زندگی نہیں موت کے لیے ڈاکٹروں کی مدد کے طلب گار


اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ میں 24 مارچ کو اسکاٹش لبرل ڈیموکریٹ میک آرتھر نے ایک بل متعارف کرایا جس میں کہا گیا ہے کہ شدید اذیت و تکلیف سے دوچار ایسے بالغ افراد جو لا علاج بیماری میں مبتلا ہیں اور ڈاکٹر کی مدد سے اپنی زندگی خود ختم کرنا چاہتے ہیں، انہیں ایسا کرنے کا قانونی حق فراہم کیا جائے۔ یہ برطانیہ کا پہلا حصہ ہے جہاں اس طرح کا قانون منظوری کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اس سے قبل برطانیہ کے دارالعوام میں 2015 میں اس نوعیت کا ایک قانون منظوری کے لیے لایا گیا تھا جس میں انتہائی کرب ناک اور ناقابل علاج مرض کے شکار مریض کو یہ قانونی حق دینے کی بات کہی گئی تھی کہ وہ طبی نگرانی میں اپنی زندگی کو ختم کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کر سکتا ہے۔

جب مجوزہ قانون پر بحث کا آغاز ہوا تو ایوان میں جذباتی ماحول طاری ہو گیا۔ ایسا ہونا فطری عمل تھا کیونکہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح برطانیہ میں بھی خود کشی کرنا یا اس میں معاونت فراہم کرنا ایک قابل تعزیر جرم ہے، اس جرم کے مرتکب فرد کو چودہ سال تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ یہ قانون ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں بھی نافذ تھا جب کہ اسکاٹ لینڈ میں اس طرح کا قانون نہیں ہے البتہ خود کشی میں مدد دینے والوں کے خلاف انسانی قتل کے جرم میں کارروائی کی جا سکتی ہے۔ آج سے نو سال پہلے برطانوی دارالعوام میں اس قانون کو بھرپور طور پر مسترد کر دیا گیا تھا۔ اس قانون کی مخالفت میں 330 جبکہ صرف 118 ارکان نے اس کی حمایت میں ووٹ دیے تھے۔

وہ لوگ جو تکلیف دہ اور ناقابل علاج مرض میں مبتلا افراد کو طبی مدد کے ذریعے موت کے انتخاب کا حق دینے کے مخالف ہیں ان کا تعلق مختلف مکاتیب فکر سے ہے۔ تمام ابراہیمی مذاہب میں خود کشی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے لیکن، اکثر ہندوستانی اور ایشیائی مذاہب میں اپنی زندگی کو خود فنا کر دینے کی گنجائش موجود ہے۔ حقوق انسانی کے کارکن اور حامی جان لینے اور جان دینے کے شدید مخالف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ کسی ریاست یا عدالت کو کسی بھی انسان کو موت کی سزا دینے کا اختیار حاصل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو چیز آپ کسی کو دے نہیں سکتے اسے چھیننے کا اختیار بھی آپ کو حاصل نہیں ہونا چاہیے، مثال کے طور پر اگر موت کی سزا پر عملدرآمد کے بعد معلوم ہو کہ جان سے محروم کر دیا جانے والا انسان بے گناہ تھا تو اس غلطی کا ازالہ یا تلافی ممکن نہیں کیونکہ زندگی واپس نہیں لائی جا سکتی۔

اس نقطہ نظر سے قائل ہو کر اقوام متحدہ میں اب تک موت کی سزا کے خلاف چھ غیر پابند قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں۔ دنیا میں خودکشی کو قانوناً درست قرار نہیں دیا جاتا تاہم ایسا قدم اٹھانے والے کے خلاف تعزیری کارروائی سے عموماً رعایت برتی جاتی ہے۔ یورپ کے جن ملکوں میں اس حق کو قانونی طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے ان میں جرمنی، نیدرلینڈ، بیلجیم، اسپین اور لکسمبرگ شامل ہیں۔ ایک طویل پارلیمانی کشمکش کے بعد پرتگال میں ڈاکٹر کی مدد سے موت کے ذریعے جاں لیوا بیماری سے نجات حاصل کرنے کے حق کو مان لیا گیا ہے۔

امریکا کی کئی ریاستوں میں عدالتوں نے مریض کے ڈاکٹر کی مدد سے مریض کے مرنے کے حق کو تسلیم کر کے اسے قانونی حیثیت دے دی ہے لیکن امریکا میڈیکل ایسوسی ایشن اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتی۔ اس کا موقف ہے کہ ڈاکٹروں کا فرض شفا دینا اور زندگی کو بچانا ہے لہٰذا انہیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا وہ زندگی بچانے کی اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات پر عمل پیرا رہیں گے یا مریض کے اس قانونی حق پر عمل کریں گے کہ وہ ڈاکٹر کی مدد لے کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔

طبی مدد کے ذریعے مرنے کے حق کے حوالے سے جو قوانین وضع کیے گئے ہیں یا منظوری کے منتظر ہیں ان سب میں اہلیت کا ایک معیار قائم کیا گیا ہے جس میں درج ذیل باتیں مشترک ہیں۔

کوئی فرد کسی دباؤ میں آ کر اپنے لیے طبی مدد کے ذریعے موت کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ موت کا انتخاب کرنے والا فرد ہی طبی مدد مانگ سکتا ہے کوئی دوسرا اس کے لیے اس مدد کا تقاضا نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی کسی کو ایسا فیصلہ کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، موت کے لیے طبی مدد مانگنے والے کی عمر اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ ہونی ضروری ہے، اسے کوئی ایسی شدید تکلیف دہ بیماری لاحق ہو جو لا علاج ہو اور جس میں موت واقع ہونی یقینی ہو۔

مریض خود فیصلہ کرنے اور اسے بتانے کے قابل ہو، ہر ڈاکٹر پر یہ لازم نہیں کہ وہ مرنے کے لیے طبی مدد کی درخواست کرنے والے مریض کی مدد کرے۔ مریض اگر اہلیت تقاضے پورا کرتا ہو تو اس کے خاندان والے اس کے فیصلے سے اختلاف کے باوجود اسے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتے، اپنی خواہش سے طبی مدد کے ساتھ مرنے والا فرد اس عمل کو مستقل یا عارضی طور پر روک سکتا ہے، مدد کی درخواست کی منظوری کے بعد موت کے لیے جو نسخہ یا دوا فراہم کی جائے گی اس کے استعمال کرنے نا کرنے یا کب کرنے کا آخری فیصلہ خود متعلقہ مریض کا ہو گا۔

سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورچ میں قائم ڈگنیٹس (Dignitas) نامی ایک مشہور غیر منافع بخش ادارہ، کافی عرصے سے ان مریضوں کو باوقار موت کی خدمات فراہم کر رہا ہے جو شدید اذیت ناک اور لا علاج بیماری سے نجات پانے کے لیے طویل عرصے تک موت کا انتظار کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور جو اپنی رضا سے موت کو گلے لگانے کے لیے طبی مدد خواہش مند ہوتے ہیں۔ یہ ادارہ ایک سوئس وکیل اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن لدوگ مینیلی نے 17 مئی 1998 میں قائم کیا تھا۔

سوئس قانون میں خودکشی میں اعانت جائز ہے بشرطیکہ اس عمل میں کوئی ذاتی مفاد یا غرض وابستہ نہ ہو۔ اس ادارے سے رجوع کرنے والے فرد کو ایک آزاد طبی معالج اور ادارے کے ماہرین سے مختلف اوقات میں مشاورتی ملاقاتوں میں شریک ہو کر اپنے فیصلے کے حق میں ثبوت پیش کرنے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ درخواست گزار مریض کو آزاد گواہوں کے تصدیقی دستخط کے ساتھ قانونی طور پر قابل قبول ایک حلف نامہ بھی دینا ہوتا ہے۔ جان لیوا دوا استعمال کرنے سے چند منٹ پہلے تک مذکورہ فرد کو ایک بار پھر یہ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ اس دوا کو بڑی مقدار میں لینے سے زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا، اس سے کئی بار مزید پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ اپنے فیصلے پر عمل کرنا چاہتے ہیں، انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے پر غور کے لیے کچھ اور وقت ضرور لیں۔ تاہم، اگر مریض کہتا ہے وہ اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کرنا چاہتا تو ایک طریقہ کار کے مطابق اسے جان لیوا پینٹوباربیٹل نامی دوا پلا دی جاتی ہے جسے لینے کے تین منٹ کے اندر مریض گہری نیند میں چلا جاتا ہے اور 30 سے 40 منٹ کے بعد اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

اس موقع پر ایک امریکی شہری کریگ ایورٹ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ وہ اسکلیروسس نامی ایک ایسی مہلک بیماری میں مبتلا تھے جس کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ اس انتہائی تکلیف دہ اور لا علاج مرض سے نجات، موت کے ذریعے ممکن تھی۔ کریگ ایورٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ڈاکٹر کی مدد سے اپنی زندگی کا خاتمہ کب، کہاں اور کیسے کریں گے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی بیوی کے ہم راہ سوئٹزر لینڈ کے اسپتال ڈگنیٹس جانے کا فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے دو میں سے کسی ایک صورت حال کا انتخاب کرنا تھا۔ پہلا یہ کہ میں اذیت ناک زندگی گزارتے ہوئے بالآخر مر جاؤں اور اس دوران اپنے پیاروں اور دوستوں کو بھی دکھی و پریشان رکھوں جبکہ دوسرا انتخاب یہ تھا کہ میں طبی مدد کے ذریعے دنیا سے رخصت ہو کر اپنی تکلیف دہ لاعلاج بیماری سے خود نجات حاصل کرلوں اور اپنے پیاروں کی پریشانی بھی ختم کر دوں۔ لہٰذا میں نے سوچ سمجھ کر دوسرے راستے کا انتخاب کر لیا۔

کریگ نے اس فیصلے کے حوالے سے پہلے اپنی بیوی اور بچوں کو اعتماد میں لیا جس کے بعد انہوں نے قریبی عزیزوں اور دوستوں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر کے ان سے مشاورت کی۔ کریگ نے اپنے ایک فلم ساز دوست زارٹسکی سے کہا وہ اس کی زندگی کے آخری دنوں کی ایک ڈاکومنٹری فلم شوٹ کریں تا کہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے لوگ اس کے بارے میں جان اور سمجھ سکیں۔ دونوں ویت نام جنگ کے دور سے دوست تھے اور انہیں سیاست سے گہرا شغف تھا۔ یہ فلم
The Suicide Tourist
کے نام سے پیش کی گئی۔ کریگ کی اہلیہ آخری لمحے تک ان کے ساتھ رہیں اور اپنے شوہر کی خواہش پوری کرتے ہوئے انہوں نے اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کی۔

اس نوعیت کی اور بھی بہت سی داستانیں ہیں جنہیں پڑھ کر ہم خود کو دکھ کی ایک عجب کیفیت سے گزرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ دکھ اس بات کا کہ وہ لوگ کرب کی کس انتہا پر ہوں گے جس سے نجات کے لیے انہیں ایسے مسیحا کی مدد چاہیے جو دوا کے ذریعے ان کو موت کی دہلیز پار کرا دے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments