نہ جنگ ضروری ہے، نہ جنگ ہو گی


\"edit\"گزشتہ چند روز کے دوران پاک بھارت تنازعہ کے حوالے سے بعض اہم پہلو سامنے آئے ہیں۔ ان سب کو ملا کر دیکھنے سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ فی الوقت پاک بھارت جنگ کا امکان نہیں ہے۔ بھارتی لیڈروں کے تند و تیز بیانات اور میڈیا کی جنگجوئی سے قطع نظر موجودہ حالات میں بھارت کی طرف سے پاکستان پر حملہ خود اپنی تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔ ایک وجہ تو معمول کا نقصان ہے جو دو بڑی افواج کے تصادم کی صورت میں دونوں طرف کی حکومتوں اور عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔ انفرا اسٹرکچر تباہ ہو گا اور بمباری سے پھیلنے والی بربادی کی تعمیر میں کثیر وسائل صرف ہوں گے جو دونوں ملکوں کی معیشت کےلئے ناقابل برداشت ہوں گے۔ تاہم بھارت کے نقطہ نظر سے اس وقت پاکستان پر حملہ کر کے وہ اپنی سفارتی برتری سے محروم ہونے کے علاوہ ملک کی پھلتی پھولتی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بھی بنے گا۔ دور حاضر کی معیشت اعتماد اور اعتبار کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ دنیا کے اہم ملک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھارتی معیشت کے حجم اور پیداواری صلاحیت پر بھروسہ کرتے ہوئے کثیر سرمایہ بھارت میں لا رہی ہیں۔ پاک بھارت جنگ اس اعتماد اور یقین کو طویل عرصہ کےلئے ختم کر دے گی۔ اس لئے ریٹائرڈ فوجی جنرل پاکستانی چوکیوں کو تباہ کرنے ، بھارتی اینکر پاکستان پر حملہ کرکے سزا دینے اورنریندر مودی پاکستان کو سبق سکھانے کی باتیں کرنے کے باوجود درحقیقت ایسا کچھ کرنے کا حوصلہ اور صلاحیت نہیں رکھتے۔

اس حوالے سے چند عوامل کا حوالہ دینا ضروری ہے، ان میں سب سے پہلے پاک فوج کی تیاری اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا یہ دوٹوک اور مسلسل اعلان ہے کہ پاک فوج ملک کے چپے چپے کی حفاظت کرنے کا عزم رکھتی ہے اور اس کےلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ انہوں نے گزشتہ چند روز میں متعدد بار اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ دشمن پاکستان کو کمزور سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔ اگر پاکستان کو نشانہ بنایا گیا تو اس کا بھرپور اور پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔ پاک فوج نے گزشتہ دو برس کے دوران آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف حیران کن کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ بھارت کے خیال میں پاکستان کی ایک تہائی فوج دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، اس لئے اس موقع پر حملہ کی صورت میں اس کا دفاع ریت کی دیوار ثابت ہو گا۔ تاہم بھارت کی طرف سے جنگ کی باتیں سامنے آنے کے بعد جس مستعدی سے پاکستانی فوج کی طرف سے مقابلہ کےلئے تیار ہونے کا اعلان کیا گیا ہے، وہ بھارت کی غلط فہمیوں کو ختم کرنے کےلئے کافی ہونا چاہئے۔ متعدد فوجی مبصر یہ واضح کر چکے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کے باوجود پاک فوج کسی اچانک حملہ کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ اگر بھارت سرجیکل آپریشن یعنی اچانک فضائی حملے کرکے تباہی پھیلانے کی بات کرتا ہے تو پاک ائرفورس بھی اس کا منہ توڑ جواب دے سکتی ہے۔ اسی طرح سرحدوں پر مقابلہ کے حوالے سے بھی پاک فوج اپنی صلاحیت اور تربیت کے اعتبار سے بہتر پوزیشن میں ہے۔

اس تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چین کی طرف سے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور چینی وزیراعظم لی کیکیانگ کے درمیان ملاقات میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔ چینی رہنما نے اس موقع پر نہ صرف یہ کہ کشمیر کے سوال پر پاکستانی موقف کی تائید کی اور مکمل حمایت کا یقین دلایا بلکہ بھارت کی طرف سے حملہ کی صورت میں پاکستان کی مکمل مدد کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ جنگ کی صورت میں اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ پاکستان اور چین نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران دفاعی شعبہ میں تعاون کو فروغ دیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے ساتھ بے رخی اور بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے سے پیدا ہونے والی صورتحال میں پاکستان اور چین کے درمیان عسکری شعبوں میں تعاون میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس لئے اب پاکستان کو کسی تصادم کی صورت میں امریکہ یا مغرب کی طرف سے اسلحہ کی فراہمی پر اچانک پابندیوں کا اندیشہ لاحق نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ پاکستان مختلف النوع اسلحہ کی تیاری میں کافی حد تک خود کفیل ہوچکا ہے۔ پاکستان اس وقت 1965 یا 1971 کی جنگ کے مقابلے میں عسکری لحاظ سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ کسی بھی ممکنہ تنازعہ کی صورت میں بھارت کو ان پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہو گی۔

گزشتہ دنوں میں بھارت سے اگر حملہ کرنے اور پاکستان کو سبق سکھانے کی خوفناک دھمکیاں سامنے آئی ہیں تو یہ اطلاعات بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ سنجیدہ فوجی حلقے حکومت کو اشتعال انگیزی میں اضافہ کرنے یا جنگ شروع نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایک مبصر نے تو یہ بھی کہا ہے کہ بھارتی لیڈر جو بھی کہتے رہیں لیکن بھارت کی ملٹری اور سول بیورو کریسی اتنی پیچیدہ اور مشکل ہے کہ وہ ان فیصلوں کو صرف اس صورت میں عملی جامہ پہنانے کی اجازت دے گی اگر وہ اس کے عملی نتائج کے بارے میں سو فیصد مطمئن ہوں گے۔ اس سے یہ اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ بھارت میں جنگجوئی کا شور برپا ہونے کے باوجود پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے پر مکمل اتفاق رائے نہیں ہے۔ بھارتی حملہ کی صورت میں پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہوگی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ملک میں سول حکومت کمزور اور فوجی قیادت کے اشاروں پر چلنے پر مجبور ہوتی ہے جبکہ بھارت میں سیاسی لیڈروں کو فوج پر کنٹرول حاصل رہا ہے۔ گویا پاکستان پر اگر حملہ ہوا تو اس جنگ میں پاکستان کی سول حکومت اور فوج بھارت کے مقابلے میں زیادہ یکسو اور متحد ہو گی۔

ان دنوں میں یہ تاثر بھی کمزور ہوا ہے کہ بھارت میں سول اور فوجی قیادت متحد ہیں۔ اور پاکستان میں سول اور فوجی قیادت کے درمیان معمولی سے لے کر بڑے معاملات تک میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اب جو خبریں سامنے آ رہی ہیں، ان سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ بھارت میں بھی فوجی قیادت اندھا دھند سیاسی لیڈروں کے احمقانہ فیصلوں کو ماننے پر راضی نہیں ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ بھارتی فوج کے تینوں شعبوں میں بھی ہم آہنگی اور تعاون قابل رشک نہیں ہے۔ یہ تینوں شعبے اپنے اپنے طور پر طاقتور اور بڑے ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔ جدید جنگ میں کسی ملک کی فوج ، ائر فورس اور نیوی کے درمیان ہم آہنگی بنیادی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی وزارت دفاع مکمل طور سے سول بیورو کریسی اور سیاستدانوں کے کنٹرول میں ہے۔ ان لوگوں کی ترجیحات فوج کی ضرورتوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس طرح فوج کے تینوں شعبوں کو ملانے والی وزارت کو خود اپنے ہی زیر انتظام فوج ، ائر فورس اور بحریہ کے ساتھ مواصلت میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔

پاک بھارت جنگ کے امکان کے حوالے سے بھارتی فوج کی صلاحیتوں کے بارے میں بھی شکوک و شبہات سامنے آئے ہیں۔ برطانوی جریدے ’اکانومسٹ‘ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں قرار دیا ہے کہ بھارتی فوج حجم اور وسائل صرف کرنے کے اعتبار سے تو بہت بڑی ہے لیکن اس کے لڑنے کی صلاحیت کے بارے میں یہ بات کہنا مشکل ہے۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بھارتی سیاستدانوں نے عالمی قوت بننے کے خواب دیکھنے اور اقتصادی پیش رفت حاصل کرنے کے باوجود اسی رفتار سے اپنی فوجی قوت میں اضافہ کرنے پر توجہ نہیں دی ہے۔ بھارتی فوج کے زیر استعمال اسلحہ پرانا اور اکثر صورتوں میں ناقابل استعمال ہے۔ یوں تو بھارت کی فوج چین کے بعد سب سے بڑی ہے لیکن یہ حجم ہی کی حد تک ہے۔ بھارتی ائر فورس کے پاس 2000 فائٹر اور بمبار طیارے ہیں لیکن ان میں سے صرف 60 فیصد ہی اڑان بھر سکتے ہیں۔ بھارتی فوج 1982 سے جوانوں کےلئے نئی لڑاکا بندوق یا اسالٹ رائفل Assault Rifle حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اسے ابھی تک اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کی ایک وجہ مشکل اور پیچیدہ بیورو کریسی اور سیاسی ترجیحات ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارتی حکمران کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن جیسے تصورات کی روشنی میں طاقت کے بھرپور استعمال پر یقین کرتے ہوئے میدان میں لڑنے والے سپاہی کی ضرورت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بھارتی بحریہ کی صلاحیت کا یہ عالم ہے کہ پندرہ برس قبل کوچی کے شپ یارڈ میں 40 ہزار ٹن وزنی طیارہ بردار جہاز تیار کرنے کا کام شروع کیا گیا تھا۔ ابتدائی پروگروام کے مطابق یہ جہاز 2010 میں تیار ہو جانا چاہئے تھا لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ 2023 سے پہلے اسے پانی میں نہیں اتارا جا سکے گا۔ ’اکانومسٹ‘ کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کاغذوں میں تو بہت شاندار لگتی ہے۔ اس کے پاس روسی لڑاکا طیارے ، اسرائیلی میزائل ، امریکی ٹرانسپورٹ طیارے اور فرانسیسی سب میرین ہیں لیکن بھارتی افواج کی جنگ لڑنے کی صلاحیت کے بارے میں شبہات موجود ہیں۔

ان حالات میں اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت اگر پاکستان پر حملہ کرے گا تو وہ جارح کہلائے گا۔ ماضی میں ہونے والی سب جنگیں شروع کرنے کا الزام پاکستان پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔ 1965 میں پاکستان نے کشمیر میں طبع آزمائی کی تھی اور وہاں پاکستانی پیش قدمی کو روکنے میں ناکام ہونے پر بھارت نے بین الاقوامی سرحدوں پر جنگ چھیڑ دی تھی۔ اسی طرح 1971 میں اگرچہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ جنگ شروع نہیں کی تھی لیکن مشرقی حصے میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ کرنے کا الزام اس پر عائد ہوتا ہے۔ ان حالات میں عالمی رائے کے علاوہ ملک کے عوام بھی پوری دلجمعی سے پاک فوج کے اقدامات کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اسی طرح 1999 میں کارگل میں بھی پاکستان نے مہم جوئی کا آغاز کیا تھا اور بالآخر امریکہ کی مداخلت سے اس جنگ کو مکمل جنگ میں تبدیل ہونے سے روکنا پڑا تھا۔ تاہم موجودہ حالات میں اگر بھارت ایک ایسی کارروائی کا انتقام لینے کےلئے پاکستان پر حملہ کرتا ہے ۔۔۔۔۔ جس کا واضح اور ٹھوس ثبوت بھی اس کے پاس نہیں ہے تو اخلاقی طور پر اسے پاکستان پر برتری حاصل نہیں ہوگی۔ امریکہ سمیت دنیا کے سب ممالک اس حملہ کو مسترد کریں گے اور جنگ کو فوری طور سے بند کرنے کےلئے دباؤ ڈالا جائے گا۔ اس صورت میں بھارت کا بہترین کارڈ یہ ہو گا کہ وہ فوری اور سخت حملہ میں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دے یا وسیع علاقے پر قبضہ کرلے۔ ان دونوں باتوں کا امکان محدود ہے۔ بھارت کو ایسی جنگ میں پاکستان سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔

پاک بھارت جنگ کی صورت میں کشمیر میں عوام کی تحریک آزادی زیادہ شدت سے زیر بحث آئے گی۔ فی الوقت دنیا کشمیری عوام کو بھولی ہوئی ہے اور وہاں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت اور شدید ردعمل سامنے نہیں آ رہا۔ بھارت کسی حد تک کشمیر کے مسئلہ کو پس منظر میں لے جانے اور اوڑی حملہ کو بہانہ بنا کر دہشت گردی اور پاکستان کی طرف سے جہادی گروہوں کی سرپرستی کو سامنے لانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ لیکن پاکستان پر انتقامی حملہ کی صورت میں دنیا بھر کا میڈیا ان عوامل پر مباحث کا آغاز کرے گا جو ایٹمی صلاحیت کے حامل ان دو ملکوں کے درمیان ایک نئی جنگ کا سبب بنیں گے۔ اس طرح بھارت جس صورتحال کو دنیا سے چھپا کر فوجی قوت کی بنا پر مقبوضہ کشمیر پر قبضہ جاری رکھنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ وہ پوری طرح دنیا کے سامنے ظاہر ہو جائے گی۔ کشمیر میں بھارت کی چیرہ دستیوں اور عوامی تحریک کا قصہ بھی زبان زد عام ہو گا۔ بھارت کےلئے اس کے بعد کشمیر کو داخلی مسئلہ یا معمولی تشدد کا واقعہ قرار دے کر نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہے گا۔

برصغیر کے دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کی بات کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے۔ اس قسم کے خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی میں دونوں ملکوں پر لازم ہے کہ وہ جنگ اور حملوں کی باتیں نہ کریں بلکہ باہمی مذاکرات سے امن قائم کرنے اور مسائل حل کرنے کو ضروری قرار دیں۔ اگرچہ پاکستان پر بدستور یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ وہ ایٹمی دفاعی صلاحیت کا سہارا لے کر جہادی گروہوں کی سرپرستی کرتا ہے یا انہیں برداشت کرتا ہے۔ اس طرح ہمسایہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری اس پر بھی عائد ہوتی ہے۔ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ہرقسم کے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف برسر پیکار ہے۔ اس کے باوجود اگر پاکستان سے انتہا پسندوں کے بھارت جانے کے شواہد موجود ہیں تو اس مسئلہ کو جنگ کی بجائے مذاکرات سے زیادہ احسن طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ جنگ کی صورت میں تو اس قسم کی بے قاعدگیوں اور مداخلت میں اضافہ ہونے کا خطرہ موجود رہے گا۔

1947میں برصغیر کی تقسیم کے وقت دونوں ملکوں کے لیڈروں نے اچھے ہمسایوں اور بھائیوں کی طرح رہنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھارت کے پہلے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے پر راج گوپال اچاریہ کے نام ایک پیغام میں دونوں ملکوں کے درمیان حقیقی دوستی استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ بھارتی رہنما موہن داس گاندھی سے یہ بیان منسوب کیا جاتا ہے کہ: ’’بھارتی اور پاکستانی بھائی بھائی ہیں جو علیحدہ ہو گئے ہیں۔ یہ اپنے اپنے گھروں میں رہیں لیکن انہیں بھائی تو رہنا چاہئے‘‘۔

پاکستان اور بھارت میں جنگ اور ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی باتیں کرنے والوں کو، اپنے ملکوں کے بانی لیڈروں کے ارشادات کی روشنی میں اپنے طرزعمل پر غور کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2782 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments