آج یونیورسٹی میں معمول کے مطابق جانا ہوا۔ کام سے فرصت کے بعد میں اکثر اپنے نہایت ہی شفیق محسن، بڑے بھائی بہادر علی کنگ صاحب کے آفس میں چلا جاتا ہوں۔ حسب معمول وہ اپنی کرسی پے بیٹھے اپنے کام میں مصروف تھے، سلام دعا کے بعد ابھی بیٹھا ہی تھا کہ انہوں نے پوچھا کیا بات ہے پروفیسر صاحب آج کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ میں نے کہا بس سر جی ہمارے ملک کا اللہ ہی مالک ہے جہاں دیکھو ہر طرف جرم ہی جرم ہو رہا ہے۔

ایک سوال میرے ذہین میں اکثر رہتا ہے کہ ہمارے پیارے پاکستان میں جرم روز بروز بڑھتا کیوں جا رہا ہے اور ہمارا پولیس ڈپارٹمنٹ کیوں جرم کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ بہادر صاحب چونکہ اپنے سٹوڈنٹس اور دوستوں کی وجہ سے اس محکمے سے اکثر جڑے رہتے ہیں۔ اس لیے سوچا کہ ان سے اس مسئلے کے بارے میں بحث کی جائے اور ان سے رائے لی جائے۔ تو گویہ میں نے ان سے یہی سوال دوبارہ دہرایا کہ سر ایسا کیوں ہے؟ تو انہوں نے نہایت ہی پیارے انداز سے اس ایشو پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

دنیا میں ہر جگہ جرائم بڑھ رہے ہیں، یہاں تک کہ مہذب دنیا میں بھی۔ ہر حکومت کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود بہت کم لوگ جرائم کی شرح کو کنٹرول کرنے، چیک کرنے یا حتیٰ کہ کم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہمارے بہت سے سماجی تجزیہ کار، گرما گرم بحث کے بعد اس مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ جرائم پر قابو پانے کے لیے ؛ اسے مقامی سطح پر چیک کیا جائے جہاں پولیس سٹیشن اپنے فرائض سرانجام دینے کے لیے موجود ہیں۔ مثلاً پولیس اسٹیشن کا بنیادی کام جرائم کی روک تھام ہے لیکن اس کے باوجود پولیس اسٹیشن جرائم کو روک نہیں پا رہے۔ جرم عام طور پر دو عمومی طریقوں سے آتا ہے۔
(الف) فرد کے خلاف جرم
(ب) جائیداد کے خلاف جرم

جرائم کے تیسرے اور بڑھتے ہوئے زمرے میں منشیات کی سمگلنگ، فروخت اور استعمال، بین الاقوامی فراڈ، منی ریکٹ، جعلسازی، امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی، سفید غلامی وغیرہ شامل ہیں۔ پولیس اسٹیشن کی سطح پر روک تھام کے روایتی طریقے گشت، نقب زنی، جرائم پیشہ افراد کی نقل و حرکت کے بارے میں انٹیلی جنس جمع کرنا اور ان پر نظر رکھنا ہیں۔ پولیس اسٹیشن کا عملی روایتی احتیاطی تدابیر کرتا ہے جس کی وجہ سے روک تھام کے طریقے نہ تو مستقل بنیادوں پر موثر ہوتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پولیس امن کی خلاف ورزی کے بعد یا جائیداد کے خلاف جرم ہونے کے بعد فریقین کے خلاف کارروائی کر کے حالات پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اس بے حسی کی وجوہات کئی گنا ہیں۔ ایک تو یہ کہ کام کا حجم پولیس اسٹیشن کے عملے کو مستقل بنیادوں پر موثر اقدامات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایک اور بات کے لیے، لمبردار جیسے کارکنان جو جرائم کی روک تھام میں مدد کرنے کے پابند تھے، پولیس کی مدد کے اپنے روایتی فرائض کو مکمل طور پر ترک کر چکے ہیں۔

عوامی سطح پر رضاکارانہ تعاون کا بھی فقدان ہے۔ اس کا خالص نتیجہ یہ ہے کہ جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے اور حالات کو درست کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔

مقامی سطح پر جرائم کی روک تھام کے لیے تجاویز کی ضرورت ہے سب سے پہلی اور اولین ضرورت تھانوں کی نفری میں اضافہ ہے۔ اس نکتے پر بار بار زور دیا گیا ہے اور گاؤں کی پولیس کو متعارف کرانے کی بھی سفارش کرنی چاہے۔ اس سے یہ ہو گا کہ جرم کو نچلی سطح پے ہو روک دیا جائے گا۔ اور دوسرا جاسوس کانسٹیبل کی پوسٹ پہلے سے موجود ہے لیکن اس آدمی کو ہمیشہ عمل کی خدمات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ جاسوس کانسٹیبل کو سرویلنس کے اپنے اصل کام پر واپس رکھا جائے جو اس کا کام ہے اگر وہ اچھے سے کرنے لگے تو تب بھی ہم جرائم پر قابو پا سکتے ہیں۔ ایک اور نہایت ہی ایم بات کہ کسی نہ کسی قسم کی پنچایت/ مصالحتی عدالتیں قائم کی جائیں۔ جیسا پہلے وقتوں میں تھا مشرف نے اس کو لاگو کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس کو بھی ناکامی ہوئی۔ اگر ہم اس کو اپنا لیں تو اس سے بہت سارے جرائم کا خاتمہ ہو جائے گا۔

ہمارے ہاں کچھ روایتی طریقے بھی اپنائے جا سکتے ہیں ان روایتی طریقوں میں سے، گشت کے لیے احتیاط سے منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ اعلیٰ افسران کو منصوبہ بندی میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔ شہروں اور قصبوں میں موبائل ایمرجنسی گشت متعارف کروانی چائے۔ وائر لیس سسٹم کو تھانوں کے نیچے تک استعمال کیا جانا چاہیے جہاں ٹیلی فون کنکشن دستیاب نہیں ہیں۔ اور جہاں بھی ممکن ہو پولیس اسٹیشنوں کو ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے۔ نقل و حرکت ان کی تاثیر کو کئی گنا بڑھا دے گی۔

ایک پرانی کہاوت ہے کہ علم جرم کی روک تھام کے لیے موزوں طاقت کے طور پر لاگو ہوتا ہے۔ ایس۔ ایچ۔ او کے دائرہ اختیار میں معلومات کے قابل اعتماد ذرائع ہیں جو جرائم کی آدھی روک تھام کی صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایس۔ ایچ۔ او اپنی ڈیوٹی اچھے سے انجام دے اور مقامی لوگوں کے ساتھ مناسب اور دوستانہ واقفیت رکے۔ کیونکہ ایسا ظاہر کرنا لوگوں کے دلوں میں پولیس کا احترام پیدا کرے گا اور لوگ پولیس کے پاس جانے میں کوئی آر محسوس نہیں کریں گے۔ لوگ اپنے مسائل خوشی خوشی ایس۔ ایچ۔ او کے گوش گزار کریں گے۔

معلومات کا ایک اور ذریعہ ریکارڈ ہے۔ اگر جرائم پیشہ عناصر کی موجودہ سرگرمیوں اور پس پردہ تمام مواد کو تیار اور اپ ڈیٹ کیا جائے اور سب سے بڑھ کر تمام متعلقہ افراد سے بار بار مشاورت کی جائے تو بہت زیادہ جرائم کو روکا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر اضلاع میں کریمنل ریکارڈ آفس نہ تو اپ ڈیٹ ہے اور نہ ہی مناسب شکل میں موجود ہے۔ ہم سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پر زور دینا چاہیں گے کہ وہ سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے سی۔

آر۔ اوز کو اپ ڈیٹ کیا جائے پھر ایسے طریقے وضع کیے جائیں جس کے تحت فیلڈ میں موجود ہر ایس۔ ایچ۔ او۔ کو وقتاً فوقتاً سی۔ آر۔ او سے ملنے کا موقع ملے۔ تاکہ وہ انفرادی مجرموں اور گروہوں کی سرگرمیوں پر نوٹس لیں۔ اسی طرح فنگر پرنٹس بیورو کو تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ اس سے کسی بھی حوالہ جات کا جواب چند گھنٹوں میں مل جائے۔

معلومات کا ایک اور ذریعہ مخبر ہیں۔ ایک اچھا ایس۔ ایچ۔ او ہمیشہ اپنے علاقے میں ہر اچھے اور برے معاملات کو جانتا ہوتا ہے اور یہ اس کی ڈیوٹی میں شامل ہوتا ہے اور یہ مخبر اس کے لیے معلومات کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ اس بات پر زیادہ زور نہیں دیا جا سکتا کہ ایجنٹوں، مخبروں اور جاسوسوں کو سنبھالنا اور ان کی حفاظت کرنا ایک انتہائی مخصوص طریقے سے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے اور اسے تمام پولیس افسران کی تربیت کا حصہ بننا چاہیے۔

(اسٹیشن ہاؤس افسر ) اور اس کے عملے کو جرم کی روک تھام اور پتہ لگانے دونوں میں تعاون حاصل کرنے کے لیے کمیونٹی کے ساتھ اپنی شناخت کرنی چاہیے۔ موجودہ رجحان یہ ہے کہ عملہ خود کو تھانوں کی حدود تک محدود رکھنا چاہتا ہے اور لوگوں سے اسی وقت رابطہ کرنا چاہتا ہے جب کوئی جرم سرزد ہوا ہو۔ پھر وہ امن و امان کی مخالف قوت کے طور پر لوگوں پر اترتے ہیں۔ ان حالات میں تعاون کی پیشکش کرنے کے لیے تیار واحد فریق شکایت کنندہ ہے جو عام طور پر زیر تفتیش معاملے میں سب سے کم مطلع ہوتا ہے۔

پولیس کو لوگوں میں شامل ہونا اور تعاون کرنا چاہیے۔ اگر ہم اخلاقی طور پر بھی دیکھیں تو دوبارہ ہتھیاروں کی اہمیت پر زیادہ زور نہیں دیا جا سکتا۔ اور اس مقصد کے لیے مسجد کا آسانی سے دستیاب پلیٹ فارم سب سے زیادہ موثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے اور ہونا چاہیے۔ حکام کی طرف سے اصلاحی کارروائی جہاں بھی ممکن ہو، کمیونٹی کی طرف سے ایسی کارروائی کی جائے، خاص طور پر نابالغ مجرموں کے معاملے میں۔ انہیں علاقے کے معزز شخص کے حوالے کیا جائے تاکہ ان کی نگرانی کی جائے اور فائدہ مندانہ کام کیا جائے۔ مقامی پولیس ایک مدت تک ان پر نظر رکھ سکتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ چھوڑ دیتی ہے۔ یہ طریقہ بہت سے لوگوں کو سخت مجرم بننے سے روکنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اگر پولیس ڈپارٹمنٹ ان اصولوں کو اپنا لیتا ہے تو کافی حد تک ہم جرم پے قابو پا سکتے ہیں۔

اور بھی بہت سی باتیں ہوئیں مگر آج کی گفتگو کا اختتام اسی بات پے کرتے ہیں کہ جس دن ہم خود ٹھیک ہو جائیں ہمارا معاشرہ خود ٹھیک ہو جائے گا اور جس دن ہمارا معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا تو سمجھ جائیں کہ پاکستان بھی ٹھیک ہو جائے گا۔