آئینی حدود کا قضیہ


ملک میں آئین کی بالادستی کا معاملہ سنگین مباحثہ کی صورت اختیار کرچکا ہے لیکن بادی النظر میں اس نعرے کو سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یعنی آئین کو مضبوط اور فعال بنانے کے لیے کوئی سیاسی اتفاق رائے دیکھنے میں نہیں آ رہا بلکہ اقتدار سے محروم پارٹیاں اپنی محرومی کے اظہار کے لیے آئین کے تحفظ کی بات کر رہی ہیں۔

کسی بھی جمہوری نظام کی بنیاد آئین کی مقررہ حدود پر ہی رکھی جاتی ہے۔ اسی لیے انتخاب کے ذریعے حکومت سازی کے طریقے پر عمل کرنے والے ممالک میں آئین کی بالادستی بنیادی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ غیر جمہوری، آمرانہ یا شخصی حکومتوں میں بھی آئین تو نافذ العمل ہوتا ہے لیکن ایسے نظام میں چونکہ ملک کے تمام شہریوں کو حکومتی انتخاب میں حصہ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہوتا، اس لیے وہاں آئین کی حیثیت بھی حکمران فرد یا طبقے کی مرضی و منشا کے تابع ہوتی ہے۔ یعنی اگر قانون کی کتاب میں کسی معاملہ کو حل کرنے کا ایک طریقہ لکھا بھی ہو تو حکمران کی مرضی سے اسے کسی وقت بھی تبدیل کر کے کوئی ایسا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے جو اس آئینی تقاضے سے متصادم ہو۔ ملکی آئین ایسی خواہش کو تبدیل کرنے کے لیے موم کی ناک کی طرح تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

البتہ جن ممالک میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ حکمران چننے کا حق بہر طور عوام کو ہی حاصل ہے اور وہ ووٹ کے استعمال سے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں جو اکثریت حاصل کرنے کی صورت میں حکومت سازی کرتے ہیں۔ ایسے میں پارلیمنٹ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اگرچہ جن ممالک میں صدارتی نظام موجود ہو وہاں صدر کو فیصلہ سازی کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کو صدر کی نگرانی کرنے یا اس کے فیصلوں میں رد و بدل کا اختیار ہوتا ہے۔ امریکہ اور فرانس میں ایسا ہی نظام کام کرتا ہے۔ البتہ پارلیمانی نظام حکومت میں جسے آئین کے مطابق پاکستان میں بھی اختیار کیا گیا ہے، پارلیمنٹ ہی بالادست ہوتی ہے۔ ایوان میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی یا پارٹیوں کے اتحاد کو حکومت سازی کا موقع ملتا ہے اور وہ جسے قائد ایوان منتخب کر لیں، اسی کو وزیر اعظم مان لیا جاتا ہے۔

تاہم منتخب ہونے کے باوجود وزیر اعظم اور اس کی کابینہ ہر موضوع پر پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتی ہے۔ تمام اہم فیصلوں کی منظوری بھی پارلیمنٹ سے لی جاتی ہے۔ یہ نظام اسی صورت میں کامیابی سے کام کرتا ہے جب اقتدار سنبھالنے والی پارٹیاں پارلیمنٹ میں موجود دیگر تمام ارکان کے بارے میں بھی یہی گمان رکھتی ہوں کہ وہ بھی عوام کے نمائندے ہیں اور انہیں بھی لوگوں نے ووٹ دے کر ان کی خواہشات کے مطابق فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینے کے لیے منتخب کیا ہے۔ تاہم پاکستان کی حد تک دیکھا گیا ہے کہ منتخب ہونے والا گروہ اپوزیشن کی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتا اور اپوزیشن بھی امور حکومت میں معاونت کی بجائے، روڑے اٹکانے اور برسر اقتدار پارٹیوں کو ناکام بنانے کی حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے درمیان عدم اعتماد کی وجہ سے یہ صورت حال اس وقت سنگین صورت اختیار کرچکی ہے۔ حکومت اپوزیشن کے حقوق پامال کرتے ہوئے آئین کی حفاظت کا نعرہ لگاتی ہے جبکہ اپوزیشن پارٹیاں ایسے ماحول میں مسلسل آئین کو لاحق خطرہ کی بات کرتی ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں یہ صورت حال زیادہ شدت سے دیکھنے میں آئی تھی کیوں کہ عمران خان کے سیاسی نعرے کے مطابق اپوزیشن کی تمام جماعتیں بدعنوان لوگوں پر مشتمل تھیں جن سے کوئی مفاہمت یا مکالمہ ممکن نہیں ہے۔ یہ طریقہ آئینی تقاضوں اور اصولوں کو پامال کرنے کے مترادف تھا لیکن جب تک تحریک انصاف کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی، اپوزیشن کو سوائے شور مچانے اور الزام لگانے کے سیاسی معاملات میں حصہ داری کا موقع نہیں دیا گیا۔ اسی سیاسی تصادم کی وجہ سے اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہو گئی۔ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے فاصلہ اختیار کر رہی تھی، اس لیے اپوزیشن پارٹیوں نے عملیت پسندی کے نام پر اقتدار سنبھالنا معیوب نہیں سمجھا اور ملک میں سیاسی تصادم میں شدت دیکھنے میں آئی۔

قیاس کیا جا رہا تھا کہ انتخابات کے بعد یہ صورت حال تبدیل ہو جائے گی اور عوام کے منتخب نمائندے ایک موثر اور مضبوط حکومت بنا سکیں گے تاکہ ملک کو معاشی و سیاسی مسائل سے نکالا جا سکے۔ البتہ انتخابات میں کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی اور تحریک انصاف نے خاص طور سے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسلسل احتجاج کا فیصلہ کیا۔ اس صورت میں حکومت کے اعتماد کے علاوہ اس کے اختیار میں کمی واقع ہوئی۔ فیصلہ سازی میں اسٹیبلشمنٹ کی برتری دیکھنے میں آئی اور جو پارٹیاں اقتدار سے محروم رہیں، انہیں اب آئین شدید خطرے میں دکھائی دینے لگا ہے۔ حالانکہ گزشتہ دور حکومت میں بھی تقریباً ایسی ہی صورت حال تھی البتہ اس بار اقتدار اور اقتدار سے باہر ہو جانے والی پارٹیاں تبدیل ہونے سے زیادہ پریشان کن صورت حال دیکھنے میں آ رہی ہے۔

اس مشکل سے نکلنے کا ایک طریقہ تو سیاسی پارٹیوں کے درمیان تعاون و مل جل کر کام کرنے کا کوئی فارمولا ہو سکتا تھا لیکن یہ بوجوہ ممکن نہیں ہوسکا۔ عمران خان اپنی ذاتی مقبولیت کے زعم میں سیاسی مصالحت کو ’بدعنوانوں‘ کے ساتھ ہاتھ ملانے کے مترادف قرار دے رہے ہیں اور اقتدار پر اپنی پارٹی کا دعویٰ تسلیم کروانے کے لیے فوج سے مدد کے خواستگار ہیں۔ لیکن 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے تحریک انصاف اور فوج کے درمیان تصادم کی کیفیت ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے مئی کے شروع میں ایک پریس کانفرنس میں ’معافی مانگنے‘ کی شرط پر تحریک انصاف سے مواصلت کا اشارہ دیا تھا لیکن عمران خان نے اسے مسترد کرتے ہوئے فوج کو پیغام دیا ہے کہ ان سے ان کی شرائط پر بات کی جائے کیوں کہ وہ مقبول لیڈر ہیں۔ فوج نے اس دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔

تحریک انصاف ابھی تک یہ باور کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی کہ وہ بیک وقت ملک کے سب سے طاقت ور ادارے اور سیاسی جماعتوں سے جنگ نہیں جیت سکتی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عام طور سے سیاسی لیڈر فوج کے تعاون سے حریفوں کو شکست دیتے آئے ہیں اور اگر اس کا موقع بہم نہ ہو تو وہ باہم مل کر سیاسی پلیٹ فارم کو مضبوط کرتے رہے ہیں۔ عمران خان فوج سے اپنی شرائط پر بات چیت چاہتے ہیں۔ شرائط کی فہرست سے ہی اندازہ کیا جاتا ہے کہ وہ فوج سے کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کو ہٹا کر عمران خان کو وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ تحریک انصاف کے کچھ سادہ لوح لیڈر تو یہ امید بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ عمران خان اڈیالہ جیل سے سیدھے وزیر اعظم ہاؤس جائیں گے اور اقتدار سنبھال لیں گے۔

جب تک یہ بیل منڈھے نہیں چڑھتی تحریک انصاف کو ملکی آئین مسلسل خطرے میں دکھائی دیتا رہے گا۔ یہ ایک سیاسی نعرہ ہے جس میں چند چھوٹی پارٹیوں نے کسی متوقع سیاسی ’بونس‘ کے لیے تحریک انصاف کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا ہے اور بحالی آئین کی تحریک کے نام سے اتحاد بھی قائم ہے۔ حالانکہ ملک میں نہ آئین معطل ہے اور نہ ہی حکومت اسے تسلیم کرنے سے منکر ہے۔ البتہ سیاسی آزادیوں، لیڈروں اور اظہار رائے پر پابندیوں کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے ذریعے آئین کا مذاق ضرور بنایا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف عدالتوں سے ریلیف لے سکتی ہے اور وہ متعدد معاملات اعلیٰ عدلیہ میں لے کر بھی گئی ہے لیکن عمران خان کے یک طرفہ اور شدت پسندانہ سیاسی بیانیہ میں صرف وہی جج خود مختاری سے فیصلے کر سکتے ہیں جو تحریک انصاف یا عمران خان کی کسی بھی درخواست کو قبول کرنے پر راضی ہوں۔ اس رویہ نے عدالتوں میں بھی بحران کی کیفیت پیدا کی ہے۔

اس بحران کو اگرچہ عدالتی خود مختاری کا نام دیا جا رہا ہے لیکن اس میں بھی سیاسی رنگ نمایاں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط سے یہ معاملہ مزید سنگین صورت اختیار کر گیا کیوں کہ بوجوہ اس معاملہ کی تحقیقات کے طریقہ کار پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ سپریم کورٹ نے اس پر سوموٹو نوٹس کے ذریعے کارروائی کا آغاز کیا ہے لیکن یہ ابھی تک اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچا۔ البتہ یہ بھی واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس کسی فوجداری معاملہ کی تحقیقات کروانے کا براہ راست اختیار نہیں ہے اور ملک کی اپوزیشن حکومت کے نامزد کردہ کسی کمیشن کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے۔

اس پر مستزاد یہ کہ لاپتہ افراد کے بعض معاملات میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے بعض ججوں نے سخت ریمارکس دیے۔ انہیں مسترد کرتے ہوئے وفاقی وزرا کے بیانات سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ آئین کی بالادستی کے سیاسی مباحثہ میں سیاسی پارٹیوں کے علاوہ عدالتیں بھی فریق بن رہی ہیں۔ اس طرح اس معاملہ کی سنگینی میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔

سینیٹر فیصل واوڈا نے عدلیہ کے بارے میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پگڑیوں کو فٹ بال بنانے جیسا قابل اعتراض فقرہ اچھالا تو سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے اسے پراکسیز کے ذریعے ججوں کو دھمکیاں دینے کا طریقہ بتایا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر بھی سوموٹو لے کر فیصل واوڈا کے علاوہ مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کیے ہیں۔ تو دوسری طرف فیصل واوڈا نے جسٹس اطہر من اللہ کے خلاف سینیٹ میں تحریک استحقاق جمع کروائی ہے۔ بحث کے دوران پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ’اگر تمام ادارے آئینی حدود میں کام کریں تب ہی نظام چلے گا، اب اس معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے‘ ۔ وزیر قانون نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ’آئین ججوں کو غصے میں کچھ بھی کہنے کی اجازت نہیں دیتا۔ انہیں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اس ایوان کے ارکان قابل احترام ہیں اور پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے۔ کسی جج کو غیر ضروری طور سے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ کوئی رکن پارلیمنٹ کسی کا ایجنٹ ہے‘ ۔

یوں آئینی بالادستی، عدالتوں کی خود مختاری اور ایک منظم طریقہ قانون کے مطابق کام کرنے کا اصول سیاسی، پارلیمانی اور عدالتی فورمز پر زیر بحث ہے۔ آئین کی بالادستی پر اتفاق کرنے کے بعد اس مباحثہ کے سب شرکا آئین کی من پسند تشریح پیش کرتے ہیں۔ عدلیہ بھی چونکہ اس مباحثہ کا حصہ بن چکی ہے، اس لیے فی الوقت یہ امید بھی نہیں کی جا سکتی کہ عدالت کے کسی فیصلہ کو حتمی طور سے مان لیا جائے گا۔ ایسے میں آئینی بالادستی کے احترام کا معاملہ آئینی حدود کے قضیہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس وقت اہم ترین سوال یہی ہے کہ کیا اپنے حقوق پر اصرار کرنے والا ہر ادارہ دوسرے اداروں کے دائرہ کار کا احترام کرنے پر آمادہ ہو گا۔ اس کشمکش میں اب صرف فوج ہی فریق نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ، سیاسی پارٹیاں اور عدلیہ بھی اس مناقشہ میں حصہ دار بن چکی ہیں۔

ایسے میں توقف کرنے، بات سنانے کے ساتھ دوسرے کا موقف سننے اور ایک دوسرے کو تھوڑا احترام دینے کی اشد ضرورت ہے۔ خاص طور سے عدلیہ کو متنازعہ بنانے سے ملک کا آئینی ڈھانچہ بکھرتے دیر نہیں لگے گی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2812 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments