سرکار کے خدام خود سرکار


وفاقی اُردو کالج پرویز مشرف کے دور میں سال 2002ء میں یونیورسٹی کے درجے پر فائز ہوا۔ نوکری کی ابتدا میں کالج میں سالانہ نظام کے تحت ہونے والے داخلوں کے طالب علم بھی تھے اور نصاب بھی وہی تھا۔ مبادیاتِ اُردو کے نام سے کالج کا نصاب بہت وقیع تھا۔ سالانہ نصاب کے مقابلے میں چھے ماہ کا میقاتی نظام نصاب کے معیار و مقدار دونوں کو متاثر کرتا ہے، کیسے؟ فی الحال یہ موضوع نہیں اور ایسا بھی نہیں کہ معیار قائم نہیں کیا جاسکتا یا برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ لیکن جہاں نظم قائم نہیں ہوتا اور نظام جڑ نہیں پکڑ تا وہاں فرد، افراد اور گروہ بنتے ہیں اور جو نظام جڑ پکڑتا ہے اس میں معیار کا حصول ہدف نہیں ہوتا۔ ایسے نظام میں کیسے چلنا ہے؟ جہاں جہاں اور جب جب راستہ سجھائی نہ دیا وہاں وہاں اور تب تب اساتذہ کے مشوروں سے روشنی حاصل کی۔

نوکری کے ابتدائی ایام، مبادیات ِ اُردو کی امتحانی کاپیاں تھیں۔ میں ایک ایک کاپی کی جانچ میں خاصا وقت لے رہی تھی اور اس وقت کے صدرِ شعبہ ٹی اے خان مجھ سے تقریباً روزانہ اور کبھی فون کر کے بھی کاپیوں کی جانچ کے متعلق دریافت کر رہے تھے۔ یہ پیشہ ورانہ پوچھ گچھ نہیں بلکہ اس کا مقصد ذہنی دباؤ میں لانا تھا، یہ وہ ادراکات ہیں جن پر میں بعد میں پہنچی۔ میں نے خان صاحب سے کہا کہ مجھے کاپیوں کی جانچ میں وقت لگتا ہے تو انہوں نے جواب میں کسی کو مخاطب کر کے کہا کہ انہیں بتائیں کہ کاپیاں کیسے چیک کی جاتی ہیں۔

حال تو یہ تھا کہ ایک مرتبہ شعبے کے کمپیوٹر آپریٹر سے ایم ایس ایکسل پر امتحانی نمبر لگوا رہی تھی تو وہ طالب علموں کے کم نمبر یا فیل ہونے پر اعتراضی رویے کا اظہار کر رہا تھا اور ہمیں ایک ممکنہ احتجاجی صورت ِ حال کی دھمکی دے رہا تھا۔ اس وقت اگرچہ ہماری معاشی بلکہ ذاتی حالت بھی پتلی تھی لیکن ہم نے اپنی وضع نہیں بدلی۔

ایک وہ دور تھا جب طالب علم کہتا تھا کہ وہ فیل ہو گیا، آج کا طالب علم یہ نہیں کہتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ آپ نے فیل کر دیا۔ میں آج بھی اسی پر قائم ہوں اور وہ اس طرح کہ میں طالب علم سے کہتی ہوں کہ نہ میں فیل کرتی ہوں نہ پاس، طالب علم خود ہی فیل اور پاس ہوتے ہیں۔

مبادیات ِ اُردو کے پرچے میں کئی طالب علم فیل تھے، اور وہ فیل تھے جنہیں اُردو لکھنا نہیں آتی، جن کا املا درست نہیں، ہم کس کس طرح کھینچ تان کر پاس کرتے ہیں، یہ ہمیں پتا ہے۔ صدر ِ شعبہ کا کاپیوں کی جلدی جانچ کا اصرار، ہم نے انہیں بتایا صورت ِ حال بہت خراب ہے، ذہن میں کمپیوٹر آپریٹر کی بات بھی کہیں چل رہی تھی۔ صدرِ شعبہ نے جواب میں میں فرمایا کہ ’پڑھایا تو آپ ہی نے ہے‘ ۔ ہم خاموش۔ پڑھایا تو ہم نے ہی ہے۔

اب جو بات ہمیں بعد میں سمجھ میں آئی وہ یہ کہ ایم اے کی سطح پر ہم زبان لکھنا تھوڑی سکھائیں گے، اس سطح پر تو صحافتی اصناف پڑھائیں اور سکھائیں گے۔ اب ہم صدر ِ شعبہ کی زبان سے وہی بات سن رہے تھے جو کمپیوٹر آپریٹر پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ ’دیکھ لیں، پھر طالب علموں کا ردّ ِ عمل آئے گا وہ آپ فیس کر لیں گی؟‘

یہ سب آسان باتیں نہیں ہیں، یہ ’نظام‘ سے ہماری ابتدائی ملاقاتیں بلکہ راہ و رسم کا آغاز تھا۔ میں نے اپنے فکری اُستاد ڈاکٹر منظور احمد کو فون کیا، انہوں نے کہا کہ آپ اپنے صدر ِ شعبہ سے کہیں کہ سر آپ کو یہاں کا تجربہ ہے، آپ بہتر سمجھتے ہیں، آپ بتائیں کہ میں کیا کروں؟ ہم نے من و عن اس مشورے پر عمل کیا۔ صدر ِ شعبہ نے کہا کہ آپ کاپیاں میرے حوالے کر دیں، اب ہم نے اس پر عمل کیا۔ جو مضمون میں نے پڑھایا تھا، نہ میں نے اس کی کاپیاں جانچیں، نہ میں نے نمبر دیے نہ میرے کاپیوں پر دستخط۔

بعد کی بات ہے، میں چھٹیوں پر تھی تو اُس وقت کی استاد، شعبے کی سابقہ پوزیشن ہولڈر اور موجودہ انچارج شعبہ کا فون آیا کہ آپ کا مضمون مبادیات ِ اردو مجھے پڑھانے کے لیے ملا ہے تو اس کے بارے میں بتائیں۔ میں نے بات کی اور یہ بھی بعد میں سمجھ میں آیا کہ یہ تو اسی مضمون میں سے ایک مضمون ہے جن میں انہوں نے پوزیشن حاصل کی ہے۔ مجھ سے پہلے یہ مضمون اوج کمال صاحب پڑھاتے تھے۔

میں نظام کا پرزہ نہیں بنی، صدر شعبہ خان صاحب جتنا گھما کر رکھ سکتے تھے، رکھا، گلشن کیمپس بھیج دیا، سیمینار لائبریری سپرد کردی، میری سمجھ میں کچھ آتا تھا نہ میرے اندر کی ٹیڑھ جاتی تھی۔ حیران کن طور پر اس کا اعتراف چند دن قبل ہی ہمارے شعبے کے غیر تدریسی عملے کے ایک رکن نے بھی ہنستے ہوئے کیا۔ جب تدریس کی جگہ سیمینار لائبریری سنبھالنے کے لیے دی گئی تو ایک دن اس وقت کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد قیصر نے بھی سیمینار لائبریری کا دورہ کیا تھا۔

مجھ سے ایک مخلص خاتون استاد نے کہا کہ ’دیکھیں آپ کلاس مانگیں، یہ آپ کا کام نہیں ہے، یہ نہ ہو کہ آپ لائبریری میں ہی رہ جائیں اور یہ آپ کے تدریس میں تجربے کی کمی کو کسی معاملے میں بنیاد بنائیں۔ ہم نے پھر ڈاکٹر صاحب کو فون کھڑ کا یا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ہے جو آپ کی بات سنے، میں نے کہا کہ رئیس کلیہ فنون شعبہ اردو ادب کے ڈاکٹر وقار حسن گل ہیں، وہ سن لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ‘ ان سے جاکر بات کریں۔ اس طرح کہیے گا کہ میں یہ بات شکایتاً نہیں کر رہی، بس ایک صورت ِ حال ہے جو آپ کے علم میں لانا چاہ رہی ہوں ’۔ ہم نے پھر یہی کیا۔ صدرِ شعبہ کو ہمارے ڈین آفس جانے کی اطلاع مل گئی ہوگی، اس لیے نہیں کہ یہ شعبے کے سامنے والی عمارت میں واقع ہے بلکہ اس لیے بھی کہ ایسے لوگ اپنا نیٹ ورک رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments