ارشد شریف کا خون اور پیغام صبح انقلاب


ہر مقتول انسان اپنے قاتل کی نشاندہی اور انصاف کا حق رکھتا ہے لیکن ممکن ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح ارشد شریف کے قاتلوں کا سراغ بھی نہ لگ سکے اور معاملہ سپرد آخرت ہو جائے۔ لیکن وطن عزیز کا یہ عظیم صحافی محض ایک مقتول ہی نہیں بلکہ وطن عزیز کا ایک ناقابل فراموش شہید بھی ہے اور اس کی شہادت ہم سے جس انسانی شرافت و عظمت کا مطالبہ کرتی ہے اس کو عمل کی صورت دینا ہمارے اختیار سے باہر نہیں۔ اور وہ چیز اس قدر حساس اور ولولہ انگیز ہے کہ انسان کی روح میں ایک آگ لگا دیتی ہے۔

جس کے پس منظر میں جسم سے کھال کھینچنے والے کوڑوں، تازیانوں اور وحشت انگیز چیخ و پکار کی گونج اور وہ جارحیت کہ جس میں خواہش نفس اتنی بے شرمی پہ اتر آتی ہے کہ اپنی تسکین کی خاطر شیرخوار بچے کے منہ سے خوراک بھی جھپٹ لیتی ہے۔ اور عزت و عظمت، شرافت انسانیت کے سر پر بدصورت اور سفاک جلاد کی طرح کلہاڑا اٹھا کر چنگھاڑتی ہے۔

آگ اور خون کے اس کھیل کی اصل ذمہ دار دنیا کی وہ سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں ہیں کہ شکم سیری کے ذخائر اور عیش و آرام پرستی کے بے تحاشا وسائل کے باوجود ان کی ہوس کم نہیں ہوتی۔ درندگی کے ان ہولناک مناظر کے دہکتے انگاروں میں ارشد شریف مثل فولاد تپ کر سرخ ہوا۔ صحافت کی سان پہ تیز ہوا۔ اور ایسے حالات میں جب آزادی کو زنجیریں پہنائی جا رہی ہوں۔ افکار و خیالات کو مقید اور آوازوں کو خاموش کیا جا رہا ہو، آئین اور قانون کے نام پر لا قانونیت کی اجارہ داری ہو، زبانیں یا تو روپے پیسے سے خریدی جا رہی ہوں یا خنجر کی دھار سے کاٹی جا رہی ہوں۔

یہ مرد حر اٹھا اور مصیبت زدہ افلاس کے مارے محنت کشوں کے حق میں ایک ناقابل صلح تحریک اور جدوجہد کی علامت بن گیا۔ اس نے رسوائے زمانہ زر و جواہرات کے پجاریوں کے خلاف محنت کش مظلوموں کو اپنے قریب جمع کیا اور بھرے مجمعے میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ بیرون ممالک جائیدادوں کے ذخیرے، زر و جواہرات اور نوٹوں کے انبار تمھارے معصوم بچوں کے منہ سے نوالے چھین کر بنائے گئے ہیں۔ اس نے زمین کی تہہ میں دفن دستاویزات کی گرد اتاری اور یہ راز کھوج نکالے کہ یہ ہیبت و شوکت، جاہ و جلالت کے وسیع و عریض فلک بوس محلات کی تعمیر محنت کشوں اور مزدوروں کی ہڈیوں پر کی گئی ہے۔

اور پروٹوکول کی چمچماتی گاڑیاں تیل پر نہیں بلکہ بائیس کروڑ لوگوں کے خون پر چلتی ہیں۔ اس کی شعلہ بیانی کی کڑک اور قرطاس و قلم کی گرج سے فرعونوں اور قارونوں کے آسمان کو چھوتے ہوئے بلند و بالا قصر یوں لرزے کہ کھنڈر ہو گئے۔ اس نے جمہوریت کے نام پر ملوکیت، آئین اور قانون کے نام پر لاقانونیت، خوش حالی کے نام پر معاشی بربادی، ہمدردی کے نام پر مکر و عیاری، آزادی اظہار رائے کے نام پر قتل صحافت کے پردے بیچ چوراہے پر چیر ڈالے۔

یہ سر سبز و شاداب مثل فردوس وطن اس کا گھر تھا اس کی حالت اس محب وطن کی تھی جو اپنے گھر میں بھڑکتی آگ کے شعلوں پہ پانی ڈالتا ہے چیخ و پکار کر کے گھر کی چار دیواری کے اندر غفلتوں کی نیند میں ڈوبے اپنے ہم وطنوں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بیدار کرتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی جدوجہد درحقیقت موت کی طرف اس کی پیش قدمی ہے۔ لیکن اس مرد حریت کے ایمان و استقامت میں ذرہ بھر کمی نہ آئی۔ اس کے نزدیک خوف و لالچ غلامی اور بے حسی کی بزدلانہ خاموشی حق اور حقیقت کی حقیقی ذمہ داری سے انحراف اپنے وطن اور ہم وطنوں سے بد عہدی اور بے وفائی تھی۔

اس کے نظریات کو بدلنے اس کو جدوجہد سے باز رکھنے اور اس کے ایمان کو خریدنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں تو سفاک قاتلوں کے سائے اس کے تعاقب میں نکل پڑے۔ گولی بظاہر اس کے سر پہ ماری گئی لیکن نشانہ اس کی سوچ، اس کی حب الوطنی اور اس کی انقلابی فکر تھی۔ اسے دیار غیر میں تن تنہا بے یارومددگار قتل کر دیا گیا تو اس کے بہیمانہ قتل کو حادثے کا رنگ دیا گیا مگر شہید کے لہو پہ دجل و فریب کا رنگ نہ چڑھ سکا۔ اس کے قتل کو چھپایا گیا مگر اس کے لہو سے آسمان سرخ ہو گیا اور وطن کی فضاؤں میں صدائے ماتم گونج اٹھی۔

اس کی صدائے احتجاج کو خاموش کیا گیا لیکن خلق خدا اس کی ہم آواز بن گئی۔ میدان صحافت میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پہ جو بے پناہ محبت اور مقبولیت کی بلندی ارشد شریف کو حاصل ہوئی کسی اور کا نصیب نہ ہو سکی۔ عوام کے دلوں میں اس کی بے حد محبت اور مقبولیت کی بڑی وجہ اس کے موقف کی مضبوطی، دلائل کی سچائی، تحقیق کی گہرائی اور اس کا پرکشش، منفرد اور جاندار لب و لہجہ تھا۔ اس کی الم ناک موت پر دنیا بھر میں اس کے کروڑوں چاہنے والوں کی حالت سوگوار ہو گئی۔

بالکل ایسے جیسے ان کا کوئی اپنا ان سے چھین لیا گیا۔ شہید کا جنازہ پھولوں سے بھرا چمنستان تھا۔ اس کو سلام عقیدت پیش کرنے کراچی سے طور خم تک کے لوگ دوڑے چلے آئے تھے۔ عوام و خواص کے جم غفیر سے اٹھتی ہوئی آزادی کی صدائیں عرش کو چھو رہی تھیں، ہر ایک کے ہاتھوں میں محبتوں کے گلاب تھے اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔ گل پاشی اتنی اور ایسی کہ آفتاب کی سفیدی گلاب ہو گئی اور آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہر سو گلوں کی گہری گلرنگ مہکتی خوشبو کی لپٹوں کی لہروں میں جنازے کا سماں جنت نظیر تھا۔ اس مرد حریت نے بے حسی اور مایوسی کی خوف زدہ خاموش تاریک شب ظلمت میں آزادی کے دیپ جلائے اور اپنے خون جگر کی خوشبو سے وطن کی ہواؤں کو پیغام صبح انقلاب دے گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments