پاکستان کے لیے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کا رکن بننا کتنا اہم ہے؟


پاکستان جوہری پروگرام

پاکستان 1957 میں آئی اے ای اے کا رکن بنا تھا

پاکستان ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی یعنی آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کا رکن منتخب ہو گیا ہے۔

دفترِ خارجہ کے مطابق پاکستان کو اگلے 2 برس کے لیے اس عہدے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

آسٹریا کا دارلحکومت ویانا میں ہونے والے آئی اے ای اے کے اجلاس میں چیئرمین پاکستان اٹامک انرجی کمیشن محمد نعیم نے اسے سفارتی سطح پر ایک بڑی کامیابی اور پاکستان کی جوہری ٹیکنالوجی کے پر امن استعمال میں نمایاں کردار کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ آئی اے ای اے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کو جوابدہ ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

’جوہری ہتھیار متعارف کروانے والے کو لیڈر کہا جا رہا ہے‘

کیا وزیراعظم نے اپنے بیان سے بحث ہی ختم کر دی ہے؟

’ایٹم بم نہیں بنائیں گے‘: جنرل ضیا کا وعدہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی اے ای اے نیوکلیئر ممالک میں ایٹمی مواد کی تجارت اور سیف گارڈز کو ملحوظِ خاطر رکھنے کے حوالے سے ایک اہم ادارہ ہے اور پاکستان کو ماضی میں اس ضمن میں عالمی سطح پر اس ادارے کی جانب سے سراہا گیا ہے۔

لیکن کیا بورڈ آف گورنرز کا رکن ہونا پاکستان کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر رضوانہ عباسی کہتی ہیں کہ یہ ’یقیناً ایک اہم پیش رفت تو ہے لیکن اِسے بڑا بریک تھرُو نہیں کہا جا سکتا۔‘

ڈاکٹر رضوانہ عباسی نیوکلئیر اسٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہیں اور امریکہ کے ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ اور سیمسن سینٹر جیسے اداروں کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ پاکستان کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں درس و تدریس کے شعبے سے بھی منسلک رہی ہیں۔

پاکستان میزائل

وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے نیشنل سکیورٹی کلچر کو آئی اے ای اے نے کافی سراہا ہے، ’لیکن بین الاقوامی سطح پر مرکزی دھارے میں آنے کے لیے پاکستان کے پاس این ایس جی کا راستہ ہی ہے اور اس کے لیے پاکستان کو بہتر سفارتی کوششیں کرنا ہوں گی۔‘

ان کے خیال میں یہ عہدہ ملنے کے بعد پاکستان اب اپنا نقطہ نظر بہتر انداز میں پیش کر سکتا ہے اور نیوکلیئر سپلائیرز گروپ یعنی این ایس جی کی رکنیت کے لیے اپنی کاوشوں کو بین الاقوامی سطح پر بہتر انداز میں پروجیکٹ کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ادارہ ’کسی بھی قسم کا مواد حاصل کرنے یا بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی میں مدد نہیں کر سکتا۔ جس کی وجہ پاکستان کا بین الاقوامی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے اور پاکستان نیوکلیئر سپلائیرز گروپ کا رکن نہ ہونا ہے۔‘

پاکستان میزائل

تاہم پاکستان میں اس شعبے سے متعلقہ ایک ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ بورڈ آف گورنرز کا رکن ہونا بڑی بات نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایجنسی کا ’اہم ترین اور پالیسی ساز عہدوں میں سے ایک ملنا دراصل پاکستان کے سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کا واضح ثبوت ہے۔‘

ان کے مطابق ’پاکستان اس ایجنسی کے ساتھ سب سے بڑے پروگراموں میں سے ایک پر کام کرتا ہے اور یہ دو طرفہ باہمی مفاد پر مبنی تعلق ہے، جس میں ہمارے ماہرین آئی اے ای اے کے مختلف شعبوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پُرامن مقاصد کے لیے نیوکلیئر تنصیبات کی سکیورٹی جیسے معاملات پر پاکستان اب تیزی سے لیڈرشپ کردار کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘

واضح رہے کہ پاکستان نیوکلیئر سکیورٹی کے حوالے سے اپنی تنصیبات پر کئی بین الاقوامی تربیتی پروگرام بھی کروا رہا ہے۔

آئی اے ای اے کیا ہے؟

جوہری بجلی گھر

آئی اے ای اے ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو جوہری مواد کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے بنیادی طور پر تین بڑے مقاصد ہیں۔

1۔ سیف گارڈ سسٹم کو فروغ دینا ہے یعنی جو ممالک نیوکلیئر مواد کی تجارت کرتے ہیں، ان کے لیے اس امر کو یقینی بنانا کہ اس مواد کا استعمال پرامن مقاصد کے لیے ہے نہ کہ کسی دفاعی یا عسکری مقصد کے لیے۔

2۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینا۔

3۔ نیوکلیئر سیفٹی اور سکیورٹی کے حفاظتی اقدامات اور معیار کو یقینی بنانا اور انہیں فروغ دینا

ایجنسی بنیادی طور پر خود مختار ادارہ ہے اور یہاں پالیسی سازی کے دو ستون ہیں۔ جن میں سے ایک بورڈ آف گورنرز ہے اور دوسرا جنرل کانفرنس۔ بورڈ آف گورنرز ایجنسی کی پالیسیوں اور بجٹ کے معاملات پر اپنی سفارشات جنرل کانفرنس کو بھیجتے ہیں جہاں 170 رکن ممالک اور بورڈ کے 35 ممبران ان پر بحث کرتے ہیں، جو بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ساتھ شیئر کیے جاتے ہیں۔ پاکستان 1957 میں اس ادارے کا رکن بنا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32696 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp