غیر نمایاں جگہ پر، نمایاں کارکردگی دکھانے والا !


معمول کے مطابق، مقررہ وقت پر، پی ٹی وی کی مارننگ ٹرانسمیشن کا آغاز ہو چکا ہے۔ شیڈول میں جس ترتیب سے پروگرام شامل ہیں، وہ ایک کے بعد ایک دکھاۓ جا رہے ہیں۔ سٹوڈیو میں موجود مہمان سے میزبان کی وقتاً فوقتاً گفتگو بھی جاری ہے۔ اچانک پی ٹی وی نیوز پر افسوس ناک اطلاع کے ساتھ، ایک ٹکر چلتا دکھائی دیتا ہے ” مشہور گلوکار مجیب عالم حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گۓ “۔ ایک اچھے فنکار کے بچھڑنے کا دکھ، یہاں موجود ہر شخص کو ہے۔ ساتھ ہی اس خبر سے یہ احساس بھی اجاگر ہوا ہے کہ لائیو ٹرانسمیشن تب ہی، لائیو محسوس ہوتی ہے جب اس دوران میں کچھ ایسا ہورہا ہو جس سے دیکھنے والا خود کو گردو نواح سے لنک کر سکے۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ مجیب عالم مرحوم کے حوالے سے ناظرین کو فوری طور پر کیا دکھایا جاۓ اور اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ کیسے دکھایا جاۓ۔ اگر نہ دکھا پاۓ، تو پھر یہ لائیو ٹرانسمیشن کیسی !

ٹی وی کی لائیو مارننگ ٹرانسمیشنز میں، اور دوسری بہت سی خصوصیات کے، ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس کے اوقات کار وہ ہوتے ہیں جب باقی تمام اسٹاف ڈیوٹی پر نہیں آیا ہوا ہوتا اس لیۓ اس کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد میں معمول سے زیادہ متحرک اور محتاط ہونے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کہیں صبح صبح، کسی چیز کے رہ جانے کا انکشاف نہ ہو اور تب اُس کی دستیابی بھی ممکن نہ ہو۔ تاہم ایمرجنسی، بہرحال ایمر جنسی ہے جس سے گریز ممکن نہیں اور اس کے لۓ کوئی راہ فرار نہیں۔

معمول کے معاملات ہوں یا ایمرجنسی، اس مارننگ ٹرانسمیشن میں، ہر مسلے کا حل، ایک ہی شخص کے پاس ہوتا ہے اور اُس کا نام ہے صدیق ! اس ناگہانی اطلاع پر بھی، اگر کچھ ممکن ہو سکتا تھا تو یہ طے تھا کہ وہ، صرف، وہ ہی کرسکتا تھا۔ ” ہاں صدیق، کوئی ایسی ٹیپ مل سکتی ہے جس میں مجیب عالم مرحوم کے نغمے ہوں”۔ مثبت آدمی نے آج تک اس طویل ذمہ داری کے دوران، کبھی منفی جواب نہیں دیا تھا، سو چہرے پر مایوسی نہیں تھی۔ یہ علیحدہ بات کہ یہ سب کے علم میں تھا کہ ٹیپس، جس وی ٹی آر لائبریری میں رکھی جاتی ہیں، وہ لائبریری اس وقت بند ہوگی۔

اب دیکھتے ہیں، صدیق کی کھوجی طبیعت، کن نتائج سے دوچار ہوتی ہے، مگر اس سے پہلے کہ صدیق کی واپسی ہو، اس موقع سے فائدہ اٹھا کر، آپ کو بتاتے چلیں کہ صدیق ہے کون !

ہمارے ہاں، عام طور پر کسی بھی دفتر میں کسی بھی نوعیت کی ٹیم ہو، اُس میں شامل، اُس سٹاف کو وہ شناخت اور ستائش کا حقدار نہیں سمجھا جاتا، جس کے دفتری درجات، دفتری کھاتے میں شائد بہت اہم تصور نہیں کئے جاتے۔ کام سے اُن کے لگاؤ اور وابستگی کو ویسے نہیں جانچا جاتا، جس کے  لئے وہ حقیقی معنوں میں جق بہ جانب ہوتے ہیں۔ وہ نمایاں تر، کر دکھانے پر بھی، نمایاں نہیں ہوتے۔

صدیق کا شمار پی ٹی وی کی لائیو ٹرانسمیشن کی بانی ٹیم کے ارکان میں ہوتا ہے اور غالباً جب تک وہ ٹرانسمیشن، اپنے ابتدائی مقام سے ہوتی رہی، صدیق اس کا حصہ رہے۔ صرف حصہ کہنا شاید زیادتی ہو، یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اُس کا بھرپور حصہ رہے۔ ہر چند کہ اپنی ذمہ داری اور عہدے کے مطابق اُن کا کام، محض احکامات اور ہدایات کی بجاآوری سے زیادہ نہیں تھا۔ مگر اپنے شوق اور دل چسپی کی وجہ سے وہ مارننگ ٹرانسمیشن کی مستند ڈائریکٹری کا روپ دھار چکے تھے۔ کسی ٹیپ کی تفصیل، کسی پروگرام کے چلنے کا سال، کسی خاص شخصیت کی ٹرانسمیشن میں شرکت، جو معلومات درکار ہے اور جہاں سے درکار ہے، بلا تردد جب چاہیں، میسر ہے۔ ٹیپس کہاں ہیں، کس نمبر کی ٹیپ میں کیا ہے، ٹیپس کی ظاہری شکل و صورت کیا ہے اور اُن میں موجود کون سی چیز کس ترتیب سے ہے، کسی کو یہ خبر ہو نہ ہو، صدیق باخبر ہے۔

سکرین سے ہٹ کر بھی، ٹرانسمیشن سے پہلے اور ٹرانسمیشن کے بعد کے معاملات کی ادائیگی کے لۓ، موزوں ترین لفظ اگر کوئی ہے، تو وہ (احساس ذمہ داری میں ڈوبی) فرض شناسی ہے۔ یہاں معمول کے کسی کام کے لۓ، یاددہانی کی یکسر ضرورت نہیں۔ صبح سویرے نیند کی حالت میں آۓ سٹاف کو جگاۓ رکھنے سے، ٹرانسمیشن کے دوسرے کاموں کو سلیقے سے سمیٹنے تک، کارکردگی کے معیار اور معیار کی سطح پر کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔

لیجیۓ صدیق کی واپسی بھی ہوگئی۔ ہاتھوں میں تھامی ٹیپ اُن کے نیک ارادے اور ایمرجنسی کا سامنا کرنے کی شان دار قابلیت کی گواہی دے رہی ہے۔ دراصل لائیو ٹرانسمیشن میں وقت کے گزرنے کی اہمیت بھی مقابلتاً زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ اب ٹرانسمیشن بھی اختتام پر ہے۔ صدیق کی بتائی گئی تفصیل سے پتہ چلا کہ لائبریری حسب توقع بند تھی لہذا مرکزی اسقبالیہ سے لائبریری کی چابیاں نکلوائی گئیں اور پھر اپنی حاضر دماغی اور یادداشت کو استعمال لاتے ہوۓ، ملے جلے نغموں کی ایک ٹیپ کو کہیں سے ڈھونڈ نکالا گیا، جس کی ڈوپ شیٹ میں دوسرے گلوکاروں کے علاوہ مجیب عالم مرحوم کا نام بھی درج تھا۔ مطلوبہ گانے کے لۓ ٹیپ فوری طور پر انجینر کے حوالے کی گئی۔

گانا کیو کرنے پر معلوم ہوا کہ اس میں مجیب عالم مرحوم نے، احمد رشدی کا مقبول ترین نغمہ ” اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم، تمہارے بنا ہم بھلا کیا جئیں گے ” گایا ہے۔ گانے کے بول موقع محل کے حساب سے بہت غیر موزوں بھی نہیں تھے البتہ میزبان نے اس نغمے کے آن آئیر کرنے سے پہلے، اور دوسرے تعریفی جملوں کے علاوہ، جو برجستہ کلمات ادا کۓ، اُس نے شائد اس نغمے کے انتخاب کو، بہت حد تک موزوں بنادیا ” آیۓ ناظرین، مجیب عالم مرحوم کی آواز میں ایک نغمہ سنتے ہیں جس میں وہ، اپنے ایک سینیر ساتھی کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں، اسی طرح کوئی جونئیر گلوکار، مجیب عالم صاحب کو بھی خراج عقیدت پیش کرے گا “

صدیق نے بالاخر آج بھی اپنا کمال کر دکھایا۔ یہ صرف، آج کی بات نہیں، یہ اُس لڑی کی کڑی ہے جو آغاز ہی سے، دیانت داری کے اسی جذبے کے ساتھ بنُی جا رہی ہے۔

جب یہ احساس، (شعوری یا لاشعوری طور پر)، دل میں جگہ بنا لے کہ قاصد یا نائب قاصد تو محض ایک عہدہ ہے، میں نے تو اپنی پوری صلاحیت اور پوری توانائی، اپنے فرائض کی ادائیگی کے لۓ وقف کر دینی ہے، تب، ایسا لگتا ہے، ایسے صدیق وجود میں آتے ہیں۔

کسی نفسیات دان نے کیا خوب کہا ہے “عجب ستم ظریفی ہے کہ ہمیں فاصلوں پر موجود، شہرت کے ہالے میں نظر آنے والے چہرے، بہت متاثر کرتے ہیں، مگر اپنے قرب و جوار میں، کسی شناخت کے بغیر، اپنے فرائض کی غیر معمولی انجام دہی کرنے والوں پر، ہماری نگاہ نہیں ٹھہرتی اور ہم اُنھیں اپنا رول ماڈل بنانے پر، خود کو آمادہ نہیں کر پاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments