تاریک سلطنت از ششی تھرور


تاثر و تبصرہ
محمّد رضوان سلیم سندھو

بہت دنوں سے یہ کتاب میرے سرہانے رکھی تھی مگر ایک کے بعد دوسری کتاب راہ میں حائل تھی۔ پچھلے جمعہ کو بالآخر کتاب ہاتھ میں لی اور فہرست ابواب کا جائزہ لیا تو دل نے کہا ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ مصنف معروف شخصیت ہیں، ان کا تعلق ہندوستان سے ہے، وہاں کی پارلیمنٹ میں کانگریس کی طرف سے رکن ہیں۔ بہت پڑھے لکھے اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی یہ کتاب کافی مقبول ہے۔ کتاب کا مرکزی موضوع ہندوستان پر دو سو سالہ برطانوی راج کی اصلیت کو ظاہر کرنا ہے۔

وہ راج جس کو برطانوی شاندار بتاتے ہیں دراصل ایک تاریک دور تھا، ایک بھیانک خواب تھا جس نے ہنستے مسکراتے خوشحال ہندوستان کو غربت، بیماری اور پسماندگی میں دھکیل دیا۔ ویسے تو صرف یہ بتا دیا جائے کہ جب انگریز ہندوستان میں آئے تھے تو اس وقت ہندوستان دنیا کی مجموعی پیداوار کا تئیس فیصد تھا اور جب وہ یہاں سے گئے تو ہندوستان محض دنیا کی دولت کا چار فیصد تھا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان نے غلامی کی کیا مادی قیمت ادا کی۔

اور انہی دو سو سال میں برطانیہ دنیا کی پیداوار کے چار فیصد سے نو فیصد تک پہنچ گیا۔ ان اعداد و شمار کی موجودگی میں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ برطانوی سلطنت ایک تاریک دور اور ڈراؤنا خواب تھا کسی اور بات کی ضرورت نہیں ہے، مگر داد دینی چاہیے مصنف کو کہ جس نے دلائل کی روشنی میں یہ حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کی۔

اس سے پہلے کہ کتاب کے مندرجات پر لکھا جائے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ اس موضوع پر ہمارے ہاں، یعنی متحدہ ہندوستان، بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ جبر کے باوجود انگریز دور میں ہی اس کے ظلم پر اہل قلم جن کا تعلق کسی بھی شعبہ سے تھا انہوں نے لکھا اور خوب لکھا۔ آپ جانتے ہیں کہ عوام تو انھیں فرنگی کہتے تھے اور یہ لفظ اچھے معنی میں ’نہیں بولا جاتا تھا۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس نے براہ راست اس موضوع پر لکھا ہے۔

کتاب دراصل ایک تقریر کی تفصیل میں لکھی گئی ہے جو مصنف نے اس موضوع پر کی تھی۔ کتاب ابتداء میں ان تاریخوں کا ذکر کرتی ہے جن سے گزر کر انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے اور پھر اسے چھوڑ گئے۔ کتاب مختلف ابواب میں تقسیم ہے اور ہر باب ایک طویل مضمون کی شکل میں ہے اور ہر مضمون دوسرے سے منسلک ہے۔ کتاب کا پہلا باب اس لوٹ مار کے ذکر میں ہے جو طویل عرصے تک جاری رہی اور جس نے سونا اگلنے والے خطے کا دیوالیہ نکال دیا۔

1757 وہ سال ہے جس میں انگریز کو پلاسی کے میدان میں وہ فیصلہ کن فتح ملی جس کے بعد اس نے پھر پلٹ کر نہیں دیکھا، اور اپنی لوٹ مار کو جس حد تک لے جاسکتا تھا وہ لے گیا۔ 1768 میں جب گرتے ہوئے مغل بادشاہ نے بنگال اور بہار کی دیوانی فرنگی کلائیو کو لکھ دی تو سمجھیں ہندوستان پر فاتحہ پڑھ دی گئی۔ بنگال اور بہار جو مغل دور کے امیر ترین صوبے تھے وہ قحط، غربت اور بیماری کی آماجگاہ بن گئے۔ کلائیو اور اس کے ساتھیوں نے ایسی بیدردی سے لوٹ مار مچائی کہ ان کے اپنے بھی چیخ اٹھے۔

فرنگی دور میں ہندوستان کی وہ تمام صنعتیں جو دنیا بھر کو کپڑا، نیل، مسالے، چمڑا، ہتھیار اور دیگر سامان برآمد کرتی تھیں وہ بند کر دی گیں تاکہ برطانوی صنعتیں چل سکیں۔ خاص طور پر ہندوستان کی بحری جہاز سازی کی صنعت کو جبر سے روکا گیا تاکہ برطانوی صنعت چل سکے۔ کتاب بتاتی ہے کہ ہندوستان میں جتنے بھی قحط پڑے وہ انگریز دور میں ہی پڑے اور ان کے نتیجے میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے۔

کتاب صرف یک طرفہ حقائق اور دلائل نہیں دیتی بلکہ دوسری طرف کے دلائل کا جائزہ بھی لیتی ہے۔ کچھ باتیں عام طور پر برطانوی دور کے حق میں کہی جاتی ہیں جیسا کہ ہندو ستان کے بنیادی ڈھانچے کو جدت دی گئی، نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی، سیاسی استحکام آیا، امن و امان کی صورت حال اچھی ہوئی، سیاسی وحدت قائم ہوئی، انگریزی زبان سے روشناس کروا کر نئی دنیا کا حصہ بنایا اور سب سے بڑھ کر جدید انتظامی اور سیاسی ڈھانچہ دیا۔

کتاب نے ایک ایک کر کے ان دلائل کا جائزہ لیا ہے اور ان پر تنقید کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ برطانیہ یہاں تاجر کے روپ میں نہ آتا تو ہندوستان ترقی کرتے ہوئے ہر شعبہ میں کہیں آگے ہوتا۔ کم ازکم اگر وہ دنیا کی تئیس فیصد پیداوار پر ہی کھڑا رہتا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ان سے کتنا بہتر ہوتا جنہوں نے نچلا حصہ صاف کرنا یہاں آ کر سیکھا۔

مثلاً ریلوے کو فرنگی کارنامہ اور تحفہ کہا جاتا ہے، کتاب اس کے مقصد سے لے کر بننے اور استعمال تک کے معاملے میں یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ خالصتاً برطانیہ کے تجارتی مفاد کے لیے کئی گنا زیادہ لاگت سے بنائی گئی اور ان ہی کے مفاد میں استعمال ہوتی رہی۔ پہلے اسے بنانے میں برطانوی سرمایہ داروں نے کسی بھی دوسری جگہ سے کہیں زیادہ کمایا اور پھر ریلوے صرف انگریز سرکار کے تجارتی اور انتظامی مفادات کے لیے کام کرتی رہی۔

ایک زمانے تک ہندوستانیوں کو اس میں سفر کی اجازت نہیں تھی۔ اور جب اجازت ہوئی تو پہلے صاحب لوگوں کا معیار اور رعایا کا معیار اور تھا۔ کتاب بتاتی ہے کہ ریل کی تیزی کے باوجود قحط کے دنوں میں اسے بھوکوں مرتے لوگوں کو خوراک پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔ جبکہ اس زمانے میں جب ابھی فرنگی وارد نہیں ہوئے تھے سست ذرائع آمدورفت کے باوجود شہریوں تک سامان ضرورت پہنچا دیا جاتا تھا۔ دوسرا یہ کہنا صرف اس وقت درست ہو سکتا ہے کہ انگریز نے ہند کو سیاسی وحدت اور امن بخشا جب یہ بھی درست ہو کہ ہند میں کبھی سیاسی اور معاشرتی استحکام نہ رہا ہو۔ مغل زوال کے ساتھ انارکی سی صورتحال ضرور پیدا ہوئی مگر وہ بہت جلد ختم ہو جاتی کیونکہ ایسا ماضی میں بھی کئی بار ہو چکا تھا۔

نہری نظام جسے انگریز کا کارنامہ کہا جاتا تھا اس کے بارے میں کتاب بتاتی ہے کہ نہری نظام پر اس سے کہیں کم خرچ کیا گیا جو ضرورت تھی۔ تعلیم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ آبادی جس کا بڑا حصہ مغل دور میں خواندہ تھا وہ فرنگی دور میں ناخواندہ قرار پایا۔ تعلیم پر میکالے کے خیالات پڑھ لینے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ انگریز برصغیر کو کتنی اور کیسی تعلیم دینا چاہتا تھا۔ وہ صرف ایسا طبقہ پیدا کرنا چاہتے تھے جو ان کے اور رعایا کے درمیان پل کا کام دے سکے، اسے عام لوگوں کی تعلیم سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اور اس طبقے کی کہانی یہ ہے کہ انگریز جیسا بن جانے کے بعد بھی اس کی قدر فرنگیوں سے کہیں کم تھی۔

سید محمود، جو سب جج بنے، تو انگریز جج کے ہاتھوں مسلسل تضحیک برداشت کرنے کے بعد استعفاء دینا پڑا۔ فرنگی اور دیسی اہلکاروں کی تنخواہوں اور مراعات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

سیاسی شعور دینا انگریز کی کوشش نہیں تھی کیونکہ انھوں نے ہر محکمہ ایسے بنایا تھا جو عملاً جمہوری اصولوں کی نفی کرتا تھا۔ جہاں تک ٹیکنالوجی کا معاملہ ہے تو فرنگی کے شکنجوں میں آنے سے پہلے کا امیر ہندوستان اپنی ضرورت کی ٹیکنالوجی کہیں سے بھی درآمد کر سکتا تھا۔

کتاب بتاتی ہے کہ انگریز نے مقامی لوگوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس کی برائی کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہزاروں لوگوں کو غلام بنایا گیا اور جبری مشقت ہر بیرونی ممالک میں بھیجا گیا۔ جبر سے لوگوں کی زمینیں اور مال اسباب چھینے گئے۔ وہ لوگ جن کے ہاں صاف اور سیدھا طریقہ انصاف رائج تھا انہیں پیچیدہ نظام میں پھنسایا گیا۔ معیار یہ تھا کہ انگریز دیسی لوگوں کو قتل کر کے بھی چند روپے کا جرمانہ بھرتا تھا جبکہ دیس آدمی کوئی چھوٹی موٹی غلطی کر کے بھی فرنگی تشدد سے مار دیا جاتا تھا۔ جلیانوالہ باغ فرنگی بربریت کا گواہ ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ڈائر کو سزا کی جگہ انعام و اکرام سے نوازا گیا۔

کتاب فرنگی کی تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی کا تفصیل سے ذکر کرتی ہے۔ مصنف کے خیال میں 1857 کے بعد مذہب کی بنیاد پر تقسیم کو ہوا دی گئی جس کا آخری نتیجہ تقسیم ہند کی شکل میں نکلا۔ ظاہر ہے کہ آپ پہلی بات سے اتفاق کرنے کے باوجود آخری بات سے مکمل اتفاق نہیں کر سکتے کیونکہ تقسیم کی کئی اور وجوہات تھیں جن میں سے ایک کانگریس لیڈرشپ کی جلد بازی اور تنگ نظری بھی تھی۔ مصنف پاکستان کو بھی جگہ جگہ نشانہ بناتا ہے اور اسے راج کی غلطی کے طور پر پیش کرتا ہے۔

حیرت یہ ہے کہ بھارت نے تقسیم کے بعد جو رویہ ریاست کے طور پر اپنایا وہ کسی طرح بھی فرنگی سرکار سے مختلف نہ تھا مگر مصنف اسے نہیں دیکھ سکا۔ میرے خیال میں تینوں ریاستیں، بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش آج تک جبر کی فرنگی روایت سے جان نہیں چھڑا سکیں۔ پاکستان کے دامن پر اگر 1971 ایک داغ ہے تو بھارت کا دامن 1984 میں سکھوں اور پہلے اور بعد میں مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی نسل کشی سے بھرا پڑا ہے۔ ہاں اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کا بار بار فوجی آمریت میں پھنسنا اپنے حجم سے بڑی فوج کو ورثے میں لینا ہے۔

کتاب کے آخر میں مصنف نے یہ نتیجہ پیش کیا ہے کہ انگریز راج ہندوستان کے لیے ایک بڑے گھاٹے کا سودا ثابت ہوا۔ یہ درست ہے مگر ایک سوال میرے ذہن میں آتا ہے کہ جو لوگ اپنے اثاثے نہ سنبھال سکیں ان پر پھر دوسرے ہی قبضہ کرتے ہیں۔ یہ بھی مصنف نے درست کہا کہ ہمارے سب دکھوں کی وجہ راج نہیں ہے بلکہ کئی جگہ پر ہماری نالائقی بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments