وائٹ گولڈ (کپاس) اور ہماری معیشت


گندم کی مناسب قیمت نہ ملنے سے مایوس کسان اب اپنی امیدوں کو کپاس سے جوڑ رہا ہے۔ حکومتی ادارے بھی کپاس کی کاشت اور اس کی حفاظت کی مہم زور شور سے چلا رہے ہیں۔ کپاس جسے وائٹ گولڈ یعنی ( سفید سونا ) بھی کہا جاتا ہے اور اس کی فصل کو کیش کراپ (یعنی نقد آور فصل ) کہا جاتا ہے اس کے ریشے سے ایک جانب ہمیں پہننے کے لیے کپڑا اور دھاگہ حاصل ہوتا ہے تو دوسری جانب اس کا بیج یا بنولہ ہمارے لیے خوردنی تیل فراہم کرتا ہے جس سے بناسپتی گھی اور آئل تیار ہوتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب پاکستان کپاس کی پیداوار میں خود کفیل ہو گیا تھا اور سالانہ 25 لاکھ گانٹھیں بیرون ملک بھیجا کرتا تھا لیکن اب صورتحال اتنی خراب ہو گئی ہے کہ اس سال ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری تقریباً 70 لاکھ باہر سے منگوانے پر مجبور ہو چکی ہے جس پر تقریباً تین سے چار ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی پڑے گی ہماری پیداوار ڈیڑھ کروڑ سے 55 لاکھ گانٹھ تک کیسے پہنچی یہ ایک دردناک داستان ہے۔ ماہرین کپاس کے زوال کی بڑی وجہ حکومتی عدم توجہی اور غلط پالیسی کو قرار دیتے ہیں جس کی باعث کسان گنا، مکئی، چاول، گندم کی جانب راغب ہو رہے ہیں اور کپاس کی فصل کاشت کرنا ان کے لیے مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔

یہ حال رہا تو کچھ عرصہ بعد کپاس کی فصل ہمارے ماضی کا حصہ بن جائے گی جس کی ایک وجہ با اثر شوگر ملز مالکان کا اپنی ملز کو چلانے کے لیے گنے کی فصل کو فروغ دینا اور کاٹن بیلٹ میں پابندی کے باوجود غیر قانونی نئی شوگر ملز کا قیام ہے تو دوسری جانب ناقص بیج، اور مہنگی اور جعلی ادویات اور کھاد ہمارے زمیندار کو اس فصل سے دور کر رہی ہے تیسری جانب ورکنگ کیپیٹل کی کمی کے ساتھ ساتھ پاکستانی بینکوں کے تاریخ کے بلند ترین مارک اپ (شرح منافع ) ریٹ جنرز اور ٹیکسٹائل مالکان کے لیے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔

وہاڑی جو کسی وقت ”کاٹن سٹی“ کہلاتا تھا اور سردیوں میں کپاس کی آمد سے شہر کے راستے بند ہو جاتے تھے آج وہاں کی کاٹن فیکٹریاں بند ہو کر رہائشی کالونیوں میں بدل چکی ہیں اور کپاس نہ ہونے کے برابر کاشت ہو رہی ہے۔ جنوبی پنجاب کی بیشتر کاٹن فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں جو چل رہی ہیں وہ بھی مالی بحران میں مبتلا نظر آتی ہیں اور رفتہ رفتہ کھنڈروں میں بدل رہی ہیں۔ ایک جانب کپاس کی کمی ٹیکسٹائل ملز کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے تو دوسری جانب کپاس کی کمی سے بنولے اور کھل کے ساتھ ساتھ خوردنی تیل کی کمی نے ہماری گھی انڈسٹری کو مشکل میں ڈال دیا اور گھی اور خوردنی تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ہماری آئل ملز بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہو چکیں ہیں۔ لیکن کوئی پالیسی نظر نہیں آ رہی جو اس مردہ گھوڑے میں جان ڈال سکے اور دوبارہ اس فصل کو منافع بخش بنا کر کسانوں کو پھر اس جانب راغب کر سکے اور لاکھوں لوگوں کی بے روزگاری سے بچا سکے۔

جنوبی پنجاب کے بیشتر علاقوں میں کپاس کی پیداوار کی وجہ سے کاٹن بیلٹ بھی کہا جاتا ہے گو سندھ اور بلوچستان بھی اس بیلٹ میں شامل ہو چکے ہیں لیکن مجموعی طور پر جنوبی پنجاب ہی پیداواری لحاظ سے سر فہرست رہا ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا دار و مدار اسی پیداوار پر رہا ہے۔ کیونکہ یہاں سے حاصل شدہ کپاس کی فصل معیار اور کوالٹی کے لحاظ سے دنیا کی بہترین کپاس سمجھی جاتی تھی۔ جو ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بہترین خام مال تصور کیا جاتا تھا اور اس سے حاصل شدہ بنولہ خوردنی تیل کی پیداوار کے لیے بہترین سمجھا جاتا تھا اور اس سے حاصل شدہ کھل کو ہمارے جانوروں کے لیے بہترین خوراک سمجھا جاتا تھا۔

لیکن آج پاکستانی کپاس معیار اور کوالٹی کے لحاظ سے دنیا بھر میں سب ہلکی اور کم ترین کوالٹی میں شمار کی جاتی ہے جس کی بنیادی وجہ کمزور اور ناقص بیج قرار دیا جاتا ہے اور سونے پر سہاگہ ناقص اور مہنگی زرعی ادویات شمار ہوتی ہے۔ جبکہ کھاد کی بلیک مارکیٹ میں مہنگی دستیابی یا عدم دستیابی ایک اہم وجہ ہے کپاس کی فصل اور اس کے معیار کی کمی کی دیگر وجوہات میں گلوبل وارمنگ، بی ٹی کاٹن بیج کی ناکامی، نئے کاٹن سیڈ کی عدم دریافت، گورنمنٹ کی ناقص پالیسی اور کاٹن ایکٹ کا عدم نفاذ، فصل کا عین مون سون میں تیار ہونا، عین گرمی میں فصل کی آمد، محکمہ زراعت کی جانب سے بروقت رہنمائی کا فقدان اور فصل کو پانی کا وقت پر نہ ملنا بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی برآمدات کا زیادہ تر انحصار کپاس سے بنی ہوئی مصنوعات پر ہوتا ہے۔ اس لیے کپاس کو پاکستانی زراعت اور معیشت میں اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔ کوئی بھی زرعی ملک کپاس کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری ہمارے ملک کی معیشت میں بڑی اہمیت کی حامل رہی ہے اور اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ کاٹن انڈسٹری ہماری قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور پاکستان میں مینو فیکچرنگ کا سب سے بڑا شعبہ ہے جس کا ہماری مجموعی پیداوار میں 8 فیصد اور کل برآمدات میں تقریباً 60 فیصد سے بھی زیادہ ہے ہمارے ملک کے 40 فیصد سے زیادہ افراد کا کسی نہ کسی طرح اسی انڈسٹری سے روزگار بھی وابستہ ہے۔

بورڈ آف انوسٹمنٹ کے اعداد شمار کے مطابق 2020ء میں پاکستان میں 400 سے زائد کاٹن فیکٹریاں کام کر رہی تھیں جن میں سے بیشتر جنوبی پنجاب میں واقع ہیں۔ کیونکہ اس شعبے کا خام مال یعنی کپاس یہاں سے باآسانی اور ارزاں دستیاب تھا۔ لیکن کپاس کی پیداوار بتدریج کم ہوتی چلی جا رہی ہے اور اب تک اس پیداوار میں 50 فیصد سے بھی زیادہ کمی واقع ہو چکی ہے۔ جس سے ایک جانب تو عام کسان اور کاشتکار متاثر ہوا ہے تو دوسری جانب ملکی کاٹن انڈسٹری تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے اور کاٹن انڈسٹری یہ بحران بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

گزشتہ سیلاب کے باعث 2022ء میں پیداواری بہتری کے تمام اندازے اور خواب دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں گزشتہ سال 2021ء۔ 22 کے موازنہ کے مطابق ٹیکسٹائل انڈسٹری کی برآمدات تقریباً 16 فیصد کمی کا شکار ہو چکی تھی۔ جس کی بنیادی وجہ 100 فیصد سے زیادہ ورکنگ کیپیٹل میں اضافہ، نئے ٹیکسٹائل یونٹ کی عدم فعالی، ملک میں کپاس کی پیداوار میں کمی، اور ڈالر کی اونچی اُڑان بھی شامل تھا۔ پچھلے سال 2023ء میں کپاس اور ٹیکسٹائل مصنوعات میں کچھ اضافہ دیکھنے میں ضرور آیا جو ایک خوش آئند بات ہے۔

اور اسی پچھلے سال کی تھوڑی سی بہتری نے کسانوں میں ایک امید کی کرن ضرور پیدا کی ہے اور اس مرتبہ پھر ایک اچھی فصل متوقع کی جا سکتی ہے۔ 2024ء کی فصل سندھ و بلوچستان میں آنا شروع ہو چکی ہے۔ جو 8500روپے فی من سے 10000روپے من فروخت ہو رہی ہے۔ مگر اس مرتبہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں غیر معمولی مندی سے کاشتکار اور کاٹن جنرز بلکہ پورا ٹیکسٹائل سیکٹر بھی پریشانی میں مبتلا ہے۔ کیونکہ کپاس کے اس سیزن کے دوران پیٹرولیم مصنوعات، کھاد و زرعی ادویات کی قیمتیں بڑھنے سے کپاس کی فی ایکڑ پیداواری لاگت میں اضافہ ہو چکا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار میں کمی کا شدید اندیشہ ہے۔ جو گندم کے بعد کپاس سے وابستہ امیدوں کے لیے خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان بڑے اخراجات کے مدنظر کیا کاشتکار کو اس کی فصل کا مناسب معاوضہ مل سکے گا؟ حکومت پنجاب جو توجہ کپاس کی کاشت پر دے رہی ہے کیا ویسی ہی توجہ اس فصل کے مناسب معاوضے پر بھی دے پائے گی؟

کپاس کی فصل اور ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری حکومتی توجہ اور سرپرستی کی منتظر ہے کپاس کے بیج پر ریسرچ کے راستے سے رکاوٹیں دور کر کے روایتی بیج سے نجات اور معیاری کھاد و زرعی ادویات کی سستے داموں فراہمی ذخیرہ اندازوں اور ناجائز منافع خوری کا سد باب اور کاٹن بیلٹ میں ناجائز اور غیر قانونی شوگر ملز کی بندش ہی ہمیں اس بحران سے نکال سکتی ہے ورنہ اس پوری انڈسٹری سے وابستہ ایک عوامی طبقے کی بڑی بے روزگاری کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے اور ملک پر کپاس اور تیل کے درآمدی بوجھ میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے جو ہماری کمزور ملکی معیشت کے لیے مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ اگر ذرا سی توجہ دی جائے تو یہ کپاس ہماری معیشت کی بحالی کے لیے بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments