خیر پور ٹامیوالی


Farrukh saleem Canada

”کیا مصیبت ہے۔ ایک تو اس بجلی کی آنکھ مچولی نے تنگ کر دیا ہے۔ ڈھنگ سے ٹی وی بھی نہیں دیکھ سکتے۔ “ میرے بیٹے نے جھنجھلا کر کہا

” ہاں، انٹرنیٹ بھی بار بار مسئلہ کر رہا ہے“ بیٹی نے بھی لقمہ دیا۔
تم لوگوں کو سکھ روگ لگ گیا ہے، اس لئے ایسی باتیں کر رہے ہو۔ میں نے کہا نہیں صرف دل میں سوچا۔

صبر شکر تو اس نئی نسل میں ہے نہیں۔ مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا، والدین یاد آ گئے خاص طور سے امی بہت یاد آئیں۔ آج سوچتا ہوں تو مجھے اپنی امی صبر و شکر کا ایک چلتا پھرتا نمونہ دکھائی دیتی ہیں۔ والد صاحب بھی بہت صابر و شاکر تھے، لیکن امی کی بات اور تھی۔

والد صاحب سرکاری ملازم تھے۔ پارٹیشن کے بعد پاکستان آئے تھے۔ میری پیدائش کے وقت ان کی پوسٹنگ کھیوڑہ میں تھی جو نمک کی کان کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے اور اسی وجہ سے سرکار کی اس چھوٹے سے شہر پر خاصی توجہ تھی۔ سرکاری کوارٹر اور ریسٹ ہاؤس تھے، بہت اچھا سرکاری ہسپتال تھا۔ اس وقت تک کچھ انگریز بھی سرکاری ملازمت میں تھے اور یوں کھیوڑہ میں اچھی خاصی سہولتیں موجود تھیں۔

کچھ عرصے بعد میرے ایک ماموں بھی انڈیا سے کھیوڑہ آ گئے۔ ماموں کو فیکٹری میں بطور لیبر افسر ملازمت مل گئی۔ وہ اپنی پڑھائی کے زمانے سے ہی مزدوروں اور کارکنوں کی سیاست میں پیش پیش تھے۔ جب مقامی طور پر حالات قابو سے باہر ہونے لگے اور پولیس کچہری کی نوبت آنے لگی تو بزرگوں نے یہی طے کیا کہ ماموں کو پاکستان بھیج دیا جائے۔ ان کے جنرل منیجر مسٹر ریڈ تھے۔ وہ ماموں کو ان کی صاف گوئی اور انسان دوستی کی وجہ سے بہت پسند کرتے تھے۔ مسٹر ریڈ کو اپنی ملازمت اور کھیوڑہ بہت پسند تھا اور وہ اپنے وطن انگلینڈ جانے میں قطعی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔

دو تین سال کھیوڑہ میں رہنے کے بعد تو والد صاحب کی ٹرانسفر (جسے عام زبان میں تبادلہ کہتے تھے ) کی تو لائن لگ گئی۔ کھڑیانوالہ، چشتیاں، حاصل پور، جڑانوالہ، اوکاڑہ، خیرپور ٹامیوالی اور بہاولپور وغیرہ۔ میں یہاں صرف خیر پور ٹامیوالی کا ذکر کروں گا۔ یہ جنوبی پنجاب کا ایک چھوٹا سا شہر بلکہ قصبہ تھا، مقامی زبان سرائیکی تھی۔ اس کے گردونواح میں تمباکو کی پیداوار ہوتی تھی۔ یہی مقامی لوگوں کا روزگار اور سرکار کے ایکسائز ڈیوٹی کا ذریعہ تھا۔ مہذب دنیا یعنی نزدیک ترین ریلوے سٹیشن نو میل دور تھا۔ ادھ پکی سڑک تھی اور سٹیشن تک تانگہ سے ہی پہنچا جا سکتا تھا کہ اس علاقے میں بس، ٹیکسی یا موٹر کار جیسی کسی سواری کا وجود نہیں تھا۔

کرائے کا مکان آدھ کچا تھا۔ پانی کے لئے ہینڈ پمپ تھا جو ہم بچوں کے لئے واحد انڈور تفریح تھی۔ پاس پڑوس کے ضرورتمند خاص طور سے خواتین اپنے گھڑے اور برتن لے کر پانی بھرنے چلی آتیں۔

ہمارے گھر میں بلکہ اس پورے علاقے میں ابھی بجلی نہیں آئی تھے۔ اس لئے پنکھے وغیرہ کا سوال ہی نہ تھا۔ چھت پر بڑے جھالر دار کپڑے کے ٹکڑے تھے، جن میں رسیاں لگا کر پاؤں سے کھینچا جاتا تھا۔ اس میں بھی بچہ پارٹی اور گھر میں کام کاج کرنے والوں کی ڈیوٹی لگتی تھی۔ والدہ کو مقامی زبان آتی نہیں تھی، میں اور آپا ان کے اور کام کاج کرنے والوں کے بیچ پنجابی اور سرائیکی میں ترجمانی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ والد صاحب بہت اچھی پنجابی بولتے تھے۔

دوپہر کے بعد پیسنجر ٹرین سے برف آتی تھی جو ٹاٹ کی بوری میں محفوظ کرلی جاتی تاکہ دوسرے دن تک چل سکے۔ ہمارے چھوٹے بھائی صاحب برف کے پانی کے دلدادہ تھے، اگر ان کو صبح شام برف کا پانی نہ ملے تو وہ رو دھو کر پورا گھر سر پر اٹھا لیتے تھے۔ شام کے وقت میونسپلٹی کا کارندہ گلی کے کنارے کھمبے پر چڑھ کر ایک دیا جلا کر چلا جاتا تھا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

گھر میں چند مرغیاں بھی پلی ہوئی تھیں جن کے انڈوں سے ہم لوگوں کا ناشتہ وغیرہ چل جاتا تھا۔ ان مرغیوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کے لئے باقاعدہ نام رکھے گئے تھے جیسے چتکبری، لنڈی، لڑاکا اور پتہ نہیں کیا کیا۔

دودھ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک گائے خرید لی گئی تھی۔ صبح ایک چرواہا اپنے ریوڑ کے ساتھ گائے چرانے لے جاتا تھا اور شام میں اسے گھر چھوڑ جاتا تھا۔ یہ میری ذمہ داری کی تھی کہ میں گائے کے آنے سے پہلے گھر کے دروازے کھلے رکھوں۔ میں دروازے کے پٹ کھول کر ایک پٹ کے پیچھے کھڑا ہو جاتا تھا۔ گائے اتنی بھوکی ہوتی تھی کہ ادھر ادھر دیکھے بغیر سیدھی اپنے چارے کے لئے ناند کی طرف لپکتی تھی۔ مجھے یاد ہے اس کا چارہ بھی خاص قسم کا ملغوبہ ہوتا چونکہ گائے کے دودھ کی مقدار ہم لوگوں کی ضرورت سے بہت زیادہ ہوتی تھی، اس لیے فالتو دودھ کی چھاچھ بن جاتی تھی جو گھر کے کام کاج والوں کے کام آ جاتی تھی۔

گوبر کا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ ضرورت مند بلا معاوضہ اٹھا کر لے جاتے تھے۔ وہ کچی ریواروں پر اس کے اپلے تھاپتے تھے اور خشک ہونے پر ان سے اپنے چولہے جلاتے تھے۔ گوبر کے ذکر پر مجھے یاد آیا کی جب نئی نئی گائے خریدی گئی تھی تو ایک دن ایک عورت آئی تو امی نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں آئی ہے۔ اس عورت نے سرائیکی میں کہا

”میں تو پھوسی چانن آئیاں“ امی کو سرائیکی تو آتی نہیں تھی، میں اور آپا ترجمانی کے لئے بلائے گئے۔ ہم نے اس سے پوچھ کر امی کو بتایا کی یہ عورت روزن گوبر اٹھا کر لے جائی گے اور ہمیں اس کے پیسے بھی نہیں دینے۔ سودا مناسب تھا، بحث مباحثہ کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

اس علاقہ میں بلا کی گرمی پڑتی تھی۔ امی کی طبیعت اکثر خراب رہتی تھی۔ اب اس علاقے میں کوئی ہسپتال یا ڈاکٹر تو تھا نہیں، حکیمی نسخوں پر ہی گزارہ تھا۔ امی بیچاری کس طرح گھر کے کام کاج کس طرح کرتی تھیں، مجھے یاد نہیں لیکن میرے حافظہ میں نہیں کہ انہوں نے کبھی شکایت کی ہو یا طعنے تشنہ دیے ہوں۔ جب کہ وہ ایک ایسے گھر سے آئی تھیں، جہاں ان کو ساری سہولتیں میسر تھیں، گھر میں نوکر چاکر اور دیگر کام کرنے والے تھیں، محبت کرنے والی ماں بہنیں اور بھائی۔ اس گھر میں جہاں سہولتیں نہ ہونے کہ برابر تھیں سارا کام خود کرنا پڑتا تھا اور اوپر سے شدید گرمی۔

میں اور آپا اکثر شام کے وقت ایک مقامی تندور پر روٹیاں لگوانے چلے جاتے تھے۔ آٹے کے ”پیڑے“ گھر پر بن جاتے تھے اور روٹیوں کی لگوائی کا معاوضہ فقط ایک پیڑا ہوتا تھا، پیسوں کے لین دین کا رواج نہ تھا۔ والد صاحب نے ترک مکانی کے وقت سرکار سے کچھ ایڈوانس لیا ہوا تھا تو کٹ کٹا کر ہر ماہ 80 فقط روپے ملتے تھے اور امی کو اسی میں گھر چلانا ہوتا تھا۔ وہ اتنی قلیل رقم میں کیسے گھر چلاتی تھیں پتہ نہیں۔

خیرپور ٹامیوالی میں کوئی سکول وغیرہ تو تھا نہیں، ہم لوگوں کو سیپارہ پڑھانے کے لئے ایک استانی جی گھر پر آتی تھیں۔ ان کا موثر ہتھیار ان کا دستی پنکھا تھا۔ جس سے آپا کی تو کم لیکن میری اچھی خاصی تواضع ہوتی رہتی تھی۔ خیر بندہ بھی بہت ڈھیٹ تھا۔ بقول ابن صفی کے کردار کیپٹن حمید ؓکے ”دو چار جوتوں میں عزت نہیں جاتی، ہزار بارہ سو مارنے کون آتا ہے“

والد صاحب کی بھی زندگی کچھ اتنی آسان نہیں تھی۔ انہیں اس پاس اور دور دراز کے تمباکو کے گوداموں میں تمباکو کا وزن کروا کر گورنمنٹ کی ایکسائز ڈیوٹی لگانی ہوتی تھی۔ اس علاقہ می پکی سڑکیں نہیں تھیں نہ سرکاری گاڑیاں ہوتی تھیں، اس قیامت کی گرمی میں والد صاحب اور ان کے ساتھ ایک دو سرکاری اہلکار گھوڑوں پر سوار ہو کر ”دورے“ پر جایا کرتے تھے۔ والد صاحب نے ہیٹ پہنا ہوا ہوتا تھا اور آج کل جس طرح ماسک پہنا جاتا ہے، پسینہ جذب کرنے کے لئے وہ ناک اور کانوں پر رومال لپیٹ لیتے تھے۔ ایک شکاریوں والی بوتل ہوتی تھی جس میں پینے کا پانی ہوتا تھا۔ یہ دورہ پورے دن کا ہوتا تھا اور بعض دفعہ باہر ایک دو راتوں کا قیام بھی ہوتا تھا۔

دن بھر کی قیامت خیز گرمی کے بعد شام کے وقت صحن میں چھڑکاؤ ہوتا تھا اور چارپائیاں بچھ جاتی تھیں۔ وہیں رات کا کھانا ہوتا تھا۔ رمضان میں والد صاحب افطار کے وقت صحن میں ٹہل رہے ہوتے تھے۔ اس زمانے میں لاؤڈ سپیکر تو تھے نہیں، افطار کے اعلان کے لئے گولہ چھوڑا جاتا تھا۔ جیسے ہی گولے کی آواز آتی والد صاحب لسی کے گلاس سے افطار کرتے اور ہم لوگ افطاری پر ٹوٹ پڑتے۔ بہت اچھے دن تھے۔

ہم لوگوں کو خیر پور ٹامیوالی میں رہتے ہوئے سال بھر بھی نہیں ہوا ہو گا کہ اس علاقہ میں قیام خیز سیلاب آ گیا۔ یہ اتفاق تھا کہ ہمارا گھر نسبتاً اونچی جگہ تھا، اس لئے زیادہ تباہی نہیں ہوئی ورنہ نشیبی علاقوں میں رہنے والوں کے گھر بار مویشی سب تباہ ہو گئے۔

کچھ عرصے کے بعد والد صاحب کا تبادلہ بہاولپور ہو گیا اور ہم خیرپور ٹامیوالی سے بہاولپور آ گئے۔ گو کہ خیرپور ٹامیوالی کی زندگی کی آسان نہ تھی لیکن اس نے مجھے زندگی کی نہ صرف تلخ حقیقتوں سے آشنا کیا بلکہ مجھے یہ بھی سکھا یا کہ والدین اپنی اولاد کے لئے کیا کیا قربانیاں دیتے ہیں۔ اللہ تعالٰی میرے والدین اور تمام دوستوں کے والدین کو جزائے خیر دے۔ امین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments