جانا ہمارا کیلاش


یہ بات ہے اُن دنوں کی جب پروین عاطف اپنے ایک ڈرامے کے لئے اپنی ٹیم کے ساتھ کیلاش جا رہی تھی۔ نیلم احمد بشیر نے یونہی مجھ سے پوچھا کالاش جانا ہے؟ بھئی نیکی اور پوچھ پوچھ۔ جانے کے لئے جو جھمیلے سُننے کو ملے وہ میرے لئے قطعی اجنبی تھے۔ پروین عاطف فون پر بڑی دلگیر سی تھیں۔

مشی خان پلہ نہیں پکڑا رہی ہے وہ سید نور کی ”بلی“ کی شوٹنگ میں مصروف ہے میری ہزار خواریوں کے باوجود تاریخ کا تعین نہیں ہو رہا ہے۔

تاریخ کا جب تعین ہوا تو شندور میلہ آڑے آ گیا۔ غیر ملکی و ملکی سیاحوں بیورو کریٹوں اور حکومتی عہدیداران کی بھاری تعداد میلے کے سلسلے میں چترال بھاگی جا رہی تھی۔ اور پی آئی اے ہم جیسے ایرے غیرے نتھو خیرے کو ٹکٹ دینے کے قطعی موڈ میں نہ تھی۔

آٹھ جولائی کو پروین عاطف کا فون آیا ”کل پشاور کے لئے روانگی ہے۔“
”کل“ میں نے ہڑ بڑا کر کہا۔
”چلو تم دس کو پشاور پہنچ جاؤ گیارہ کو ہماری فلائٹ ہے۔ “
اُن دنوں چترال کے لیے فلائٹ پشاور سے جاتی تھی۔ میں تیاری کے لمبے چوڑے جھمیلوں میں کبھی نہیں پڑی۔

پنڈی سے پشاور کے سفر میں بہت خواری ہوئی۔ لیاقت آباد والوں نے پیر ودھائی کی طرف لڑھکایا اور پیر ودھائی والوں نے میونسپل کمیٹی والے اڈے کی طرف دھکیل دیا۔ ایک بجے کی چلچلاتی دھوپ میں بیگ کندھے پر اٹھائے مار دھاڑ کرتی ہوئی جس کوچ میں جا کر بیٹھی وہ اڈے سے بس نکل ہی رہی تھی۔ سیٹ بھی وہ ملی جو مالکان گاڑیوں میں اضافی لگوا لیتے ہیں۔ تاہم پھر بھی شکر ادا کرنے کی بات تھی کہ پشاور کی سڑکوں راستوں اور جگہوں سے اجنبیت کی بنا پر دن دیہاڑے وہاں پہنچنا بے حد ضروری تھا۔

راستے میں جن شہروں کا کھڑکی کے بیرونی شیشوں سے نظارہ کیا اُن میں سے بیشتر کے ناموں سے بچپن کی کتابی شناسائی تھی۔ اکوڑہ اور اٹک کے قلعے کی عظیم الشان بیرونی فصیلوں کو دلچسپی سے دیکھا۔ بڈا بیربیس اور کاک شیل روڈ میں سے کسی ایک جگہ جانے کے بارے میں فیصلہ میں نے پشاور اُتر کر کیا۔

پرانے پشاور کی گلیاں اور سڑکیں چھوٹے موٹے بازاروں کا منظر پیش کرتی تھیں۔

محمودہ آباد میں رکشہ جس گھر کے سامنے رکا اُسکے بڑے سے گیٹ کے بند دروازوں اور مونچھیں بردار دربان نے مجھے دہلیز سے ہی سمجھا دیا تھا کہ میں کسی امیر کبیر خان کے دروازے پر کھڑی ہوں۔ اس وقت جب جولائی کی تپتی سہ پہر شام میں ڈھل رہی تھی۔ میں دائیں بائیں دیکھتی اور مرعوب ہوتی زنان خانے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ سر سبز بیلوں پھولوں اور پھلوں سے آراستہ زنان خانہ بڑا روایتی تھا۔ گھر کا لان اونچی نیچی پہاڑیوں کی طرز پر بنا تھا۔

میں نے بیگ کو فرش پر رکھا۔ اور برآمدے میں نظریں دوڑائیں۔ آخری کونے میں کرسی پر واٹر کولر پڑا تھا۔ میں کوئی آدھ گھنٹے سے اس گھر میں گھوم پھر رہی تھی حیرت کی بات تھی کہ مجھے ایک متنفس دکھائی نہ دیا۔ گھر والے تو چلو مانا ٹھنڈے کمروں میں قیلولے کا مزہ لوٹ رہے تھے پر ملازم وہ تہہ خانوں میں ہی کہیں ہو سکتے ہوں گے ان کے امکانی ٹھکانے تو میں نے کھنگال ڈالے تھے۔

کرسی پر بیٹھ کر میں نے بالوں میں کنگھا چلایا۔ اور جب میں اپنے اودے ہونٹوں پر لپ اسٹک کا ٹچ دے رہی تھی کہ بیچارے کچھ گلابی مائل ہو جائیں میں نے برآمدے کے آخری کونے میں جالی دار دروازے کا پٹ ہاتھ میں پکڑے ایک شائستہ سی خاتون کو اپنی جانب دیکھتے پایا۔ کنگھا لپ اسٹک اور شیشہ سب بیگ میں ٹھونس ٹھانس کر جلدی سے اٹھ کر اُن کی طرف بھاگی۔

سلام دعا کے بعد صرف مدعا بتایا۔
”االلہ پروین تو تمہارا انتظار کر کے ابھی کوئی آدھ گھنٹہ قبل گئی ہے۔ “

کمرے کی لطیف خنکی نے میرے سارے شریر کو سرشار کر دیا تھا۔ چائے پی کیک کھایا۔ صاحب خانہ پشاور شہر کے سابق مئیر تھے۔ کھانے پینے اور تھوڑی سی گفتگو سے فراغت پا کر میں نے قصہ خوانی بازار کے محل وقوع کے بارے میں پوچھا۔

پشاور پہلی بار آئی ہیں۔ یہ تو بہت پھیل گیا ہے۔
مجھے اُنکے اس تشویش بھرے انداز پر ہنسی آ گئی تھی۔
دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے میں نے یہ کہنا ضروری سمجھا۔
”آپ قطعی فکر نہ کریں۔ میں مغرب کی نماز انشاء اللہ آپ کے گھر میں پڑھوں گی۔“

سڑک پر آ کر رکشے میں بیٹھی۔ ریڑھی پر رکھے سلور کے پتیلے کے ڈھکن پر سجائے سفید اُبلے بھٹوں کے پاس اُسے رکوا کر بھٹہ خریدا۔ سچی بات ہے میں بڑی شودی ہوں۔ یہ شودی سرائیکی زبان کے معنوی مفہوم سے کوئی واسطہ نہیں رکھتی بلکہ یہ پنجابی زبان کے مطلب کی غماز ہے۔ بچپنے سے لے کر اب تک بازاروں اور گلیوں میں ریڑھیوں اور خوانچوں پر سجی کھانے پینے کی چیزیں ہمیشہ میری آنکھوں میں ندیدہ پن لے کر اُتر آتیں۔ اٹھنی روپے کی خرید کر سدا میں نے اپنا چسکا پورا کیا مگر اب عمر کے ساتھ ساتھ آگے کو توند نکالتا پیٹ بڑھتے ہاتھوں اور چٹخارے لیتی زبان کو تھوڑا بہت قابو میں رکھنے کی کوشش کرتا۔

یہی وجہ تھی کہ قصہ خوانی بازار میں چپلی کبابوں کی پاگل کر دینے والی خوشبو کو اک ذرا رک کر میں نے سونگھا پر خریدا نہیں۔ یوں یہ اور بات ہے کہ میں نے چاہا کہ آدھا کباب خرید لوں پر شرم آڑے آ گئی۔ خدایا دکاندار کیا سوچے گا کیسی شوم عورت ہے۔ بازار سے میں نے چترال پر چند کتابیں خریدیں۔ اور جب سورج ڈوبنے کے قریب تھا میں گھر لوٹ آئی تھی۔

مغرب کی نماز کے بعد اُن کا بیٹا مجھے بڈا بیر بیس پر پروین عاطف کے پاس چھوڑنے لے گیا۔ پروین وہاں اپنے دیور کی بیٹی سویرا کے پاس ٹھہری تھی۔ رات کی تاریکی میں بڈا بیر بیس کی شان و شوکت کا تو مجھے کچھ اندازہ نہ ہوا پر جس گھر میں داخل ہوئی وہ خاصا جدید اور خوبصورت تھا۔ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی میں نے بیگ زمین پر رکھا اور پروین کے اٹیچی کیسوں اور بڑے بڑے بیگوں پر نگاہ ڈالی۔ جب میں پروین کے گلے لگ کر اُس سے اظہار محبت کر رہی تھی اُس نے تعجب سے میرے مختصر بیگ کو دیکھا اور حیرت سے بولی۔

” بس یہی تمہارا سامان ہے۔ “

جی ہاں میرا بس چلے تو جینز پہن کر اوپر سے چادر اوڑھ لوں۔ چادر سے ملٹی پرپزز حاصل ہوتے ہیں۔ جائے نماز بیڈ شیٹ دسترخوان وغیرہ وغیرہ۔ ”

لاؤنج میں ادھر اُدھر بکھرے پروین کے قوی الجثہ بے ہنگم اور بے تکے بیگوں اور اٹیچی کیسوں کو دیکھ دیکھ کر مجھے اختلاج قلب سا ہونے لگا تھا۔ ڈھائی چھٹانک کی پروین ان دیو ہیکلوں کو کیسے سنبھالے گی۔ ان ڈھیر ساروں کے لئے کتنے پورٹر درکار ہوں گے۔ میں خلوص اور مروت کی ماری اس صورت حال سے کیسے اور کیونکر نمٹوں گی۔ میرے ذہن کے تنور سے اُلٹی پلٹی تلخ اور مضطرب سوچوں کے سلسلے ایک کے بعد ایک چھلانگیں مارتے یوں باہر آرہے تھے جیسے The Great Escape کے جنگی قیدی سرنگ کے سوراخ سے قلابازیاں کھاتے باہر نکلتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments