کوڑے کے ڈھیر پر سونے اور کھانے جیسے ’مشکل سین کر کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی‘: ماورا حسین

نازش فیض - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


پاکستان کی انٹرٹینمٹ انڈسٹری میں بہت کم وقت میں اپنی پہچان بنانے والی نوجوان اداکارؤں میں سے ایک ماورا حسین بھی ہیں جنھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز 2011 میں ڈرامہ سیریل ’کھچڑی سالسا‘ سے کیا۔ اس کے بعد ماورا کو ایک بعد ایک ہٹ ڈراموں میں دیکھا گیا اور انھوں نے انڈین فلم میں بھی کام کیا ہے۔

اگرچہ ماورا کے مداحوں نے ان کے ہر کردار کو پسند کیا تاہم آج کل ان کے دو نئے ڈرامے ’نوروز‘ اور ’نیم‘ آن ائیر ہیں۔

نیم میں ان کا کردار ایک ٹیچر کا ہے جس کا مقصد پاکستان کے ہر بچے تک تعلیم پہنچانا ہے۔ جبکہ نوروز میں ان کی ادکاری کو شائقین کی جانب سے خوب پذیرائی مل رہی ہے۔ اس ڈرامے کی ہر قسط سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہوتی ہے۔

نوروز کی کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے جو چھوٹے گاؤں سے بڑے شہر زندگی گزارنے آتی ہے اور اس دوران اُس کو کئی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔

بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں ماورا نے بتایا اُن کے لیے یہ ڈرامہ کرنا ایک نیا تجربہ تھا۔

‘یہ میرے لیے زندگی بدل دینے والا تجربہ تھا۔ ایسے بہت کم سکرپٹس آتے ہیں جس کو پڑھ کر یہ لگے کہ آپ اس کو نہیں کر سکتے ہیں۔ مجھے بھی جب یہ سکرپٹ ملا تو مجھے بہت پسند آیا مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں یہ کیسے کروں گی۔‘

کسی بھی کردار کو نبھانے کے لیے مکمل تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُس کردار کو انسان کو خود سے جوڑنا پڑتا ہے۔ ماورا نے اس کردار کو سمجھنے کے لیے ڈرامے کے پروڈیوسر شہزاد کشمیری سے بات کی وہ کس طرح اس کی تیاری کریں جس پر اُنھوں نے ماورا کو کہا کہ ’وہ کچھ بھی نہ کریں۔‘

کیونکہ بقول ان کے جس معیار کی وہ اداکاری کرتی ہیں اُسی طرح یہ کردار بھی کریں۔

پھر کیا پہلی قسط سے لے کر اب تک ماورا حسین نے شائقین کی خوب داد بٹوری ہے۔

جس پر ماورا کا کہنا ہے ’ایسا کم ہوتا ہے کہ کوئی ڈرامہ پہلی قسط کے بعد ہی ٹرینڈ کرنے لگے مگر نوروز کے مشکل اور حقیقت پر مبنی سینز نے لوگوں کے دلوں پر جگہ بنا لی ہے۔‘

’کپڑوں کی طرح چہرے پر بھی مٹی لگا لو یہ دنیا والے تمھاری بوٹیاں نوچ لیں گے۔‘ اس ڈائیلاگ کو سوشل میڈیا پر صارفین نے کافی پسند کیا اور اسی جیسے دوسرے سینز بھی عوام کو اس ڈرامے کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ثابت ہوئے مثلاً کبھی ماورا کوڑے کے ڈھیر پر سو جاتی ہیں تو کھبی منھ پر مٹی لگا کر کچرے میں سے کھانا ڈھونڈ کر کھاتی ہیں۔

ماورا کا ان سینز سے متعلق کہنا تھا کہ یہ تمام سینز اُن اور اُن کی ٹیم کے لیے شوٹ کرنا انتہائی مشکل تھے۔

وہ کہتی ہیں ’جب رشدینا کوڑا دان پر چٹائی ڈال کر سو رہی ہوتی ہے وہ سین میرے لیے بہت مشکل تھا۔ کیونکہ اُس وقت وہاں سچ میں لوگ سو رہے تھے اور کوڑے کی وجہ سے اتنی بو تھی کہ وہاں کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا۔‘

ماورا نے ہمیشہ ایسے ڈراموں میں کام کیا ہے جن کے ذریعے اُنھوں نے معاشرے میں خواتین کو در پیش چیلنجز کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے، جیسے کہ ثبات، آنگن، سمی، قصہ مہربانو کا وغیرہ۔

ماورا نے بتایا کہ وہ معاشرے میں خواتین کی نمائندگی کرنے کو بڑی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ ’میں اس کو بوجھ نہیں سمجھتی ہوں، مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں خواتین کے مسائل کو سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوں۔‘

ماورا کے مداح صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ انڈیا میں بھی موجود ہیں۔ جس کی وجہ اُن کی فلم صنم تیری قسم ہے۔ یہ ماورا کی انڈیا میں پہلی فلم تھی۔ یہ فلم زیادہ بزنس تو نہیں کر سکی مگر ماورا نے اس کی وجہ سے کافی پہچان بنا لی۔

ماورا نے پاکستانی فلموں میں زیادہ کام نہیں کیا ’جوانی پھر نہیں آنی 2‘ کے بعد اُنھوں نے اب تک کسی فلم میں کام نہیں کیا۔

جس پر ماورا نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں ڈرامہ انڈسڑی فلموں کے مقابلے میں زیادہ مقبول اور طاقت رکھتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’پاکستان کا نام ڈراموں نے بہت مقبول کیا اور دنیا بھر میں شائقین ان کو پسند کرتے ہیں۔ مجھے ڈراموں کے بنانے کا طریقہ بہت پسند آتا ہے۔ اور میں اچھے ڈراموں کی سکرپٹس کو کم اچھی فلم کی وجہ سے چھوڑ نہیں سکتی۔‘

پاکستان کی فلم انڈسڑی نے حالیہ عرصے میں ’مولا جٹ‘، ’لندن نہیں جاؤں گا‘ جیسی فلمیں بنائی ہیں جنھوں نے باکس آفس پر اچھا بزنس بھی کیا ہے۔ مگر اب بھی بین الاقومی فلموں سے مقابلے کے لیے پاکستانی فلم انڈسڑی کو وقت درکار ہے، جس سے ماورا بھی اتفاق کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’پاکستان میں فلمیں بنانا بہت مشکل ہے۔ ہمارے پاس سینیما کم ہیں۔ مگر جو بھی بنا رہے ہیں وہ بہت بہادری کا کام کر رہے ہیں۔‘

پاکستان اور انڈین فلموں کا موازنہ کیا جائے تو انڈین فلموں کا بزنس پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ ماورا نے کہا کہ ’دونوں ممالک کی فلم انڈسڑی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ کام کی نوعیت ایک جیسی ہے۔ مگر جس طرح پاکستان کی طاقت اُس کی ڈرامہ انڈسڑی ہے اُسی طرح انڈیا کی طاقت اُس کی فلم انڈسڑی ہے۔‘

ماورا نے فلم میکینگ یا اس سے جڑی دوسری کسی ڈگری کو حاصل کرنے کے بجائے بلکل مختلف شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ ماورا نے یونیورسٹی آف لندن سے وکالت میں ڈگری حاصل کی۔

اُن کا کہنا ہے ’میں نے ایل ایل بی کی ڈگری اپنے لیے حاصل کی ہے۔ میں اُن چیزوں کے بارے میں جاننا چاہتی تھی جن کے بارے میں مجھے معلوم نہیں ہے جیسے کہ پاکستان کا آئین یا پھر لندن کا قانون ہو۔‘

ماورا حسین

ماورا کے انسٹاگرام پر 80 لاکھ سے زیادہ فالوور ہیں۔ ماورا نے بتایا کہ اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنا ہو سکے وہ اپنے مداحوں سے بات کریں۔

’میرے فینز وقت نکال کر میری ویڈیوز اور تصویریں بناتے ہیں میری کوشش ہوتی ہے زیادہ سے زیادہ اُن کو شئیر کیا کروں۔ کیونکہ وہ ہمارا انتظار کر رہے ہوتے ہیں، اور ہم بہت خوش قسمت ہیں کیونکہ اب ہمارے پاس سوشل میڈیا ہے جس کی وجہ سے ہم ان سے جڑ سکتے ہیں‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32591 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments