ریلوے کا خسارہ


چند دن قبل سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو کر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ جس میں چین کے صدر اور روس کے صدر پیوٹن ایک ایسی چینی ٹرین میں سفر کے دوران ناشتہ کر رہے ہیں۔ جو ساڑھے تین سو کلو میٹر کی رفتار سے چل رہی ہے۔ لیکن ان کی چائے اور سامنے رکھا ہوا پانی ذرا سا بھی ہلتا محسوس نہیں ہوتا اور ایسے ساکت نظر آ رہا ہے جیسے ٹرین چل نہیں رہی بلکہ رکی ہوئی ہے۔ دراصل یہ چینی ٹرین کی ٹیکنالوجی کا عروج دکھایا گیا ہے۔

 انڈونیشیا بلٹ ٹرین کا افتتاح کر چکا ہے۔ بنگلہ دیش بلٹ ٹرین چلانے کی جانب گامزن ہے۔ دنیا میں ریلوے کا یہ نظام کہاں تک ترقی کر چکا ہے اس بات کا اندازہ ان دونوں خبروں سے لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ملک پاکستان میں سالانہ چھ کروڑ افراد کو سفری سہولتیں پہنچا نے والا یہ ادارہ کسی طرح بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو پا رہا ہے۔

ریلوے کی تباہی اور اربوں روپے کا ماہانہ خسارہ، مال گاڑیوں سے آمدنی کا خاتمہ، ریلوے کی زمینوں پر قبضے، افسر شاہی کی موجیں، آئے روز کے حادثات سے خوفزدہ مسافر کرپشن کے قصوں نے اس سستے، خوش گوار، اور رومانوی ذریعہ سفر کو زوال پذیر کر دیا ہے۔ ریلوے کے عروج سے زوال کا یہ سفر بڑا دردناک ہے۔ جس نے اسے ایک خستہ حال ادارے میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا بھر میں ریکارڈ آمدنی کمانے والا ریلوے نظام صرف پاکستان میں ہی کیوں ناکام اور خسارے کا شکار ہے؟ اور ایک رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022۔ 23 ءکے پہلے سات ماہ میں ریلوے کا ریکارڈ خسارہ تقریباً تیس ارب سے زائد ہو چکا ہے۔ اور اس کی آمدنی خسارے سے پچاس فیصد کم ہو چکی ہے۔

کہتے ہیں انگریز لاکھ خرابیوں کے باوجود برصغیر میں دو کام بڑے عمدہ کر گیا۔ جو شاید اس دور میں ممکن نہ ہو پاتے اور آج بھی کالاباغ ڈیم کے منصوبے کی طرح متنازعہ بنے رہتے۔ ایک برصغیر کا نہری سسٹم اور دوسرا برصغیر میں ریلوے کا پھیلا ہوا وسیع اور طویل ترین نظام۔ جسے آج ہمارے لیے سنبھالنا اور اسے جاری رکھنا ہی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں جب 1814ء میں اسٹیفن سن کے بھاپ سے چلنے والے پہلے دنیا کے پہلے انجن کا دھواں اور شور نظر آیا تو وہ دنیا حیران تھی جو بیل گاڑی یا گھوڑا گاڑی کو ہی سفر کا تیز ترین ذریعہ سمجھتی تھی۔ ان کے لیے یہ رفتار کسی معجزے سے کم نہ تھی۔ رفتہ رفتہ ریل گاڑی ہر ملک کی ضرورت بن گئی۔ جس نے لوگوں کی زندگی میں ایک خوشگوار انقلاب پیدا کر دیا۔ جب یہ ریل گاڑی برصغیر پاک و ہند میں پہنچی تو یہاں کے لوگوں نے اسے اپنے اور اپنے ماحول اور اپنے جانوروں کے لیے ایک خطرہ سمجھا۔ ان کا خیال تھا کہ انجن کے شور سے ان کے جانور دودھ دینا بند کر دیں گے اور شروع میں وقت کے گاؤں کے مولویوں نے اسے کانا دجال قرار دیا اور انگریز کی اس پر سواری پر سفر گناہ قرار دیا بعض نے تو اس پر سواری سے نکاح ٹوٹ جانے کا خطرہ ظاہر کیا تھا۔

لیکن رفتہ رفتہ اس کی افادیت نے سب باتوں پر پانی پھیر دیا۔ ریلوے نے جہان فاصلوں کو کم کر دیا وہیں روزگار کے بے تحاشا مواقعے بھی فراہم کر دیے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ برصغیر کو انگریز راج نے نہیں بلکہ ریل راج نے فتح کیا۔ گو انگریز کا بنیادی مقصد تو دوسری جنگ عظیم کے لیے اپنی افواج اور ہتھیاروں کی نقل و حرکت میں تیزی لانا اور ساتھ ساتھ یہاں سے لوٹی گئی دولت کی لندن تک جلد اور تیز ترین منتقلی تھا۔ لیکن برصغیر کے عوام کو روزگار کے ساتھ ایک سستا اور خوشگوار ذریعہ آمد و رفت مل گیا۔

ان کے لیے ہر ریلوے اسٹیشن کسی خوبصورت مقام یا سیر گاہ سے کم نہ تھا۔ لوگ پلیٹ فارم ٹکٹ خرید کر ریل کو گزرتا دیکھتے تھے۔ دور سے کالے سیاہ، سیٹی بجاتے انجن کی اپنی ہی ایک دہشت ہوتی تھی۔ بہترین سہولتوں اور رفتار کی وجہ سے قیام پاکستان تک یہ ایک بڑا منافع بخش ادارہ بن چکا تھا۔ سڑکوں کی عدم موجودگی کی باعث یہ واحد ادارہ تھا جس نے اس برصغیر کے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج صدیوں بعد بھی ریلوے کا اسی فیصد وہی انفراسٹرکچر موجود ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ برباد ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انگریز کے بنائے گئے باؤنڈری کے جنگلے آج بھی ویسے ہی موجود ہیں۔ ویٹنگ روم اور دفاتر میں ان کا رکھا گیا فرنیچر اب بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن ہم اسے سنبھال نہیں پا رہے اور اس ادارے کا زوال اور خستہ حالی بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ مجھے یاد کہ قیام پاکستان سے 1970 ء تک یہ سب کچھ ٹھیک تھا اور کارگو کا زیادہ تر کام کرتا تھا۔ جو بہت منافع بخش ہوتا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کی رونق پر عروج ہوا کرتا تھا۔

لیکن پھر اچانک کیا ایسا ہوا کہ یہ ملک کا سب سے بڑا اور منافع بخش ادارہ یکایک خسارے کی شکار ہوتا چلا گیا؟ اور یہ ریل کیسے ڈی ریل ہو کر رہ گئی؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمدہ روڈ باور موٹر وے بننے اور لگژری اور آرام دہ روڈ ٹرانسپورٹ اس کی وجہ بنی ہے اور کچھ کا خیال ہے کہ یہ سب بد نظمی، بیڈ گورنس، نا قص منصوبہ بندی، اور کرپشن کا کیا دھرا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے ریلوے ملازمین کی بھاری پنشن اس خسارے کی وجہ ہے۔

بعض لوگ اس بربادی کا ذمہ دار سیاست دانوں اور ٹرانسپورٹرز کی ملی بھگت کو قرار دیتے ہیں تاکہ ٹرانسپورٹرز کے کاروبار کو سپورٹ کیا جا سکے۔ کارگو بزنس کی نجی شعبہ میں منتقلی بھی ایک بڑی وجہ بتائی جاتی ہے۔ وجہ جو بھی ہو بہر حال ریلوے زوال پذیر ہے۔ پرانے ٹریک حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔ بزنس میں کمی آ رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آج بھی ریلوے کے اثاثے، اراضی اور عمارات اتنے قیمتی اور زیادہ ہیں کہ یہ ادارہ آج بھی اپنا بوجھ خود اٹھا سکتا ہے۔ ریلوے کو کسی بیل آؤٹ پیکج سے زیادہ حکومتی توجہ اور ترجیح کی ضرورت ہے تاکہ اس بڑی نعمت کو پھر سے موجودہ جدید خطوط پر فعال اور بحال کیا جا سکے۔

مجھے پچھلے ماہ لاہور سے واپس بہاولپور آنے کا اتفاق ہوا لیکن جب اسٹیشن پر پہنچے تو دیر ہو چکی تھی۔ پاک بزنس ٹرین چلنے والی تھی۔ پلیٹ فارم پر موجود کنڈیکٹر گارڈ سے رابطہ کیا تو اس نے کہا آپ فلاں فلاں سیٹ پر بیٹھ جائیں ہمارا سٹاف آپ کی ٹکٹ اور ریزرویشن وہیں آ کر کردے گا۔ میری پوری فیملی کی پہلے سے ریزرویشن ہو چکی تھی۔ میں اور میری بیوی بھی ان کے ہمراہ ٹرین پر سوار ہو کر روانہ سفر ہوئے۔ رائے ونڈ کے قریب دو ریلوے اہل کار ٹکٹ چیک کرتے آئے تو ان سے ٹکٹ بنوانے کی درخواست کی۔

انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم گاڑی کی چیکنگ کر لیں تو پھر ایس ٹی صاحب آپ کو ٹکٹ بنا دیں گے۔ ساہیوال کے بعد وہ تشریف لائے اور کہنے لگے آپ کی ٹکٹ کے کل تقریباً پانچ ہزار روپے بنتے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ آپ ٹکٹ بنا دیں تو انہوں نے کہا سر آپ پانچ ہزار کیوں بھرتے ہیں۔ اگر صرف تین ہزار دے دیں تو ہم آپ کو ریلوے اسٹیشن بہاولپور سے باہر بھجوا دیں گے۔ میں نے کہا نہیں یہ غیرقانونی ہے۔ تو وہ کہنے لگے چلیں سر صرف دو ہزار ہی دے دیں۔ آپ کی بھی بچت ہو جائے گی اور ہمارا بھی بھلا ہو جائے گا۔ میں نے انکار کر دیا تو انہوں نے مجھے عجیب زہر آلود نظروں سے دیکھا۔ جیسے کہہ رہے ہوں کہ ”عجیب بے وقوف آدمی ہو“ اور میری ٹکٹ بنا دی۔ جس میں جرمانہ بھی شامل تھا۔ جو میں نے بلا کسی بحث کے ادا کر دیا تو وہ بولا سر! مرضی ہے آپ کی کہ آپ نے ہمیں تو دو ہزار نہیں دیے لیکن پانچ ہزار ریلوے کو دے دیے۔ جو افسر شاہی کھا جائے گی۔ آپ کے پانچ ہزار سے ریلوے کا خسارہ کبھی پورا نہیں ہونے لگا۔ لیکن دو ہزار سے ہمارے گھروں کا چولہا ضرور جل جاتا۔ میں سوچ رہا تھا لاہور سے کراچی تک اس ٹرین میں مجھ جیسے کتنے ہی مسافر ہوں گے جو اپنے پیسے بچانے کے لیے ملک اور قوم کے اس ادارے کو نقصان پہنچا رہے ہوں گے ۔ ذرا سوچیں جب ہمارے ان چھوٹے ملازمین کی یہ سوچ ہو جائے تو بڑوں کا کیا حال ہو گا۔ ان حالات میں بھلا یہ ادارہ کیسے منافع میں آ سکتا ہے؟ کب تک ریلوے کرائے بڑھا کر اور عام لوگوں پر بوجھ ڈال کر خسارے کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کرتا رہے گا؟

ہمیں جدید دنیا کے ساتھ ساتھ چلنے کے لیے اپنے اس قومی ادارے کی اصلاح اور بہتری کے لیے سوچنا ہو گا کیونکہ یہ صرف ہمارے قومی اثاثے اور غریبوں اور عام آدمی کی سہولت کا ہی نہیں بلکہ لاکھوں افراد کا روزگار کا بھی معاملہ ہے۔ ہمارے ہمسائے ملک ہندوستان میں بائیس ہزار ٹرینیں چل رہی ہیں گیارہ لاکھ ملازمین کے ساتھ فی ٹرین صرف تریپن ملازم بنتے ہیں جبکہ پاکستان میں دو سو اٹھائیس ٹرینوں کے لیے اکیاسی ہزار ملازمین کے ساتھ یہ تعداد تین سو پچاس ملازم فی ٹرین ہے۔ بھلا پھر ریلوے خسارے میں کیوں نہ ہو؟

جاوید ایاز خان
Latest posts by جاوید ایاز خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments