ماہرِ نفسیات کی ڈائری: کیا آپ احساسِ کمتری کا شکار ہیں؟


ماہرینِ نفسیات کا خیال ہے کہ کسی کی شخصیت کی تفہیم کے لیے احساسِ کہتری (جو احساسِ کمتری بھی کہلاتا ہے) کی تشخیص نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ احساسِ کمتری کی کوکھ سے بہت سے نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ چاہے وہ ANXIETY ہو،DEPRESSION ہو PARANOIA ہو یا ازدواجی مسائل اگر ہم غور سے دیکھیں تو ہمیں اکثر اوقات ان کے پسِ پردہ احساسِ کہتری کے سائے لرزتے نظر آتے ہیں۔

جو لوگ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں وہ حد سے زیادہ حساس بن جاتے ہیں۔ وہ دوسروں کی رائے کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ وہ تنقید برداشت نہیں کر سکتے اور جلد ناراض ہو جاتے ہیں۔ ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنا اعتماد خود پیدا کرنے کی بجائے دوسروں سے اعتماد مستعار لیتے ہیں۔

احساسِ کمتری کے بارے میں مختلف ماہرین کی آرا، نظریات اور تھیوریز مختلف ہیں۔ میں یہاں جس ماہرِ نفسیات کی تھیوری پیش کرنا چاہتا ہوں ان کا نام HARRY STACK SULLIVAN ہے۔ سالیوان کا کہنا ہے کہ انسانی شخصیت کے دو حصے ہیں GOOD ME and BAD ME۔

سالیوان نے یہ نظریہ پیش کیا کہ جب بچے کو ماں، باپ، نانی، نانا، ماموں، چچا، خالہ، پھوپھی، کہتے ہیں
تم بہت پیارے ہو
تم بہت ذہین ہو
تم بہت قابل ہو

تو وہ یہ باتیں بار بار سن کر ایک دن لاشعوری طور پر خود سے کہنے لگتا ہے
میں بہت پیارا ہوں
میں بہت ذہین ہوں
میں بہت قابل ہوں

اس طرح اس بچے کا GOOD ME تشکیل پاتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کی شخصیت کا اٹوٹ حصہ بن جاتا ہے۔
اسی طرح اگر ایک بچہ اپنے والدین بزرگوں اور اساتذہ سے سنتا ہے
تم بدصورت ہو
تم چغد ہو
تم ایک ناکام انسان ہو

تو ایک دن وہ لاشعوری طور پر سوچنے لگتا ہے
میں بد صورت ہوں
میں چغد ہوں
میں ایک ناکام انسان ہوں

اس طرح اس کا BAD ME بننے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کی سوچ اورشخصیت میں سرایت کرنے لگتا ہے۔
سالیون کا کہنا تھا کہ صحت مند انسانوں کا گڈ می ان کے بیڈ می سے جبکہ نفسیاتی مریضوں کا بیڈ می ان کے گڈ می سے بڑا ہوتا ہے۔ سالیوان نفسیاتی مسائل کے مریضوں میں احساسِ کمتری کو ایک کلیدی مقام دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں خود اعمتمادی کا فقدان ہوتا ہے۔ احساسِ کمتری کا شکار لوگ اپنا دوسروں سے مقابلہ کرتے رہتے ہیں اور وہ بھی ایسے لوگوں سےجنہیں وہ اپنی ذات سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ سوچتے ہیں

میری بہن مجھ سے زیادہ مالدار ہے
میرا دوست مجھ سے زیادہ کامیاب ہے
میرا ہمسایہ مجھ سے زیادہ پڑھا لکھا ہے
میرا شاگرد مجھ سے بڑا شاعر ہے

ایسے لوگ لاشعوری طور پر دوسروں کی خوبیوں اور اپنی خامیوں، دوسروں کی کامیابیوں اور اپنی ناکامیوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں اور پھر دکھی رہتے ہیں۔ ان میں قناعت کی کمی ہوتی ہے۔
میں اپنے کلینک میں جب ایسے مریضوں کا علاج کرتا ہوں تو انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کے بہترین حصے پر توجہ مرکوز کریں۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ فطرت نے انہیں کیا تحفہ دیا ہے۔ وہ ایک مشغلہ اپنائیں۔ وہ اپنے بچپن اور نوجوانی کے خوابوں سے دوبارہ رشتہ قائم کریں اور پھر ان خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کریں۔ اس طرح ان میں خود اعتمادی پیدا ہوگی۔ جب وہ اپنی ذات کا تحفہ ڈھونڈ لیں تو پھر اس میں اپنے دوستوں کو شریک کریں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ پیدا ہوتے وقت انہوں نے اپنی مرضی سے اپنا خاندان نہیں چنا تھا لیکن جوانی اور بڑھاپے میں وہ اپنی مرضی سے اپنا خاندان بنا سکتے ہیں، دوستوں کا وہ خاندان جسے میں FAMILY OF THE HEART کہتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کی عزت کرتے ہیں، آپ کا احترام کرتے ہیں، آپ سے پیار کرتے ہیں اور آپ کی صلاحتیوں کو سراہتے ہیں۔ اس سے لوگوں میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور ان کے احساسِ کمتری میں کمی آتی ہے۔

ہمارے CREATIVE PSYCHOTHERAPY CLINIC کے بہت سے مریض دوبارہ کالج اور یونیوسرٹی چلے گئے اور انہوں نے ڈگریاں حاصل کیں۔ بعض نے فنونِ لطیفہ کو اپنایا اور شاعر ادیب اور پینٹر بن گئے۔ جو اور کچھ نہیں کر سکے انہوں نے وولنٹیر ورک کرنا شروع کر دیا۔ میں نے انہیں عبدالستار ایدھی کی سوانح عمری پڑھنے کو دی جس سے وہ بہت متاثر ہوئے اور کینیڈا میں SAINT VINCENT’S KITCHEN میں وولنٹیر کام کرکے غریب اور بے گھر لوگوں کو کھانا کھلانے لگے۔ اس وولنٹیر کام سے ان کے احساس کمتری میں کمی آئی۔ وولنٹیر ورک کرنے والے جانتے ہیں کہ اس کے لیے نہ سائنس میں ایم اے اور نہ نفسیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری درکار ہے۔ خدمتِ خلق کے لیے نیک نیتی اور ہمدردانہ دل کافی ہیں۔

میں اپنے مریضوں کو بتاتا ہوں کہ خوش رہنا ہم سب کا فطری حق ہے اور دوسروں کو خوش رکھنے سے ہم خود بھی خوش رہ سکتے ہیں۔
میں ایک مذہبی انسان نہیں ہوں لیکن اپنے مریضوں کی خدمت اور ان کے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے میں ان کی مدد کرنے کو عبادت سمجھتا ہوں۔ دکھی انسانیت کے نام یہ میرا محبت بھرا تحفہ ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 695 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail