کیا جانا چاہیے۔ اور یہ خاص رشتہ مجھے اس عبادت گاہ کے ساتھ محسوس ہوتا ہے۔‘

مغربی بنگال انڈیا میں مسلمانوں کی تیسری سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے اور اس کا دارالحکومت کولکتہ ہمیشہ سے مذہبی رواداری کا گڑھ رہا ہے۔ اس شہر کی 45 لاکھ کی آبادی میں سے اکثریت ہندوؤں کی ہے، دنیا بھر کے مسلمان، عیسائی، یہودی، بدھ مت اور سکھ اس ’شہرِ خوشی‘ میں طویل عرصے سے ایک ساتھ رہتے ہیں۔

آج کولکتہ میں ہندوؤں کا عید الاضحی منانے کے لیے مساجد میں مسلمانوں کے ساتھ شامل ہونا عام بات ہے۔

سنہ 1881 میں کولکتہ میں قائم ہونے والے یہودی لڑکیوں کے سکول میں اب زیادہ تر مسلمان بچیاں پڑھتی ہیں۔ اور ہر سال درگا پوجا کے مقدس ہندو تہوار اور عیسائی کرسمس کے تہواروں کے دوران، بنگالیوں کا ایک سمندر، مذہب سے قطع نظر، معمول کے مطابق سڑکوں پر رقص کرنے کے لیے نکل آتا ہے۔

اے ایم کوہن کے مطابق چند عوامل کی وجہ سے کولکتہ کی یہودی آبادی دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد غائب ہونا شروع ہو گئی۔

سب سے پہلے سنہ 1947 میں برطانیہ سے انڈیا کی آزادی نے انڈیا کے یہودیوں کے لیے ایک غیر یقینی مستقبل کا اشارہ دیا۔ بینکوں اور کاروباروں کو قومیا لیا گیا اور بہت سے یہودی املاک کے مالکان، اس ڈر سے کہ ان کے اثاثے انڈین حکومت نا قومیا لے، برطانیہ یا امریکہ چلے گئے۔

اس کے علاوہ سنہ 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام نے انڈیا اور دنیا بھر سے نئے ملک میں یہودیوں کی مستقل ہجرت کو ہوا دی۔

مزید پڑھیے

معروف انڈین ایٹمی سائنسدان کی ہلاکت جو آج بھی مفروضوں اور سازشی نظریات کا گڑھ ہے

’سر انڈیا ایک تھوکنے والا ملک ہے‘: انڈین عوام کو سرعام تھوکنے کی عادت کیوں ہے؟

’انڈیا کا سندھ‘ جہاں رہنے والوں کی کاروباری ذہانت پر باقاعدہ تحقیق کی گئی

آج کولکتہ کی کم ہوتی ہوئی یہودی آبادی کو ایک بہت ہی غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ بیت ایل اور میگن ڈیوڈ دونوں عبادت گاہوں کو اب آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ محفوظ ثقافتی عمارتوں کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، مگر شہر کی سب سے قدیم عبادت گاہ، نیوہ شالوم میں لوگوں کی کمی کی وجہ سے سنہ 1980 کی دہائی کے آخر سے ہفتہ وار جماعت منعقد نہیں ہوئی۔

یہودی منین اجتماعی کورم کے مطابق، 10 بالغ مردوں کا عوامی عبادت کی انعقاد کے لیے موجود ہونا ضروری ہے، مگر اب اتنی تعدادا میں درکار یہودی مرد باقی نہیں ہیں۔

1940 کی دہائی میں ایموناہ کلکتہ جیوش ٹرسٹ کے خزانچی ایان زکریا کو یاد ہے کہ روش ہشناہ اور یوم کپور کی تعطیلات کے دوران کولکتہ کی عبادت گاہوں میں لکڑی کی یہ نشستیں سینکڑوں عبادت گزاروں سے بھری ہوتی تھیں۔

اب تینوں عمارتیں صرف خصوصی منظوری کے بعد کھولی جاتی ہیں یا مسلمانوں کی دیکھ بھال کرنے والوں میں سے کسی ایک سے، جنھیں ایمانہ کلکتہ جیوش ٹرسٹ کی جانب سے مندروں کی دیکھ بھال کے لیے ادائیگی کی جاتی ہے، داخل ہونے کے لیے کہا جاتا ہے۔

کولکتہ میں رہنے والے تقریباً 24 یہودیوں میں سے زیادہ تر کی عمر 50 سال سے زیادہ ہے اور وہ اپنے اُن مسلمان بھائیوں سے زیادہ عمر کے ہیں جو عبادت گاہوں کی دیکھ بھال جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جیسا کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف تشدد اور سیاسی تناؤ دنیا کے بیشتر حصوں میں سرخیوں کی زینت بنتا رہتا ہے، کولکتہ کے مسلمان نگراں اور ان یہودی عبادت گاہوں کی دیکھ بھال کے لیے ان کی وابستگی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ان دونوں کمیونٹیز میں بہت کچھ مشترک ہے اور وہ اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کی اہمیت جانتی ہیں۔

کولکتہ کی یہودی آبادی جلد ہی ختم ہو سکتی ہے لیکن جب تک کنیساؤں کی دیکھ بھال کرنے والے، دروازے کھولنے اور زائرین کو خوش آمدید کہنے والا کوئی ہے، ان کے ورثے کا ایک حصہ اپنے مسلمان بھائیوں کی بدولت زندہ رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32609 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments