موتزو، ابن الھیثم، ولیم ہرشل، جوزف فرون ہوفر اور روشنی کا جادو


کائنات کی عمر اور حجم روشنی میں لکھے گئے ہیں۔ خوبصورتی کی نوعیت، ستاروں کا مادہ اور زماں و مکاں کے قوانین بھی، سب وہیں موجود تھے، لیکن ہم نے انہیں اس وقت تک نہیں دیکھا جب تک کہ ہم نے دیکھنے کے زیادہ طاقتور طریقہ وضع نہ کر لیے۔ اس بیداری کی کہانی کی بہت سی ابتدائیں ہیں لیکن کوئی انتہا نہیں ہے۔

اس کے ہیرو بھی کئی زمانوں اور علاقوں سے آتے ہیں۔ ایک قدیم چینی فلسفی۔ ایک جادوگر جس نے گیارہویں صدی کے عراقی خلفاء کو حیران کر دیا تھا۔ ایک غریب جرمن یتیم جو ایک سخت آقا کا غلام تھا۔

ہر ایک ہمیں روشنی میں چھپے رازوں کو کھولنے کے تھوڑ اور قریب لے گیا۔ ان میں زیادہ تر کے نام ہمیشہ کے لیے ہم سے کھو گئے، لیکن کہیں، بہت پہلے، کسی نے روشنی کو اپنی جادوئی چالوں میں سے ایک کو انجام دیتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ کون جانتا ہے؟ شاید روشنی کے اس نرالی جھلک نے پہلے فنکار کو بھی متاثر کیا ہو گا۔

یہ سب کہاں سے آیا؟ ہم ستاروں کے نیچے رہنے والے شکاریوں کے چھوٹے آوارہ گروہوں سے ایک عالمی تہذیب کے معمار بننے کے لیے کیسے تیار ہوئے؟ ہم وہاں سے یہاں تک کیسے آئے؟ اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ موسمیاتی تبدیلی، آگ کا استعمال، اوزاروں کی ایجاد، زبان، زراعت، سب نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ شاید یہاں اس کے علاوہ کچھ اور بھی تھا۔

چین میں، دو ہزار سال سے زیادہ پہلے موتزو (Mo Tze) ، نامی ایک فلسفی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے یہ دریافت کیا کہ ایک بند کمرے کے اندر روشنی کی مدد سے تصویر پینٹ کی جا سکتی ہے۔ یہ پہلا کیمرہ تاریک عکسالہ یا کالا ڈبہ (camera obscura) کی تفصیل تھی، جو تمام خاکہ بنانے والے کیمروں کی ابتدائی شکل تھی۔ روشنی کے آقا، موتزو، نے ہر قسم کے اندھیرے کے خلاف کام کیا۔ ایک عسکری جینئس جس نے صرف تشدد کو روکنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔

وہ متحارب ریاستوں کی سلطنتوں کے درمیان سفر کرنے، بادشاہوں کو جنگ میں جانے سے روکنے کے لیے ہوشیار حکمت عملیوں کو استعمال کرنے کے لیے افسانوی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ عالمگیر محبت اور غربت اور عدم مساوات کی دوسری شکلوں کے خاتمے کا خواب دیکھنے والے اولین انسانوں میں سے ایک تھا۔ انسانوں کے لیے حکومت کی اور رسومات اور اختیار کی اندھی اطاعت کے خلاف بحث کرنے والوں میں شامل تھا۔ موتزو کی تحریروں میں، آپ کو سائنسی نقطہ نظر کی ابتدائی ہلچل مل سکتی ہے۔ موتزو کے زمانے میں، چینی پہلے ہی کم از کم ایک ہزار سال سے کتابوں میں اپنے خیالات محفوظ کر رہے تھے۔ لیکن پھر بھی، اس کے بارے میں ہمارا علم منتشر ہے۔ یہ زیادہ تر اس سے منسوب اور اس کے شاگردوں کے مضامین کے مجموعے پر مشتمل ہے۔

ان میں سے ایک میں، جس کا عنوان ہے ”قسمت کے خلاف“ ، ہر نظریے کے لیے تین جہتی امتحان تجویز کیا گیا ہے۔

اس کی بنیاد پر سوال کیا جائے۔
پوچھا جائے کہ کیا اس کی تصدیق عام لوگوں کے نظر اور حواس سے کی جا سکتی ہے۔
پوچھا جائے کہ اسے کیسے لاگو کیا جائے اور کیا اس سے بڑی تعداد کو فائدہ پہنچے گا۔

موتزو انتہائی مقبول تھا، لیکن اس کی موت کے چند سو سال بعد ، چِن شی یوانگ (Qin Shi Huang) ، پہلے شہنشاہ، اور چین کے متحد ہونے والے، نے اقتدار سنبھال لیا۔ اس نے ایک براعظم لے لیا اور اسے ایک ایسی قوم میں تبدیل کر دیا جو آج چین کہلاتی ہے۔ ہم میں سے اکثر شہنشاہ چِن شی کو سات ہزار مٹی کے جنگجوؤں کی فوج کے لیے جانتے ہیں جو اس کے مقبرے کی حفاظت کرتے ہیں۔ شہنشاہ چِن شی اپنی دور دراز سلطنت کو مستحکم کرنے کی مہم میں مملکت کے اندر موجود ہر چیز کو معیاری بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے تھے۔

اس میں ایک ہی سکے کو لازمی قرار دینا، تمام وزن اور پیمائش کو یکساں بنانا، گاڑیوں اور سڑکوں کی چوڑائی کے ساتھ ساتھ چینی زبان کو لکھنے کا صحیح طریقہ بھی شامل تھا، جس میں آپ کے لکھنے اور سوچنے کی اجازت بھی شامل تھی۔ شہنشاہ چِن کا فلسفہ۔ صرف ایک ہی چیز کی اجازت۔ جسے ”قانونیت“ کہا جاتا تھا۔ وہی کرو جو قانون کہتا ہے ورنہ پھر۔ یہ ایک ایسا فلسفہ تھا جو اختیار پر سوال اٹھانے کے لیے انتہائی نا سازگار تھا۔ سینکڑوں مکاتب فکر کی تمام کتابوں کو جلا دیا جائے، اور جو بھی تاریخ کو موجودہ حالت پر تنقید کرنے کے لیے استعمال کرے گا اس کے خاندان کو بھی تہ تیغ کر دیا جائے گی۔

موتزو اور کنفیوشس اور دیگر فلسفیوں کے کام دنیا کی پہلی کتاب جلانے کی تحریک میں تباہ ہو گئے تھے۔ سینکڑوں علماء نے ممنوعہ کتابوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بہادری سے مزاحمت کی۔ انہیں دارالحکومت میں زندہ دفن کیا گیا۔ سائنس کو پھلنے پھولنے کے لیے آزادانہ اظہار کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اختیار سے نڈر سوال، خیالات کے کھلے اور آزادانہ تبادلے پر منحصر ہے۔ موتزو اور اس کے شاگردوں کی تحریروں میں تجسس کی چنگاریاں موثر طریقے سے بجھا دی گئیں۔

خوش قسمتی سے، ہمارا تخیل کا جہاز ہمیں زماں و مکاں میں کہیں بھی لے جا سکتا ہے۔ قدیم چینیوں اور یونانیوں نے مشاہدہ کیا تھا کہ روشنی سے شاندار کام لیے جا سکتے ہیں۔ لیکن کسی نے بھی یہ سوال نہیں پوچھا جو کہ چھوٹے بچوں اور جینئس لوگوں کو یکساں پسند تھا۔ کیوں؟ ایک ہزار سال پہلے تک عراق کے شہر بصرہ میں روشنی کا ایک اور ماہر رہتا تھا۔ ابن الھیثم (Ibn al۔ Haytham) فطرت کو سمجھنے کی شدید خواہش رکھتا تھا۔ اس نے ہر چیز پر سوال اٹھایا، خاص طور پر وہ چیزیں جنہیں باقی سب معمول کی بات سمجھتے تھے۔

”ہم کیسے دیکھتے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔ اس سے پہلے آنے والے کچھ عظیم با اختیار لوگوں نے سکھایا تھا کہ ہماری آنکھوں سے شعاعیں نکلتی ہیں اور ان چیزوں کی طرف سفر کرتی ہیں جنہیں ہم اپنی آنکھوں میں واپس آنے سے پہلے دیکھتے ہیں۔ لیکن الھیثم نے استدلال کیا کہ ستارے ہماری آنکھوں سے نکلنے والی شعاعوں کے لیے بہت ہی دور تھے کہ وہ ان تک اور آنکھ کے پلک جھپکتے واپس جا سکیں۔ بہترین استدلال، لیکن الھیثم وہاں رکا نہیں۔ اس نے فطرت کو اس کے راز افشا کرنے پر مجبور کرنے کے طریقے تلاش کیے۔ اس کی ثقافت کی بانہیں نئے خیالات اور سوالات کے لیے کھلی ہوئی تھیں۔ یہ اسلامی دنیا میں سائنس کا سنہری دور تھا۔ وہ جو اسپین کے قرطبہ سے وسطی ایشیا کے سمرقند تک پھیلا ہوا تھا۔ بغداد، قاہرہ اور دیگر اسلامی دارالحکومتوں کے تحقیقی اداروں میں عیسائی اور یہودی علماء کو اعزازی مہمانوں کا درجہ دیا جاتا تھا۔ کتابوں کو جلانے کے بجائے خلفاء نے کتابوں کی تلاش میں دنیا بھر میں سفیر بھیجے۔

خلفاء نے آنے والی نسلوں کے لیے ان کے تراجم، مطالعہ اور تحفظ کرنے کے منصوبوں کے لیے دریا دلی سے سرمایہ فراہم کیا۔ قدیم یونانی سائنس کی زیادہ تر روشنی ان کی کوششوں کے بغیر مستقل طور پر بجھ جاتی۔ سینکڑوں سال بعد یورپ میں سائنس کی طرف دوبارہ بیداری ایک شعلے سے بھڑک اٹھی جسے اسلامی علماء اور سائنس دانوں نے طویل عرصے سے پالا تھا۔ عربوں نے ہندوستان سے مغرب میں خیالات بھی درآمد کیے، جن میں نام نہاد عربی ہندسے بھی شامل ہیں جو آج ہم سب استعمال کرتے ہیں، اور صفر کا تصور جو اس وقت کام آتا ہے جب آپ اربوں اور کھربوں لکھنا چاہتے ہیں۔ عربی فلکیات اس قدر با اثر تھی کہ ہم اب بھی زیادہ تر روشن ستاروں کو ان کے عربی ناموں سے پکارتے ہیں۔ الجبرا، الگورتھم، الکیمیا اور الکحل میں ”ال“ اس وقت سے باقی رہ جانے والے کچھ نشانات ہیں جب عربی سائنس کی زبان تھی۔

گیارہویں صدی میں ابن الھیثم نے روشنی اور ہم کیسے دیکھتے ہیں کے بارے میں اپنے خیالات کو جانچنے کی کوشش کی۔ لہذا ہم نے اس بات کا تعین کرنے کے لیے ایک تجربہ وضع کیا کہ روشنی کیسے حرکت کرتی ہے۔ ہم نے پورے دن کی روشنی میں ایک خیمہ لگایا اور اسے مضبوطی سے بند کر دیا تاکہ روشنی کی صرف ایک کرن اس کے اندرونی اندھیرے کو چھید سکے۔ اپنے دماغ سے کچھ زیادہ اور لکڑی کے سیدھے ٹکڑے کے ساتھ۔ ابن الھیثم نے سائنس کی تاریخ میں آگے کی طرف ایک زبردست چھلانگ لگائی تھی۔

اس نے دریافت کیا کہ روشنی سیدھی لکیروں میں حرکت کرتی ہے۔ الھیثم نے اندازہ لگایا کہ کسی بھی تصویر کی تشکیل کی کلید۔ چاہے آپ آنکھ کے بارے میں بات کر رہے ہوں یا کیمرے کے۔ روشنی کو محدود کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا سوراخ ہو گا جو تاریک کمرے میں داخل ہو سکے۔ وہ یپرچر ہمارے ارد گرد موجود خارجی روشنی کی اضافی شعاعوں کو خارج کر دیتا ہے۔ یپرچر جتنا چھوٹا ہو گا، روشنی اتنی ہی کم سمتوں سے آ سکے گی۔ اور یہ تصویر کو زیادہ صاف بناتا ہے۔ لہٰذا روشنی سے اندھے ہونے کے بجائے، ہم وہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں جو اسے ہمیں دکھانا ہے۔ ابن الھیثم نے اپنا پہلا کیمرہ بنایا اور خلفاء کو حیران کر دیا۔

یہ کیمرہ تیز روشنی میں بہترین کام کرتا تھا۔ رات کے آسمان کے ستارے اس کے لیے بہت مدھم تھے۔ ہمیں کسی نہ کسی طرح روشنی جمع کرنے کے لیے ایک بڑے سوراخ کی ضرورت تھی، لیکن ہمیں تصویر کو صاف رکھنے ( فوکس) کی بھی ضرورت تھی۔ ایک ٹیلی سکوپ پورے لینس یا آئینے میں اپنے منظر کے میدان میں کسی بھی جگہ سے روشنی جمع کرتا ہے، جو پہلے کیمرے کے ہول سے بہت بڑا ہوتا ہے۔

گیلیلیو نے پہلے ٹیلی سکوپس میں سے ایک سے 1609 میں دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے رات کے بھاری پردے کو ایک طرف کھینچ لیا اور کائنات کو دریافت کرنا شروع کر دیا۔ لینس نے دوربین کے لیے ہماری آنکھوں سے کہیں زیادہ روشنی جمع کرنے والا علاقہ ممکن بنا دیا۔ بڑی بالٹیاں چھوٹی بالٹیوں سے زیادہ بارش کا پانی گھیر لیتی ہیں۔ جدید ٹیلی سکوپ میں جمع کرنے کے لیے بڑی جگہ ہوتی ہے، انتہائی حساس ڈٹیکٹر ہوتے ہیں، اور وہ ایک ہی چیز پر ایک وقت میں گھنٹوں تک نظر رکھ سکتے ہیں تاکہ اس کی زیادہ سے زیادہ روشنی جمع ہو سکے۔ ہبل جیسی خلائی دوربینوں نے انتہائی دور دراز اور قدیم کہکشاؤں سے روشنی حاصل کی ہے، جس سے ہمیں کائنات کی زیادہ واضح تصویریں ملتی ہیں۔

الھیثم نے دریافت کیا کہ تصاویر روشنی سے کیسے بنتی ہیں، لیکن وہ اپنی سب سے بڑی کامیابی سے اب بھی بہت دور تھا۔ ابن الھیثم پہلا شخص تھا جس نے سائنس کے اصول وضع کیے تھے۔ اس نے غلطی کو درست کرنے کا ایک طریقہ کار بنایا، جو ہماری سوچ میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ایک منظم اور انتھک طریقہ ہے۔

”سچائی تلاش کرنا مشکل ہے اور اس کا راستہ کٹھن ہے۔ سچائی کے متلاشی ہونے کے ناتے، آپ فیصلہ کو روکنے کی دانشمندی کا مظاہرہ کریں گے اور صرف قدیم لوگوں کی تحریروں پر بھروسا نہیں کریں گے۔ آپ کو ہر طرف سے ان تحریروں پر سوال کرنا اور تنقیدی جائزہ لینا چاہیے۔ کسی شخص کے قول کے بجائے صرف دلیل اور تجربے کے کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا چاہیے۔ ہر انسان کے لیے ہر قسم کی نا مکملیت کا خطرہ ہے۔ سچائی کے متلاشی ہونے کے ناتے، ہمیں تعصب یا لاپروا سوچ میں پڑنے سے بچنے کے لیے، اپنی تحقیقات کرتے وقت اپنے خیالات پر بھی شک کرنا اور سوال کرنا چاہیے۔ یہ راستہ اختیار کرو، اور سچائی تم پر نازل ہو گی۔“

یہ سائنس کا طریقہ ہے۔ اتنا طاقتور کہ یہ ہمارے مشینی (روبوٹک) سفیروں کو نظام شمسی کے کنارے اور اس سے بھی ماوراء لے گیا ہے۔ اس نے ہماری عمر کو دوگنا کر دیا ہے، ماضی کی کھوئی ہوئی دنیاؤں کو زندہ کر دیا ہے۔ سائنس نے ہمیں مستقبل بعید میں ہونے والے واقعات کی پیشین گوئی کرنے اور روشنی کی رفتار سے ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کے قابل بنایا ہے، جیسا کہ میں آپ کے ساتھ ہوں، بالکل اسی وقت۔ سوچ کے اس انداز نے ہمیں وہ اختیارات دیے ہیں جنہیں خود ابن الھیثم جادو سمجھتا۔ لیکن یہ وہی تھا جس نے ہمیں اس کٹھن اور نہ ختم ہونے والی راہ پر ڈال دیا تھا۔ اور اب یہ ہمیں ایک ایسی جگہ پر لے گیا ہے جہاں روشنی بھی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے۔

روشنی انسانی وجود کے دائرے میں کسی بھی چیز کے برعکس خصوصیات رکھتی ہے۔ روشنی کی رفتار ہی کو لے لیں۔ روشنی کا بنیادی ذرہ، فوٹون، روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے پیدا ہوتا ہے کیونکہ یہ ایٹم یا مالیکیول سے نکلتا ہے۔ ایک فوٹون کبھی بھی کسی دوسری رفتار کو نہیں جانتا، اور ہمیں کوئی دوسری ایسی کوئی شے نہیں ملی جو فوری طور پر صفر سے اوپر کی طرف انتہائی تیز رفتار ہو جائے۔ اور کچھ بھی اتنی تیزی سے حرکت نہیں کر سکتا۔

جب ہم دوسر ذرات کو روشنی کی رفتار کے قریب تیز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ زیادہ سے زیادہ مزاحمت کرتے ہیں، کیونکہ وہ بھاری سے بھاری ہوتے جاتے ہیں۔ ابھی تک کوئی تجربہ نہیں کیا جا سکا جس میں ذرہ کو روشنی کی طرح تیز حرکت دی جا سکی ہو۔ میں زندگی میں کسی اور چیز کو نہیں جان پایا جو روشنی کی طرح برتاؤ کرتی ہو۔ میں اس کی عجیب و غریب خصوصیات کو ہر اس چیز کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کر سکتا جو میرے حواس مجھے بتاتے ہیں۔

ہمارے اپنے حواس پر بھروسا کرنے کی خواہش ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہمارے آلاتِ پیمائش ہمیں حقیقت کی اصل نوعیت کے بارے میں کیا بتاتے ہیں۔ ہمارے حواس ممالیہ کی رفتار سے حرکت کرنے والی زندگی کے لیے ٹھیک کام کرتے ہیں، لیکن وہ روشنی کی رفتار کی جادوئی دنیا میں کام کرنے کے قابل نہیں۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کائناتی رفتار کی حد کیوں ہے۔ جب آپ روشنی کی رفتار سے سفر کر رہے ہوتے ہیں تو وقت ساکن ہوجاتا ہے۔

روشنی، آخر ہے کیا؟ آئزک نیوٹن کی روشنی کے ساتھ لازوال دلچسپی اس کے بچپن میں شروع ہوئی۔ جب وہ بیس کی دہائی میں تھا، نیوٹن قوس قزح کے اسرار کو سمجھنے والا پہلا شخص بن گیا۔ نیوٹن نے دریافت کیا کہ کچھ روشنی، یا سفید روشنی، قوس قزح کے تمام رنگوں کا مرکب ہے۔ بڑی دریافت۔ اس نے رنگوں کی نمائش کو لاطینی زبان کا لفظ سپیکٹرم (spectrum) دیا جو انگریزی میں ”فینٹم“ یعنی بھوت، پریت اور ارواح ہے۔

ایک سائنسدان کا جو 1800 میں کام کر رہا تھا، ہمارے اردگرد موجود ان دیکھی دنیاؤں کے ایک ثبوت سے سامنا ہو گیا۔ رات میں، ولیم ہرشل نے اپنے وقت کی سب سے بڑی دوربین سے آسمانوں کو دیکھتا۔

دن کے وقت، ہرشل تجربات کرتا۔ نیوٹن کے پہلے کام سے معلوم ہوا تھا کہ سورج کی روشنی مختلف رنگوں کا مرکب ہے۔ اور سب جانتے تھے کہ سورج کی روشنی گرم ہوتی ہے۔ ولیم ہرشل کا سوال تھا کہ کیا روشنی کے کچھ رنگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ حدت رکھتے ہیں۔ سائنسی جینئس کی فطرت تقاضا کرتی ہے کہ ہر اس چیز پر سوال اٹھاؤ اور تجربہ کرو جسے عام لوگ روزمرہ کی بات سمجھتے ہیں۔

ہرشل کو مختلف رنگوں کی روشنی کے حرارتی اثر کے بارے میں جاننا تھا۔ کیا سپیکٹرم کے مختلف حصوں کے حرارتی اثرات برابر تھے؟ اس نے ایک تجربہ ترتیب دیا جس میں سورج کی روشنی کو ایک تنگ جگہ سے گزارا گیا اور پھر ایک مخروط مستوی (پِرزم) کے ذریعے، جس سے اس کی میز پر ایک سپیکٹرم تشکیل پایا۔ اس نے تین تھرمامیٹر اس طرح ترتیب دیے کہ مرکزی تھرمامیٹر سپیکٹرم کے مختلف حصوں میں رکھا جا سکے۔ دوسرے دو تھرمامیٹر دونوں طرف پوزیشن میں تھے، جو کنٹرول کے طور پر کام کرتے تھے۔ یہاں ’کنٹرول‘ کا کیا مطلب ہے؟ ہرشل کو دکھانا تھا کہ جو اثر اس نے دیکھا، وہ مرکزی تھرمامیٹر پر پڑنے والی روشنی کی وجہ سے تھا۔ کنٹرول تھرما میٹرز نے اس آلے کی کسی عمومی گرمی کو ختم کر دیا جو ہو سکتا ہے ہو رہی ہو۔

ہرشل نے تھرمامیٹر بلب کو سپیکٹرم کے بنفشی، سبز اور سرخ حصوں میں رکھ کر بار بار پیمائشیں کیں۔ ہر بار اس نے درجہ حرارت میں اضافہ دیکھا، جو اس نے آٹھ منٹ کے بعد ریکارڈ کیا۔

سرخ میں اوسط اضافہ: منفی تیرہ عشاریہ نو ڈگری سیلسیس
سبز میں : منفی سولہ ڈگری سیلسیس اور
بنفشی میں : منفی سولہ عشاریہ چھ ڈگری سیلسیس
اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ سورج کی روشنی کے سرخ شعاعوں کا حرارتی اثر زیادہ ہے یا اس کی مقدار زیادہ ہے۔

جب سورج آسمان میں حرکت کر رہا تھا، سپیکٹرم میز پر حرکت کر رہا تھا۔ جب مرکزی تھرمامیٹر سپیکٹرم کے سرخ حصے سے کچھ آگے تھا، ہرشل نے نوٹ کیا کہ درجہ حرارت پہلے سے بھی زیادہ تھا۔ کیا ہو رہا تھا؟ اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ سورج سے کچھ غیر مرئی شعاعیں آ رہی تھیں، اور پرزم کے ذریعے سرخ حصے سے آگے جھک رہی تھیں۔

اس نے ابھی ایک نئی قسم کی روشنی دریافت کی۔ ہرشل پہلا شخص تھا جس نے سپیکٹرم کے سرخ سرے کے بالکل نیچے چھپی ہوئی اس ان دیکھی موجودگی کا پتہ لگایا تھا۔ اسی لیے اسے ”انفراریڈ“ کہا جانے لگا۔

”“ انفرا ”لاطینی لفظ ہے اور“ نیچے ”کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ وہ پوشیدہ تھی۔ ہماری آنکھیں اس قسم کی روشنی کے لئے حساس نہیں ہیں، لیکن ہماری جلد ہے۔ ہم اسے گرمی کے طور پر محسوس کرتے ہیں۔ اب، یہ واقعی ایک بڑی دریافت تھی۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ راز اب بھی روشنی کے اندر چھپے ہوئے تھے۔

تقریباً اسی وقت جب ولیم ہرشل انگلینڈ میں اپنے مکان میں انفراریڈ روشنی دریافت کر رہے تھا، جوزف فرون ہوفر (Joseph Fraunhofer) نامی ایک نوجوان لڑکا نا امید مشقت میں پھنسا ہوا تھا۔ وہ زہریلے کیمیکلز کی دیگچے کے اوپر کھڑا ہوا بغیر رکے اسے حل کرنے کے لیے ہلائے جا رہا تھا۔ جوزف گیارہ سال کی عمر میں یتیم ہو گیا تھا اور اسے شاہی آئینہ ساز وائشل برگر (Weichselberger) نامی ایک سخت آقا کو دے دیا گیا تھا۔ اس نے جوزف کو سکول جانے سے روک دیا۔

اس کے بجائے، جوزف دن کو شیشہ بنانے والی ورکشاپ میں محنت کرتا تھا، اور رات کو مالک کے گھریلو کاموں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ جلدی کرو، بیوقوف! یاد رکھنا، پڑھنا نہیں۔ جب تک جوزف کو بڑا موقع نہیں ملا۔ وائشل برگر کا مکان گر گیا۔ باویریا کا مستقبل کا بادشاہ میکسی ملین (Maximilian) یہ دیکھنے کے لیے آفت کے مقام پر پہنچا کہ آیا وہ مدد کر سکتا ہے۔ میکسی ملین اپنی عوام میں دلچسپی لینے کے لیے جانا جاتا تھا، جو اس وقت کے لیے انتہائی غیر معمولی بات تھی۔

باویریا کے مستقبل کے بادشاہ کی تشویش کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے، نوجوان جوزف فرون ہوفر نے ایک مختلف کائنات میں نظارہ پا لیا۔ شہزادہ میکسی ملین نے جوزف کو رقم دی اور اپنے کونسلر سے کہا کہ وہ لڑکے کو مزید مدد فراہم کرے، اگر اس کی ضرورت ہو۔ وائشل برگر گر نے جوزف کا استحصال کرنا اور اسے اسکول جانے سے روکنا جاری رکھا۔ لیکن شہزادے کے کونسلر نے مداخلت کرتے ہوئے جوزف کو آپٹیکل انسٹی ٹیوٹ میں عہدے کی پیشکش کر دی۔

مہربانی کے اس چھوٹے سے اشارے کے سائنسی تاریخ میں بہت دور رس اثرات ہوئے۔ ستائیس سال کی عمر تک، جوزف فرون ہوفر اعلیٰ معیار کے لینس، دوربینوں اور دیگر نظری آلات کے دنیا کے معروف ڈیزائنرز میں سے تھا۔ اس کی ادارہ یہاں پر قدیم Benediktbeuren Abbey میں واقع تھا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں، یہ انتہائی خفیہ، انتہائی اعلیٰ ٹیکنالوجی تھی۔ پہلے زمانے کے بینیڈکٹائن راہبوں نے رازداری کا عہد لیا تھا۔ اس مقامی روایت، اور فرون ہوفر کی لیبارٹری تک رسائی کو محدود کرنے نے اسے تجارت اور ریاستی رازوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے قابل بنایا۔

فرون ہوفر درست لینس کے لیے شیشے کی بہترین اقسام تلاش کرنے کے لیے پرزم کے ساتھ تجربات کر رہا تھا۔ اس نے سوچا، وہ اس طیف ( سپیکٹرم) کو کس طرح بہتر انداز میں دیکھ سکتا ہے جو ایک منشور (پرزم) نے پیدا کیا ہے؟ جب فرون ہوفر نے اپنی زاویہ پیما دوربین (تھیوڈولائٹ) ترتیب دیا۔ یہ ایک قسم کی دوربین تھی۔ میں آپ کو اس علاقے کے دوسرے حصے میں کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔

آواز کی لہریں سننے میں بہت خوبصورت ہیں۔ تصور کریں کہ وہ دیکھنے میں کتنی خوبصورت ہوں گی۔ آپ نے کبھی سوچا کہ آرگن (موسیقی کا آلہ) کی نالیوں (پائپ) کی لمبائی مختلف کیوں ہوتی ہے؟ میں ایک چابی دباتا ہوں جو کسی خاص نالی میں سکڑی ( کمپریسڈ) ہوئی ہوا بھیجتی ہے، جس سے آواز کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ نالی کی لمبائی آواز کی لہر کی لمبائی کا تعین کرتی ہے۔ ایک مختصر نالی آپ کو ایک مختصر آواز کی لہر دیتی ہے۔

مختصر آوازوں کی لہروں میں اونچی اوج (پِچ) ، یا تعدد (فریکوینسی ) ہوتی ہے۔ ملحقہ لہروں کے درمیان فاصلے کو طول موج ( ویو لینتھ ) کہا جاتا ہے۔ ایک لمبا پائپ آپ کو کم پچ، یا کم فریکوئنسی کے ساتھ ایک لمبی آواز کی لہر دیتا ہے۔

آواز کی لہریں خلا میں سفر نہیں کر سکتیں۔ انہیں سواری کے لیے مادے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے ہوا کے مالیکیول، یا پانی، یا چٹان کے۔ لیکن روشنی کی لہریں تنہا اڑتی ہیں۔ وہ خالی جگہ سے گزر سکتی ہے۔ اور ہوا میں آواز کی لہروں سے ایک ملین گنا تیز۔ اور روشنی کی ویو لینتھ ( طول موج) جو ہم دیکھتے ہیں وہ آواز کی لہروں سے بہت چھوٹی ہوتی ہے۔ تقریباً پچاس ہزار روشنی کی لہریں آدھے انچ کی جگہ سے گزر جائیں گی۔

جس طرح آواز کی طول موج اس پچ کا تعین کرتی ہے جسے ہم سنتے ہیں، اسی طرح روشنی کی طول موج اس رنگ کا تعین کرتی ہے جو ہم دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک منشور ( پِرزم) سورج کی روشنی کی لکیر میں چھپے رنگوں کو کیسے پھیلاتا ہے؟ جب روشنی ہوا یا خلا سے گزرتی ہے تو اس کے تمام رنگ ایک ہی رفتار سے حرکت کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ شیشے سے کسی زاویے سے ٹکراتی ہے تو روشنی سست ہو جاتی ہے اور سمت بدل لیتی ہے۔ پرزم کے اندر، ہر رنگ مختلف رفتار سے حرکت کرتا ہے۔

شیشے میں، بنفشی روشنی، جسے ہم مختصر ترین لہروں کے ذریعے دیکھتے ہیں، سرخ روشنی سے زیادہ سست ہوتی ہے، جس میں سب سے لمبی لہریں ہوتی ہیں۔ رفتار میں یہ تبدیلیاں رنگوں کو الگ کر دیتی ہیں، اور اپنی لہروں کو قدرے مختلف سمتوں میں بھیجتی ہیں۔ اس طرح پِرزم (منشور) کام کرتا ہے۔ اگر میں اس کے بارے میں غیر ضروری طور پر جذباتی نظر آتا ہوں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جوزف فرون ہوفر وہی کرنے والا ہے جو آئزک نیوٹن کر سکتا تھا، لیکن کر نا سکا۔ اور اس سے میری اپنی زندگی کے دورانیہ پر ایک طاقتور اثر پڑے گا۔

آپ طبیعیات و فلکیات کے عقد اور سائنس کے میرے اپنے شعبے کی پیدائش، فلکی طبیعیات (astrophysics) کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ روشنی سے لکھا گیا، ان عمودی سیاہ لکیروں میں ایک خفیہ کوڈ ہے۔ فرون ہوفر نے ان کی طرف دیکھا، اور سوچا کہ کیوں؟ ایک کوڈ جو ہمارے پاس اجنبی کائنات سے آتا ہے۔ ان تاریک، عمودی لکیروں میں لکھا ہوا پیغام کیا ہے؟ اسے سمجھنے، سوال کرنے، تلاش کرنے میں سو سال لگے۔ خوبصورتی کی عمدہ ساخت کی بہت سی پرتیں ہیں : زمین کی کیمیا اور اس کا ماحول، زندگی کا ارتقاء، بہت سے الگ الگ دھاگے ہیں۔

آئیے صرف ایک کا جائزہ لیں، سطح پر فطرت کے رنگ جو ہمیں حیران کر دیتے ہیں۔ واقعی کیا ہو رہا ہے؟ سرخ، نیلا فطرت کے رنگوں کا حیران کن امتزاج کیسے بنتا ہے؟ سورج سے مختلف لمبائیوں کی روشنی کی لہریں زمین سے ٹکراتی ہیں۔ ان مخصوص پھولوں کی پنکھڑیاں روشنی کی تمام کم توانائی، لمبی سرخ طول موج (ویو لینتھ) کو جذب کر لیتی ہیں۔ لیکن پنکھڑیاں چھوٹی، زیادہ توانائی والی نیلی طول موج کو منعکس کر دیتی ہیں۔ ستارے کی روشنی اور پنکھڑی۔

یا پانی کے درمیان تعامل ہی نیلا رنگ بناتا ہے۔ سب سے لمبی لہریں، جنہیں ہم سرخ دیکھتے ہیں، سب سے کم توانائی رکھتی ہیں۔ رنگ وہ طریقہ ہے جس سے ہماری آنکھیں یہ سمجھتی ہیں کہ روشنی کی لہریں کتنی توانا ہیں۔ ایک غروب آفتاب، آپ کے محبوب کی آنکھیں، ایک جھنڈا یا یہ چمکدار نئی موٹر کار۔ وہ جو احساسات پیدا کرتے ہیں وہ اس وقت ہوتے ہیں جب آپ کے اندر کوئی چیز روشنی کی لہروں کی تعدد اور توانائی میں کسی خاص تغیر سے متحرک ہوتی ہے۔

اور وہ خفیہ پیغام؟ فرون ہوفر طیف (Fraunhofer ’s spectrum) میں وہ سیاہ عمودی لکیریں؟ انہیں کیا بناتا ہے؟ یہ اس وقت بنتا ہے جب ان مخصوص رنگوں کی روشنی کی لہریں جذب ہو رہی ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت کی ایک اور سطح پر ہوتا ہے، اس دنیا سے کہیں چھوٹا جس میں ہم کام کرنے کے عادی ہیں۔ وہاں پہنچنے کے لیے ہمیں اپنے سے دس ارب گنا چھوٹا ہونا پڑے گا۔ ہم ان ایٹموں میں سے کسی ایک کو چن سکتے ہیں۔ لیکن آئیے ہائیڈروجن ایٹم کو چنتے ہیں۔

ہائیڈروجن ایٹم کائنات میں سب سے زیادہ پائے جانے والے ایٹموں میں ہے۔ اور یہ سب سے آسان بھی ہے۔ اس میں صرف ایک الیکٹران ہے۔ اور صرف ایک پروٹون۔ ہم کوانٹم دائرے میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ عام انسانی تجربے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہاں عام فہم کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن ایٹم کا الیکٹران لے لیں۔ ایٹم میں، مدار کے درمیان الیکٹران موجود نہیں ہوتا ہے۔ یہ ایک مدار سے غائب ہو جاتا ہے اور دوسرے میں دوبارہ ظاہر ہوتا ہے۔

ایسا لگتا ہے جیسے آپ نے دوسری منزل سے چوتھی منزل تک لفٹ لی، لیکن درمیان میں اس کا وجود ختم ہو گیا۔ ایک اور چیز۔ کوانٹم ایلیویٹر (لِفٹ) صرف مخصوص منزلوں پر رکتی ہے۔ الیکٹران کے مدار کے حجم سختی سے محدود ہیں، اور ہر عنصر کے ایٹموں کے لیے مختلف ہیں۔ اسی لیے عناصر مختلف ہیں۔ کسی بھی چیز کی کیمیا کا تعین اس کے الیکٹران کے مدار سے ہوتا ہے۔ وہ قوت جو ایک الیکٹران کو مدار میں رکھتی ہے اس کا کشش ثقل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

یہ برقی کشش کی ایک قوت ہے۔ الیکٹران ایک ہائیڈروجن ایٹم کے مرکزی نیوکلیس کے گرد لہراتے ہوئے رقص کرتا ہے۔ اور مدار سے مدار میں کوانٹم چھلانگ لگاتا ہے۔ اوپر یا نیچے۔ مدار جتنا بڑا ہو گا، الیکٹران کی توانائی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ ایک الیکٹران کو بڑے مدار میں چھلانگ لگانے کے لیے توانائی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ اور اسے واپس نیچے کودنے کے لیے توانائی کھونا پڑتی ہے۔ ہر اوپر کی چھلانگ ایک ایٹم کی روشنی کی لہر کو جذب کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

لیکن ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ نیچے کی طرف چھلانگ لگانے کا کیا سبب بنتا ہے۔ جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس طرح کی چھلانگیں ہمیشہ ایک روشنی کی لہر پیدا کرتی ہیں جس کا رنگ مداروں کے درمیان توانائی کے فرق سے میل کھاتا ہے۔ سورج کی سطح تمام رنگوں کی روشنی کی لہروں کو پھیلاتی ہے۔ اگر آپ سورج کی روشنی کو پرزم کے ذریعے دیکھتے ہیں، تو آپ کو اس کا سپیکٹرم نظر آئے گا۔ جب آپ دوربین کے ذریعے سپیکٹرم کو بڑھاتے ہیں، جیسا کہ جوزف فرون ہوفر نے کیا تھا، تو آپ ایٹم کے اندر الیکٹران کے رقص پر سے پردہ اٹھا دیتے ہیں۔ جب الیکٹران کی توانائی بڑھتی ہے تو یہ نچلے مدار میں گرتی ہے، تو اس سے خارج ہونے والی روشنی کی لہر بکھر جاتی ہے۔ اس میں سے زیادہ تر ہم تک نہیں پہنچتی۔ اس سے سپیکٹرم میں ایک سیاہ خلا یا سیاہ عمودی لکیر رہ جاتی ہے۔ یہ تاریک لکیریں سورج کی فضا میں ہائیڈروجن ایٹموں کے ذریعے ڈالے گئے سائے ہیں۔

Mo Tze

سوڈیم ایٹم مختلف سائے ڈالتے ہیں۔ ان کے الیکٹران ایک مختلف دھن پر رقص کرتے ہیں۔ ٹیبل نمک کا ایک دانہ سوڈیم اور کلورین ایٹموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے دس ملین بلین نمک کے ایک دانے میں اپنا جنونی رقص کر رہے ہیں۔ اور چھبیس الیکٹرانوں کے ساتھ ایک واحد لوہے کا ایٹم براڈوے میوزیکل میں ایک بڑے پروڈکشن نمبر کی طرح ہے۔ جب آپ سپیکٹر و سکوپ سے ستارے کو دیکھتے ہیں، تو آپ کو اس کے ماحول میں تمام عناصر کی تاریک لکیریں نظر آتی ہیں۔

مجھے کسی بھی چیز کا سپیکٹرم (طیفہ) دکھائیں، چاہے یہاں زمین پر ہو یا دور دراز کے ستارے پر، میں آپ کو بتاؤں گا کہ یہ کس چیز سے بنا ہے۔ فرون ہوفر کی لکیریں کائنات میں بڑے پیمانے پر لکھے گئے عناصر کے جوہری دستخط ہیں۔ جیسا کہ سائنس کی تاریخ میں ہر دوسرے بڑے انکشاف کے ساتھ، نئے اور گہرے اسرار کا راستہ کھلتا ہے، ہم پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ روشنی میں اور بھی بہت سے راز چھپے ہوئے ہیں۔ جب جوزف فرون ہوفر نے ایک پِرزم کو دوربین سے جوڑ کر آسمان کی طرف موڑ دیا تو وہ ستاروں کو ہمارے بہت ہی قریب لے آیا۔ جب وہ صرف انتالیس سال کا تھا تو اسے ایک مہلک بیماری لاحق ہو گئی۔ شاید شیشہ سازی کے زہریلے کیمیکلز کے ابتدائی اور طویل مدتی ساتھ کے نتیجے میں۔

آپ کبھی نہیں جان سکتے کہ اگلا جینیس کہاں سے آئے گا۔ ان میں سے کتنے کو ہم ملبوں میں چھوڑ آئے ہیں۔ شہزادہ اور اس کی بادشاہت ایک غریب یتیم کے ساتھ مہربانی کے اس عمل سے بے حد پھولی پھلی۔

فرون ہوفر کی دریافتوں نے باویریا کو دہی علاقے سے تکنیکی پاور ہاؤس میں تبدیل کر دیا۔ جب وہ مر رہا تھا، حکومت آپٹیکل (بصریاتی) شیشے کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کے بارے میں اس کے قیمتی علم کے ہر ٹکڑے کو محفوظ رکھنے کے لیے بے چین تھی۔ حکومت نے بہترین بصریاتی شیشے بنانے کے لیے فرون ہوفر کی ٹیکنالوجی کو مزید سو سال تک ریاستی راز میں رکھا۔ یہ کسی ایسے شخص کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو گا جس سے ہم بعد میں اپنے سفر میں ملیں گے۔

لیکن فرون ہوفر خالص سائنسی تحقیق کے معاملے میں ایسی کسی رازداری کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سائنس کو پھلنے پھولنے کے لیے آزادی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ فطرت کے بارے میں ہماری سمجھ دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسے ہی فرون ہوفر نے سپیکٹرل لکیروں کو دریافت کیا، اس نے ان کے بارے میں وہ سب کچھ شائع کر دیا جو وہ جانتا تھا۔ اور اس کی اہم دریافت کی بازگشت اب بھی گونج رہی ہے۔ اس کی سپیکٹرل لکیروں نے انکشاف کیا کہ ساری نظر آنے والی کائنات ایک ہی طرح کے عناصر سے بنی ہے۔

سیارے، ستارے، کہکشاں، ہم خود، اور زندگی کا تمام کچھ ایک ہی ستارہ مادہ ہے۔ اس نے ہمارے لیے یہ جاننا ممکن بنایا کہ دوسری دنیاؤں کے ماحول میں کیا کچھ ہے۔ اور کہکشاؤں میں لاکھوں نوری سال دور۔ سپیکٹرل لکیروں نے نہ صرف دور دراز اشیاء کی ساخت کا انکشاف کیا بلکہ ان کی حرکت کا بھی انکشاف کیا جو ہماری طرف ہو یا ہم سے دور۔ ان کا استعمال کرتے ہوئے، ہم نے دریافت کیا کہ ہماری کائنات پھیل رہی ہے۔

لیکن شاید سپیکٹر و سکوپی کا سب سے بڑا انکشاف اس چیز کی دریافت ہے جسے وہ خود بھی نہیں دیکھ سکتی۔ تاریک مادے کی ایک پوشیدہ کائنات مانوس کائنات سے چھ گنا زیادہ بڑی۔ وہ کسی پراسرار مادے سے بنی ہوئی ہے جو کسی بھی قسم کی روشنی خارج، منعکس یا جذب نہیں کرتی۔ ہم اسے صرف اس کی کشش ثقل کی وجہ سے جانتے ہیں، جو تمام کہکشاؤں کو کھینچتی ہے اور اس کے اندر نظر آنے والے ستاروں کی حرکت کو تیز کرتی ہے۔ ہماری آنکھوں سے نظر آنے والی روشنیوں سے کہیں زیادہ اور کئی طرح کی روشنیاں ہیں۔

فطرت کے بارے میں ہمارے تصور کو مرئی روشنی تک محدود رکھنا صرف ایک سُر میں موسیقی سننے کے مترادف ہے۔ اور بھی کئی طرح کی روشنیاں ہیں۔ وہ صرف طول موج میں مختلف ہیں، لیکن ایک بہت بڑی حد سے آگے۔ مثال کے طور پر، انفراریڈ روشنی جسے ولیم ہرشل نے دریافت کیا یا ایکس رے روشنی۔ یا ریڈیو روشنی۔ یا گاما رے روشنی۔

یہ صرف ایک ہی چیز کو دیکھنے کے مختلف طریقے نہیں ہیں۔ روشنی کی یہ دوسری قسمیں کائنات میں مختلف اشیاء اور مظاہر کو ظاہر کرتی ہیں۔ گاما رے کی روشنی میں، مثال کے طور پر، ہم دور دراز کی کہکشاؤں میں پراسرار دھماکے دیکھ سکتے ہیں جنہیں ہم دوسری صورت میں نظرانداز کر دیتے۔ اور مائیکرو ویو روشنی میں، ہم کائنات کی پیدائش تک واپس دیکھ سکتے ہیں۔

ابھی تو ہم نے صرف آنکھیں کھولی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments