میثاق معیشت کی بجائے معاشی انتشار کی طرف پیش قدمی


وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے معاملات طے ہونے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ اور جب تک نواز شریف حکومت کے ’سرپرست اعلیٰ‘ ہیں، اس وقت تک اسحاق ڈار کی نوکری کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کیوں کہ انہیں یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ ڈار کے سوا ملکی معیشت کو سمجھنے اور چلانے کا کوئی اہل نہیں۔ شاید اسی تناظر میں دو روز پہلے پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ جو لوگ اسحاق ڈار کے خلاف ہیں، ان کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

ایک شخص کے لئے ملکی معیشت کو داؤ پر لگانے کی اس سے بدتر مثال تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور یہ سب ایک ایسے وزیر اعظم کی سربراہی میں ہو رہا ہے جو اپوزیشن لیڈر کے طور پر بھی میثاق معیشت کا ڈھول پیٹتے تھے اور گزشتہ سال اپریل میں وزیر اعظم بننے کے بعد بھی معاشی استحکام کے لئے باہمی تعاون، قومی اتفاق رائے اور مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں۔ لیکن عملی طور سے ان کی حکومت جو تحریک انصاف کی مچائی ہوئی معاشی تباہی کا ’علاج‘ کرنے کے لئے اقتدار میں آئی تھی، کسی اشتراک عمل کی بجائے ملک کو مسلسل معاشی انتشار اور تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔

حکومت گزشتہ کئی ماہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ بجٹ اور معاشی اقدامات کے حوالے سے معاملات طے کرنے میں مصروف ہے۔ خبروں اور بیانات میں ان معاملات کو خواہ جیسے بھی گنجلک الفاظ میں بیان کیا جائے لیکن حقیقت تو بہرحال اتنی ہی سادہ ہے کہ آئی ایم ایف مشکلات میں گھرے دیگر ممالک کی طرح پاکستان سے بھی یہی کہتا رہا ہے کہ وہ اخراجات کم اور آمدنی میں اضافہ کرے تاکہ ملک قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے علاوہ ملک کے غریبوں کو سہولت دے سکے۔ یہ وہی مشورہ ہے جو مالی مشکل میں پھنسے ہوئے کسی بھی شخص کو دیا جاسکتا ہے یا جب کسی گھر کا بجٹ قابو سے باہر ہونے لگتا ہے تو گھرانے کا سربراہ مصارف کم کرتا ہے تاآنکہ خاندان کی آمدنی میں اضافہ کا کوئی راستہ تلاش نہ کر لیا جائے۔

یہ ایک ایسی آفاقی سچائی ہے جس کا اطلاق ایک فرد سے لے کر ملکوں تک کی معیشت پر ہوتا ہے۔ جس معیشت پر بھی آمدنی سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے گا تو اس کی فعالیت پر متاثر گی۔ اور پھر وہ دن سامنے آ جائے گا جسے ڈیفالٹ کہا جاتا ہے۔ سری لنکا اور گھانا اس مشکل مرحلے کا سامنا کرچکے ہیں اور پاکستان کے لئے یہ مرحلہ نوشتہ دیوار دکھائی دیتا ہے۔ اسحاق ڈار کے سوا ملکی و عالمی ماہرین کی اکثریت موجودہ مالی سال کے دوران پاکستان کے دیوالیہ ہو جانے کو یقینی امر سمجھ رہی ہے۔ یہ خطرہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بگاڑ کر سنگین کیا جا چکا ہے لیکن اس بحران کے ذمہ دار شخص کو نہ تو اس کا احساس ہے اور نہ ہی اسے وزارت خزانہ جیسی ذمہ داری دینے والے لیڈروں کو دکھائی دیتا ہے کہ کسی معیشت کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے اور نعرے بازی کی بجائے ٹھوس اقدامات اور اصلاحات کے ذریعے ہی درست کیا جاسکتا ہے۔

اسی لئے حیرت ہوتی ہے کہ اسحاق ڈار اور حکومت بجٹ کی تیاری کے دوران مسلسل آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں مصروف رہے تھے۔ یعنی انہیں معلوم تھا کہ آئی ایم ایف ملکی بجٹ میں توازن کے لئے کون سی اصلاحات کا مشورہ دے رہا ہے۔ اس کے باوجود اسحاق ڈار نے ایک مہنگا اور غیر پیداواری بجٹ پیش کیا۔ یعنی اخراجات اور حکومتی مالی ذمہ داریوں کی ایک طویل فہرست شامل کرلی گئی۔ دفاعی و ترقیاتی مصارف میں اضافہ، سبسڈی دینے کا طریقہ، غیر پیداواری سرکاری اداروں کو سہارا دیے رکھنے کا فیصلہ اور انتخابی مہم کے دوران کھوکھلے دعوے کرنے کے لئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ جیسے اقدامات سے بجٹ کو عام لوگوں کے لئے خوشنما بنانے کی کوشش کی گئی۔ تاہم یہ سوچنا گورا نہیں کیا گیا کہ غیر یقینی آمدنی، قرضوں کے بھاری بھر بوجھ اور مصارف کی طویل فہرست والے اس بجٹ پر آئی ایم ایف تو کیا کوئی بھی مالی ادارہ قرض دے کر اپنی سرمایہ کاری کو کیوں غیر محفوظ کرے گا؟

اس صورت حال سے دو ہی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ آئی ایم ایف کے نمائندے حکومتی وفود کو جو مشورے دیتے ہیں، انہیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ دوسرے وزیر خزانہ یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ پاکستان کو قرض دینا آئی ایم ایف کی مجبوری ہے اور وہ بجٹ میں جیسی بھی حماقتیں کریں، کسی نہ کسی سیاسی یا سفارتی مجبوری کے تحت عالمی مالیاتی فنڈ پر دباؤ ڈال کر معاملات طے کروا لئے جائیں گے۔ تاہم یہ قیاس کرتے ہوئے اس حوالے سے معروضی حالات کا جائزہ لینے، سفارتی کوششوں کو تیز کرنے یا اہم دارالحکومتوں سے موصول ہونے والے اشاروں کو سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مہنگا اور غیر حقیقی بجٹ تیار کر کے حکومت نے عوام کے سامنے سرخرو ہونے کا سامان تو کیا لیکن یہ سوچنے کی کوشش نہیں کہ آئی ایم ایف کو پاکستانی حکومت کی سیاسی مجبوریوں سے زیادہ اپنے مالی مفادات کے لئے کام کرنا ہے۔ وہ اس بات کی ضمانت سے پہلے کہ کسی ملک کی معیشت کو قرض ادا کرنے کے قابل بنایا جائے گا، اس معیشت میں سرمایہ نہیں لگائے گا۔

آئی ایم ایف کے حوالے سے حکومت پاکستان کا رویہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان سے مماثلت رکھتا ہے جو انہوں نے امریکی جریدے نیوز ویک کو ایک انٹرویو میں اختیار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو امریکہ کی بھارت کے ساتھ پارٹنر شپ پر کوئی اعتراض نہیں اگر یہ پاکستان کی قیمت پر استوار نہ کی جائے۔ یعنی امریکہ بدستور پاکستانی مفادات کو اپنی ترجیح سمجھے۔ یہ کسی لال بجھکڑ جیسا طرز عمل ہے۔ جس ملک کی حکومت خود اپنے مفادات کے بارے میں ابہام کا شکار ہے، وہ دنیا کی سپر پاور سے اپنے لئے سہولت مانگ رہی ہے۔ ایسی سہولتیں بین الملکی تعلقات میں توازن اور ایک دوسرے سے جڑے مفادات کی بنیاد پر حاصل کی جاتی ہیں۔ پاکستان سے امریکہ کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ افغانستان سے فوجیں نکالنے کے بعد پاک امریکہ تعلقات پوائنٹ زیرو پر پہنچ چکے تھے۔ یہاں سے ان تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوار کیا جاسکتا تھا لیکن ایسی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ بلکہ پاکستانی میڈیا میں ان مباحث کو سرکاری سرپرستی میں آگے بڑھایا جا رہا ہے کہ اگر امریکہ نے پاکستان کا ساتھ نہ دیا تو اسلام آباد چین کا ہاتھ تھام لے گا۔ کمزور ممالک سفارت کاری میں دباؤ کے ایسے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرتے کیوں کہ وہ کارگر نہیں ہوتے۔

اسحاق ڈار بھی آئی ایم ایف کے ساتھ ایسا ہی کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ بجٹ پر آئی ایم ایف کی تشویش کا جواب دیتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ عالمی فنڈ پاکستان کے ساتھ یہ رویہ جغرافیائی سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے اختیار کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا دعویٰ تھا کہ درحقیقت آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان بھی سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہو جائے پھر اس سے مذاکرات کیے جائیں۔ ایک خاص سیاسی حلقے کے علاوہ اسحاق ڈار کی یہ باتیں کسی ذی شعور کو سمجھ نہیں آ سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی روز بعد وزارت خزانہ نے ایک بیان میں آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان کر بجٹ میں ترمیم کا اشارہ دیا۔

گویا اسحاق ڈار بھی جانتے ہیں کہ وہ پلان بی کے بارے میں جیسے دعوے بھی کرتے رہیں، ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف سے معاہدہ ضروری ہے۔ اس معاہدہ سے ایک تو موجودہ مالی پروگرام کی کچھ رقم وصول ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد یک نئے مالی پروگرام کے لئے راہ بھی ہموار ہوگی۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہی درحقیقت ورلڈ بنک اور دیگر عالمی اداروں کی طرف سے وسائل کی فراہمی کی بنیاد بنتا ہے۔ بلکہ اب تو متعدد دوست ممالک بھی اسلام آباد سے یہی تقاضا کرنے لگے ہیں کہ مزید امداد کے لئے آئی ایم ایف سے معاہدہ کر لیا جائے۔ ضرور جاننا چاہیے کہ یہ شرط کیوں عائد کی جاتی ہے؟ اگر آئی ایم ایف استحصالی طاقتوں کا کوئی ایسا فورم ہے جسے غریب ممالک سے ’سیاسی شرائط‘ منوانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو چین اور عرب ممالک بھی کیوں آئی ایم ایف سے معاہدہ کو ہی مالی تعاون کے لئے ضروری سمجھتے ہیں؟

اس کا جواب سادہ و آسان ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کسی معیشت کو منظم کرنے کے اقدامات یقینی بناتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے سیاسی مقاصد کے لئے عالمی مالیاتی ادارے کو ولن بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا ہے اور لاتعداد غیر ذمہ دار صحافی نعرے بازی پر مبنی تبصروں کے ذریعے آئی ایم ایف کو کسی ایسے سود خور سے مشابہ قرار دیتے ہیں جو محض اس لئے قرض دیتا ہے کہ ایک دن وہ کسی غریب کے گھر پر قبضہ کر لے گا۔ یہ تاثر گمراہ کن اور غلط ہے۔ اگر آئی ایم ایف ایسا ہی شیطان ادارہ ہے تو اس سے نجات حاصل کرنے کی بجائے اس کی رضامندی کے لئے کیوں کوششیں کی جاتی ہیں؟

یہ سارے حالات اور اسحاق ڈار کی کم فہمی یا خوش فہمی کی بنیاد پر بنائی گئی پالیسی ملک کو دھیرے دھیرے مکمل معاشی انتشار کی طرف دھکیل رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو صرف چین کا آسرا رہ جائے گا کہ اس سے قرض ری شیڈول کروا لئے جائیں۔ چین پاکستان کے ساتھ وابستہ اسٹریٹیجک ضرورتوں کی وجہ سے شاید پاکستان کو کچھ مراعات دینے پر آمادہ ہو لیکن اس کی اعانت بھی پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے قابل نہیں بنا سکتی۔ یہ کام پاکستان کو خود ہی کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم جس میثاق معیشت کی بات کرتے ہیں اسے محض سیاسی اتفاق رائے کی بجائے ٹھوس مالی اقدامات کے لئے ماہرین کی مشاورت پر استوار پالیسی کی شکل میں بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اسحاق ڈار جیسے وزیر و مشیر کے ہوتے ہوئے حکومت ہر آنے والے دن کے ساتھ خود کو سیاسی طور سے ہی تنہا نہیں کر رہی بلکہ ماہرین معیشت کی متفقہ رائے سے بھی دور لے جا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2777 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments