پی ٹی وی ’باعث ندامت‘ ہے


پاکستان ٹیلی ویژن کے ایم ڈی پارلیمنٹیرینز کو ایک بریفنگ کے دوران فرماتے ہیں کہ پی ٹی وی ’باعث ندامت‘ بن چکا ہے۔ انہوں نے سچ کہا، لیکن آ دھا سچ۔ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ ’میں نے اور میرے پیش رو ایم ڈیز نے مل جُل کے پی ٹی وی کو باعث ندامت بنا دیا ہے‘۔ ایم ڈی صاحب کے بیان سے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ سوئی گیس یا ٹورازم کے ایم ڈی ہیں، جو ایک آوٹ سائیڈر کے طور پر یہ تبصرہ کر رہے ہیں۔

ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ کسی ایم ڈی کو بھی کیا الزام دینا، اصل میں تو یہ ان حکومتوں کی نا اہلی ہے جو ان ایم ڈیز کو تعینات کرتی ہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کے ایک وزیر سے اک نجی محفل میں جب یہ پوچھا گیا کہ ان ساڑھے چار برس میں کابینہ کے کسی اجلاس کے ایجنڈے میں کوئی ثقافتی موضوع بھی شامل ہوا ہے تو انہوں نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ ’ایسا رسک کبھی نہیں لیا گیا‘۔

پی ٹی وی تو ہمارے تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کا محافظ تھا، ہماری جمالیاتی اقدار کا نگہبان تھا، ہمارا مان تھا، یہ باعث ندامت کیسے بن گیا؟ اچھا ڈراما کیا ہے، اعلیٰ موسیقی کسے کہتے ہیں، اُردو کس چڑیا کا نام ہے، خوش لباسی کیا شے ہے، یہ سب ہماری نسل نے پی ٹی وی سے سیکھا تھا۔ ہر شعبے کے کیسے کیسے نام ذہن میں آ رہے ہیں، کیسے باکمال لوگ تھے وہ! یہ سب جِن کس نے پی ٹی وی کی بوتل میں بند کئے تھے؟ کس نے یہ سمت طے کی تھی؟

حکمران تو ہر دور کے تقریباّ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں، سو اُس وقت بھی سیاسی مقاصد کے تحت پی ٹی وی کی نِیو ڈالی گئی۔ صدارتی الیکشن قریب آ رہا تھا، اپوزیشن سے نمٹنے کے لئے 1964ء میں ٹی وی آغاز کیا گیا۔ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں تو پی ٹی وی بُری طرح ناکام ہوا مگر تہذیبی اور ثقافتی محاز پر اس کی کامیابیاں حیران کن ثابت ہوئیں۔ ہوا یہ کہ کچھ ایسے لوگوں کا ایک گروہ اکھٹا ہو گیا جو اعلٰی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ریڈیو اور سٹیج کا پس منظر رکھتا تھا، اور پی ٹی وی کے پہلے ڈایئریکٹر پروگرامز اسلم اظہر ان کی قیادت کر رہے تھے۔حکومت نے فقط ایک مہربانی فرمائی کہ پروگرامنگ میں دخل اندازی سے پرہیز کیا، پروفیشنلز کو spaceدی، اور اپنی دلچسپی کو خبر نامہ تک محدود رکھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی تو اُ نہوں نے اسلم اظہر کو پی ٹی وی کا مینجنگ ڈائریکٹر لگا دیا، جو ٹی وی کی ترقی کے سفر کا فیصلہ کُن موڑ ثابت ہوا۔ زمانہ عہد میں اُس کے ہے محوِ آرائش، بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ (برسبیلِ تذکرہ، بھٹو صاحب کی حکومت غالباً پاکستان کی ستّرسالہ تاریخ میں واحد حکومت تھی جس کی ایک واضح کلچرل پالیسی تھی، اور آرٹس کونسلز سے نیفڈیک تک ہمارے ہاں تہذیب و ثقافت کی ترویج کے اکثر ادارے اسی دور میں وجود میں آئے )

عظیم الشّان سلطنت کو گرتے گرتے بھی وقت لگتا ہے، پی ٹی وی کو بھی لگا، لیکن بھٹو حکومت کے بعد اس عمل کا آغاز ہو چکا تھا۔ فرق صرف اتنا سا پڑا تھا کہ وہ  spaceچھین لی گئی جس میں تخلیقی ذہن قلانچیں بھرتا تھا۔ سیاسی مداخلت بے مہار ہو گئی، ڈراما سمیت ہر شعبہ اس کی زد میں آ گیا۔

’پی ٹی وی کے گولڈن پیریڈ کا احیا کیا جائے گا‘ یہ نعرہ پچھلے تیس برس میں متعدد حکومتیں لگا چکی ہیں، مگر سب لاحاصل۔ کیونکہ پہلا قدم ہی غلط سمت میں اُٹھایا جاتا ہے۔وہ گولڈن پیریڈ جو عا لیشان ڈرامے اور اعلیٰ موسیقی سے عبارت تھا اُسکی بازیافت کے لئے کبھی سیاسی صحافیوں کو ایم ڈی لگایا جاتا ہے، کبھی سرکاری افسروں کو، اور پھر ان سے صرف اور صرف خبر نامے کے حوالے سے باز پُرس کی جاتی ہے۔ یہ تعیناتیاں ہی بتا رہی ہیں کہ پی ٹی وی کو فقط ایک پراپیگنڈا ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔

اور یا پھر کسی مارکیٹنگ گُرو کو پکڑ کر ایم ڈی لگا دیا جاتا ہے، جسے ڈراما اور موسیقی کے بارے اتنی ہی معلومات ہوتی ہیں جتنی پی ٹی وی کے چوکیداروں کو نظریہ اضافت کے بارے میں ہیں۔ سو روپے زیادہ کما لینے سے کیا پی ٹی وی کا گولڈن پیریڈ واپس آ جائے گا؟اور پھر پی ٹی وی تو ویسے ہی عوام کے اُن پینتیس روپے پر چلتا ہے جو بجلی کا ہر صارف دیتا ہے۔

یہ سب کوتاہ نظری کے قصے ہیں۔

پی ٹی وی میں حکومتی مداخلت کی ہوس کا یہ عالم ہے کہ پچھلے ایک برس سے ادارے کا مستقل ایم ڈی ہی تعینات نہیں کیا گیا، کسی کٹھ پُتلی کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا۔ اکیس کروڑ لوگوں میں کیا آپ کو ایک موزوں اُمیدوار بھی نہیں مل سکا؟

اب تو پی ٹی وی نیوز ایک علیحدہ چینل ہے، اُس کا ایم ڈی بھی علیحدہ کر دیجئے، لیکن پی ٹی وی ہوم کو تو بخش دیجئے۔ علاج خاک ہو گا اگر تشخیص ہی درست نہیں۔ پی ٹی وی کو vision کی ضرورت ہے۔ اچھا چلئے، ہماری بات نا سُنئے، بڑوں سے مشورہ کر لیجئے، پی ٹی وی کے معماروں سے مشورہ کر لےجئے، افتخار عارف اور ضیا محی الدین سے بات کر لیں، راحت کاظمی اور انور مقصود کی سن لیں، شعیب منصور اور سرمد صہبائی سے پوچھ لیں، اور بھی بہت سے ہیں، آپ نیت تو کریں۔ بات کو سمجھنے کی کوشش تو کریں!

اور اگر فیصلہ سازوں کے پاس تہذیب و ثقافت جیسی ’خُرافات‘ کے لئے وقت نہیں ہے، تو پھر ایک مہربانی فرمائیے، پی ٹی وی کو ventilatorسے اُتار لیجئے، کیونکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ یہ فقط پیسے کمانے کا ایک حربہ ہوتا ہے، وینٹی لیٹر پر گیا ہوا مریض مشکل ہی بچتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).