مسلمانوں کے بیٹے مسلمان اور عیسائیوں کی بیٹیاں عیسائی کیوں ہوتی ہیں؟


میرا ایک شعر ہے۔
اس درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں
نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مسلمان کا بیٹا مسلمان اور عیسائی کی بیٹی عیسائی کیوں ہوتی ہے؟ اسی طرح ہندو کا بیٹا ہندو اور یہودی کی بیٹی یہودی کیوں ہوتی ہے؟ ساری دنیا کی بھاری اکثریت وہی مذہب اختیار کرتی ہے جو ان کے آبا و اجداد کا مذہب ہوتا ہے۔ نجانے کتنے لوگ اسی مذہب میں مرتے ہیں جس میں وہ پیدا ہوتے ہیں۔

جدید نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ جب بچہ کسی خاندان میں پیدا ہوتا ہے اور کسی کلچر میں پرورش پاتا ہے تو زندگی کے ابتدائی چند سالوں میں اپنے ماحول کی زبان کے ساتھ ساتھ اس ماحول کے مذہب اور روایت کو بھی بغیر سوچے سمجھے اپنا لیتا ہے۔ اسی کو ہم اندھا ایمان کہتے ہیں۔ یہ اس بچے کی سماجی مذہبی اور ثقافتی CONDITIONING کا ماحصل ہے۔ اس CONDITIONING کے اثرات اتنے گہرے اور دیر پا ہوتے ہیں کہ اکثر پیروکار ساری عمر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ان کا مذہب اور مسلک باقی تمام مذاہب اور مسالک سے بہتر ہے اور وہی اصل سچ ہے۔ موروثی مذہب کو ماننے والے روایتی مرد اور عورتیں اکثر اوقات یہ نہیں سوچتے کہ اگر وہ کسی دوسرے ملک، مسلک یا مذہب میں پیدا ہوتے تو ان کا بھی مذہب کوئی اور ہوتا۔

جب بچہ جوان ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں تنقیدی شعور پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنے ماحول کو ایک تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ اسی لیے نوجوان اپنے والدین اور اساتذہ سے زندگی کے مسائل کے بارے میں بہت سے چبھتے ہوئے سوال پوچھتے ہیں۔ بعض خاندانوں اور معاشروں میں والدین، اساتذہ اور بزرگ ان سوالوں کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض روایتی خاندانوں اور معاشروں میں سوال پوچھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر نوجوان بزرگوں کی غیر منصفانہ روایتوں پر اعتراض کریں تو وہ بزرگ ان نوجوانوں کو بے ادب اور گستاخ کہتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ اس طرح وہ نوجوان سوال پوچھنا چھوڑ دیتے ہیں اور بزرگوں کی اندھی تقلید کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح بعض غیر انسانی اور غیر منصفانہ روایتیں نسل در نسل چلتی رہتی ہیں اور دلوں اور دماغوں کی کھڑکیاں نہیں کھلتیں۔

ہمارے بچوں کی سوچوں پہ کب سے پہرے ہیں
کہاں سے آئے گا آزاد نوجواں کوئی

بعض معاشروں میں روایت شکنی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ روایت شکن بعض دفعہ اپنی نوکری اپنی جائداد حتیٰ کہ اپنی جان تک کھو بیٹھتے ہیں۔ بعض کو جلا وطنی کی زندگی اختئیار کرنی پڑتی ہے، بعض سولی پر لٹکا دیے جاتے ہیں اور بعض کو جیل جانا پڑتا ہے۔ بخش لائلپوری کا شعر ہے
؎ ہمارا شہر تو چھوٹا ہے لیکن
ہمارے شہر کا مقتل بڑا ہے

وہ معاشرے جو ترقی کی راہ پر گامزن ہیں وہ جانتے ہیں کہ جب ہم بچوں کے سوالوں کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کی غیرروایتی سوچ کی تربیت کرتے ہیں تو ان نوجوانوں میں بہت سے ادیب اور شاعر، سائنسدان اور دانشور بنتے ہیں، مثبت سماجی تبدیلیاں لاتے ہیں اور انسانی شعور کے ارتقا میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ترقی پسند معاشرے جانتے ہیں کہ ہمیں بچوں کی تربیت میں EDUCATION اورINDOCTRINATION میں فرق کرنا ہوگا۔ ہمیں بچوں کو سب مذہبی اور غیر مذہبی روایتوں سے آگاہ کرنا ہوگا لیکن انہیں تاریخ کا حصہ بنا کر اسے ایمان کا حصہ بنا کر نہیں۔ ایسے معاشرے جانتے ہیں کہ بچے کے نیک انسان بننے کے لیے کسی بھی مذہب پر اندھا ایمان لانے کی ضرورت نہیں۔ بچے اور نوجوان مختلف مذاہب اور روایتوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور پھر جوان ہو کر اور سوچ سمجھ کر خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کس روایت اور کس مذہب کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔

اس سلسلے میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ چند سال پیشتر کینیڈا کے ایک سکول میں ایک نوجوان نے عیسائیت کی کلاس میں داخلہ لیا۔ کلاس شروع ہوئی تو استاد نے سب طلبا و طالبات سے کہا کہ وہ عیسیٰ کے احترام میں کھڑے ہو جائیں۔ سب نوجوان کھڑے ہو گئے لیکن ایک لڑکا بیٹھا رہا

استاد نے پوچھا کہ آپ کیوں کھڑے نہیں ہوئے؟
نوجوان نے پوچھا میں کیوں کھڑا ہوں؟
استاد نے کہا عیسیٰ خدا کا بیٹا ہے مقدس ہے ہم اس تقدس کے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں۔

نوجوان نے کہا میں عیسیٰ کو خدا کا بیٹا نہیں مانتا۔ وہ ایک ریفارمر تھے۔ میں عیسائیت کو مذہب کے طور پر نہیں ایک تاریخی روایت کے طور پر پڑھنا اور جاننا چاہتا ہوں۔ استاد اتنا ناراض ہوا کہ اسے کلاس سے نکال دیا۔

نوجوان نے گھر جا کر اپنے والدین سے استاد کی شکایت کی۔ والدین نے CANADIAN BROADCATING TV سے رابطہ کیا اور ایک جرنلسٹ نے اس نوجوان اور اس کے والدین کا نیشنل ٹی وی پر انٹرویو لیا جو میں نے دیکھا اور سنا۔

اس انٹرویو کے بعد اس سکول کے پرنسپل نے معافی مانگی اور اقرار کیا کہ اس نوجوان کا حق ہے کہ وہ عیسائیت کو مذہب کے طور پر نہیں ایک تاریخی روایت کے طور پو پڑھے اور کلاس میں کھڑا نہ ہو۔ میرے دو شعر ہیں

 نئی کتاب مدلل جواب چاہیں گے
ہمارے بچے نیا اب نصاب چاہیں گے
حساب مانگیں گے اک دن وہ لمحےلمحے کا
ہمارے عہد کا وہ احتساب چاہیں گے۔
مستقبل قریب میں ایک دن آئے گا جب ساری دنیا بچوں کے حقوق کی بات کرے گی اور بچوں کی INDOCTRINATION کو ان کے حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جائے گا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 691 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail