دنیا جائے بھاڑ میں


جب گھر کے باقی تمام افراد اپنے اپنے کاموں کے لئے چلے گئے تو ماں نے گھر کی ملازمہ کو بھی مارکیٹ بھیجا اور باہر کا گیٹ بند کر دیا۔ پھر اندر آئی، کمرے کو لاک کیا، بیٹی کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور بولی۔ ”ہاں اب بتاؤ مسئلہ کیا ہے؟“ ۔

بیٹی نے اُلٹا سوال کیا ”کاہے کا مسئلہ امّی جان؟“ ۔

”ایک تو کوئی مجھے سمجھائے کہ آج کل کی بیٹیاں بڑی ہو کر یہ کیوں سمجھنے لگتی ہیں کہ وہ اپنے دُکھ درد اپنی ماؤں سے بھی چُھپا لیں گی؟“ ۔

”میں نے کچھ نہیں چُھپایا ہے آپ سے، آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں؟“ ۔
”تم تین دن سے آئی بیٹھی ہو یہاں، مگر اس دوران میں داماد صاحب کا ایک بھی فون نہیں آیا، کیوں؟“ ۔
”میں نے انہیں خود منع کیا تھا“ ۔
”مگر وہ تمہیں چھوڑنے بھی نہیں آیا، اس کی وجہ؟“ ۔

”امّی جان! اچانک پروگرام بنا تھا میرا۔ انہیں دفتر سے دیر ہو رہی تھی، اس لئے میں اکیلی آ گئی۔ اب یہاں آنے کے لئے بھی مجھے کیا اجازت لینی پڑے گی؟ یا آپ لوگوں کو پہلے سے مطلع کرنا پڑے گا؟“ ۔

”بالکل نہیں! یہ تمہارے ماں باپ کا گھر ہے۔ اندھیرے سویرے جب جی چاہے آ سکتی ہو۔ جب تک من ہو رہ سکتی ہو۔ مگر ابھی تمہاری شادی کو صرف چھ مہینے ہوئے ہیں اور تم اکیلی آئی ہو۔ پھر داماد کو کال کرنے سے بھی منع کر دیا ہے، اسی لئے سوال کر رہی ہوں“ ۔

”تو سوال کرنا ہمیں بھی سکھا دیتیں۔ ہمیں تو بس یہ نہیں کرنا، وہ نہیں کرنا۔ ایسے نہیں چلنا، ویسے نہیں بیٹھنا۔ سر جھکا کے رکھنا ہے، بڑوں سے سوال نہیں کرنا وغیرہ وغیرہ ہی سکھائے ہیں آپ نے“ ۔

”تم پر سکول سے لے کر یونیورسٹی تک کسی نے کوئی پابندی لگائی؟ تم نے ایم اے کیا، پھر ماشا اللہ مقابلے کا امتحان پاس کیا۔ اب ایک سرکاری افسر ہو۔ اعلیٰ عہدے پر فائز ہو۔ روکا کہاں تھا تمہیں؟“ ۔

”وہ تو آپ کی مہربانی ہے۔ خاص طور پر پاپا کی کہ اتنے مشکل معاشی حالات میں بھی تینوں بہنوں کی پڑھائی نہیں رُکنے دی۔ لیکن شادی سے پہلے جس تربیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ تو نہیں دی نا آپ نے؟“ ۔

”میں پہلے ہی کہتی تھی ضرور داماد سے جھگڑا کر کے آئی ہوگی“ ۔
”جھگڑا نہیں ہوا ہے امّی جان! جس موضوع پر بات ہی نہیں ہوتی اُس پر جھگڑا کیسے ہو گا؟“ ۔
”وہ کون سا موضوع ہے جس پر میاں بیوی کے درمیان بھی بات نہیں ہو سکتی؟“ ۔

”ہے نا امّی جان! اب آپ کو کیسے بتاؤں؟ یہی تو ایک موضوع ہے، جس پر آپ سے بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا ہے مجھے۔ یہ تو شجرِ ممنوعہ ہی رہا ہمارے گھر میں ”۔
”تم خود پڑھی لکھی ہو۔ تیس سال تمہاری عمر ہو گئی ہے“ ۔

”مگر جو باتیں تیرہ سال کی عمر میں سیکھنی ضروری ہو جاتی ہیں، وہ تو میں تیس سال کی ہو کر بھی نہیں سیکھ پائی۔ کاغذوں پر لکھوائے گئے میرے حکم ناموں سے بڑے بڑے مردوں کی جان جاتی ہے مگر خود کسی مرد سے بات کرتے ہوئے میں اب بھی جھجکتی ہوں۔ یہاں تک کہ اپنے خاوند سے بھی ہر موضوع پر بات نہیں کر سکتی“ ۔

”داماد صاحب نے تو پڑھائی بھی یورپ میں کی ہے۔ اتنے سال وہاں گزارے ہیں۔ پھر میاں بیوی ہوتے ہوئے بھلا کون سی بات ہے جو تم دونوں کے درمیان نہیں ہو سکتی؟“ ۔

”میں بھی تو یہی سمجھی تھی کہ اتنے سال یورپ میں رہے ہیں توجو مجھے نہیں معلوم، انہیں پتہ ہو گا۔ لیکن وہ تو کہتے ہیں کہ وہ پڑھائی کے دوران بھی نوکریاں کرتے رہے۔ انہوں نے یونیورسٹی، کام اور گھر کے علاوہ کچھ دیکھا ہی نہیں“ ۔

”یہ تو سچ ہے بیٹی! اُس نے بڑی محنت کی ہے وہاں۔ پڑھائی کے ساتھ نوکریاں بھی کیں اور یہاں تین تین بہنوں کی شادیوں کا پورا پورا بندوبست اُس اکیلے نے کیا۔ بہت شرافت سے گزارا ہے اُس نے یورپ کا زمانہ بھی“ ۔

”اس سے تو اچھا تھا تھوڑا شرافت سے باہر نکل کر بھی دیکھ لیتے۔ کچھ دنیا کی سُدھ بُدھ ہی آ جاتی۔ ہر بار میں اکیلی ہی تو اس عذاب سے نہ گزرتی“ ۔

”وہ تو اتنا تابع دار بچہ ہے، تم کس عذاب کی بات کر رہی ہو؟“ ۔
”میں کیسے بتاؤں امّی جان! یہی سمجھنے کے لئے تو یہاں آئی ہوں“ ۔
”تم تھوڑی دیر کے لئے مجھے ماں کی بجائے سگی سہیلی سمجھواور بتا دو جو بھی تمہارا مسئلہ ہے“ ۔
”ٹھہریئے! مجھے مناسب الفاظ تلاش کرنے دیجیے پہلے“ ۔
”تم مجھے بے دھڑک بتا دو بیٹی!“ ۔
”تو سُنیے!“ مگر بتانے سے پہلے، وہ پھر کسی سوچ میں پڑ گئی۔
ماں بولی ”بتاؤ بتاؤ۔ مجھ سے کچھ شرم مت کرو“ ۔
”امّی! ہم شادی کے بعد سے ایک بستر پر سو رہے ہیں“ ۔
”یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تم میاں بیوی ہو۔ تمہیں ایک ہی بستر پر سونا چاہیے“ ۔

”یہی سنا تھا سب سے، اس لئے یہی کر رہی ہوں۔ مگر وہ رات کو کھانا کھانے کے بعد جلد ہی سو جاتے ہیں اور میں ساتھ لیٹی دیر تک جاگتی رہتی ہوں۔ انتظار کرتی رہتی ہوں اور آخر انتظار کرتے کرتے سو جاتی ہوں“ ۔

”پھر مسئلہ کہاں ہیں؟“ ۔

”جب میں گہری نیند میں ہوتی ہوں تو اُن کی آنکھ کھل جاتی ہے اور اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ میں بھی جاگ جاؤں۔ پھر وہ لگاتار کچھ ایسا الٹ پلٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مجھے جاگنا ہی پڑتا ہے“ ۔

”تو تمہارا مسئلہ اصل میں نیند ہے۔ تمہاری نیند پوری نہیں ہوتی۔ اسی لئے کچھ چڑچڑی سی بھی ہو گئی ہو تم“ ۔

”معاملہ نیند کا نہیں ہے امّی جان۔“ لیکن پھر وہ بات مکمل کیے بغیر رُک گئی۔ دو تین لمحوں کی خاموشی کے بعد اُس نے ماں کی سوالیہ نظروں کی چبھن محسوس کی تو آگے بولی ”پتہ نہیں آپ بات سمجھ نہیں رہی ہیں یا میں آپ کو سمجھا نہیں پا رہی ہوں۔ آپ بھی جانتی ہیں، جب انسان نیند کے اتنے دباؤ میں ہو تو اُسے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ مگر میں نے ایسی حالت میں بھی کبھی انہیں انکار نہیں کیا“ ۔

”یہ تو نہایت معقول رویہ ہے۔ ہر اچھی بیوی کو یہی کرنا چاہیے“ ۔
”لیکن اچھے خاوند کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ بھی تو بتائیں نا“ ۔
”کیوں؟ کیا وہ اچھا خاوند نہیں ہے؟“ ۔

اُس نے ماں کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا اور اپنی بات آگے بڑھائی ”لیکن امّی جان! انہیں میرا بھی تو کچھ خیال کرنا چاہیے نا۔ میں ابھی پورے ہوش میں بھی نہیں آئی ہوتی کہ وہ اپنے کام پر لگ جاتے ہیں اور جب تک میرے بدن میں طلب جاگتی ہے، وہ واش روم میں پہنچ چکے ہوتے ہیں، اور بس! انہیں ذرا بھی احساس نہیں کہ عورت بھی ایک انسان ہوتی ہے۔ اس میں بھی جذبات ہوتے ہیں اور جب اس کی خواہشات کو جگا کر پھر اس طرح کُچلا جاتا ہے، تو وہ کس اذیت سے گزرتی ہے“ ۔

ماں کو تو جیسے ایک شاک سا لگا۔ وہ دھم سے پیچھے ہو کر بیٹھ گئی اور چند لمحے بالکل خاموش رہی، جیسے کچھ کہنے سے پہلے الفاظ تلاش کر رہی ہو۔ پھر سمجھانے کا انداز اختیار کیا ”لیکن۔ لیکن بیٹی! گھر بسانے کے لئے کچھ تو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے نا!“ ۔

”کیوں؟ کیوں برداشت کرنا پڑتا ہے؟ اور پھر ایسی اذیت۔ کیوں کوئی انہیں بتا نہیں سکتا، سمجھا نہیں سکتا کہ وہ بیوی کا بھی کچھ خیال کریں؟ وہ بھی کچھ سیکھیں، اور اگر ضرورت ہو تو ڈاکٹر کے پاس جائیں“ ۔

”کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔ بات تو کرنی چاہیے۔ لیکن بات کرے تو کون کرے؟“ ۔
”میں نہیں جانتی۔ لیکن جب تک انہیں سمجھ نہیں آتی، میں واپس ان کے پاس نہیں جا سکتی“ ۔
”نہیں بیٹی! ایسا نہ کرنا۔ ابھی چھ مہینے ہوئے ہیں تمہاری شادی کو۔ دنیا کیا کہے گی؟“ ۔

”دنیا جائے بھاڑ میں۔ میں کوئی اندھی ہوں؟ لُولی لنگڑی ہوں؟ امّی! میں ایک پڑھی لکھی عورت ہوں۔ اچھا کماتی ہوں۔ صرف شادی شدہ نظر آنے کے لئے یہ اذیت کیوں برداشت کروں؟ اگر آپ نے مجھے ان معاملات کی تعلیم نہیں دی تھی، ان امورپر بات کرنا نہیں سکھایا تھا کہ میں ایک لڑکی تھی مگر وہ تو ایک مرد ہیں نا؟ انہیں تو یہ سب کہیں سے سیکھنا چاہیے تھا کہ نہیں؟“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments