اپنی مدد آپ کے تحت طلبا کی مدد کی کوششیں


میں باہر گراؤنڈ میں کلاس لیے بیٹھا تھا۔ دسویں کلاس تھی تعداد تقریباً سو کے لگ بھگ ہو گی۔ دس دس طلباء گروپوں میں بیٹھے ہوئے داخلہ فارم پر کر رہے تھے اور میں ان کے مد گار کی حیثیت سے وہاں موجود تھا اور ان کو اجتماعی طور پر ہدایات جاری کی جا رہی تھیں۔ داخلہ فارم کو پر کرتے وقت ہمیں بہت محتاط رہنا پڑتا تھا۔ کیوں کہ ملتان بورڈ نے وطن عزیز میں رائج دیگر قوانین کی طرح یہ قانون بنا رکھا تھا کہ داخلہ فارم میں ہونے والی ایک غلطی پر تین سو روپے جرمانہ وصول کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ ایک کٹنگ یا اوور رائٹنگ پر بھی اتنا ہی مزید جرمانہ وصول کیا جائے گا اور سکول کو ہر سال اس مد میں ہزاروں روپے جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ بورڈ کی طرف سے صرف ایک خط موصول ہوا کرتا کہ آپ کو تیس ہزار روپے جرمانہ ہو گیا ہے۔ عدم ادائیگی کی صورت میں رول نمبر جاری نہیں کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں کوئی تفصیل ہر گز جاری نہیں کی جاتی تھی۔ اس لیے ہمیں یہ کام بہت محتاط رہ کر کرنا پڑتا تھا۔

میں نے دیکھا کہ باقی سب طلباء تو بڑی توجہ سے فارم پرکر رہے ہیں۔ لیکن ایک طالب علم لا تعلق سا بیٹھا ہوا ہے۔ میں نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور وجہ دریافت کی۔ اس نے بتایا کہ گھر میں داخلہ بھجوانے کے لیے پیسے موجود نہیں ہیں اس لیے میں داخلہ فارم پر نہیں کر رہا۔ میں نے اسے تسلی دی کہ تم فکر مت کرو داخلہ فارم پر کرو پیسوں کا بندوبست میں خود کر لوں گا اور وہ خوشی خوشی فارم پر کرنے لگ پڑا۔ اگلے دن جب ہم داخلہ فیس اکٹھی کر رہے تھے تو آصف طالب نامی ایک لڑکا میرے پاس آیا اس نے اپنی داخلہ فیس کے ساتھ ساتھ ایک اضافی فیس بھی ادا کر دی اور ساتھ ہی آہستہ سے کل والے لڑکے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ یہ اس لڑکے کی داخلہ فیس جمع کر لیں۔

پیریڈ ختم ہونے کے بعد میں نے آصف کو روک لیا اور اس سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ اس کے پاس فیس موجود نہیں۔ وہ بولا کہ جب کل یہ آپ کو بتا رہا تھا تو میں نے بھی سن لیا تھا۔ میں نے گھر جا کر ابو کو ساری صورت حال بتائی تو انہوں نے میری فیس کے ساتھ ساتھ اس بچے کی داخلہ فیس بھی بھجوا دی۔ وہی لڑکا مجھے بعد میں فیصل بنک میں منیجر کی حیثیت سے کام کرتا ہوا ملا۔

ایک دن صادق بھٹی صاحب کے ساتھ راؤنڈ پر تھے جو ایک بہت دانا ہیڈماسٹر تھے۔ ان دنوں غیر ملکی دباؤ پر سکولوں میں رائج خاکی یونیفارم کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ہم نے خاکی کی جگہ سفید یونیفارم کا انتخاب کیا تھا۔ راؤنڈ کے دوران کلاس دہم کے سامنے والے برآمدے میں ایک بچہ پرانے والی خاکی یونیفارم میں ہی چل پھر رہا تھا۔ بھٹی صاحب نے اسے ڈانٹا کہ یونیفارم پہن کر کیوں نہیں آئے۔ وہ لڑکا بھٹی صاحب کی آواز سے بھی زیادہ بلند آواز میں بولا نہیں بنا کر دیتا میرا باپ مجھے وردی۔ وہ کہتا ہے کہ دو ماہ رہ گئے ہیں اب کالج میں جاکر ہی کالج کی وردی سلوانا۔

میرا خیال تھا کہ بھٹی صاحب اسے اس کی بدتمیزی پر سزا دیں گے۔ کیوں کہ اس وقت تک ابھی مار نہیں پیار کا رواج نہیں تھا۔ لیکن وہ کسی بھی قسم کے ردعمل کا اظہار کیے بغیر آگے بڑھ گئے۔ راؤنڈ ختم کر کے دفتر میں واپس آئے تو مجھے حکم دیا کہ اس لڑکے کا نام اور پتہ معلوم کرو اور اس کو یونیفارم بنوا کر دو۔ بلکہ ٹھہرو تمام سکول کا سروے کرو کہ کتنے طلباء ہیں جو ابھی تک نئی یونیفارم نہیں بنوا سکے ان کے نام کلاس اور سیکشن سمیت فہرست تیار کرو اور سب کو نئی یونیفارم کا بندوبست کر کے دو۔

اب بندوبست کیسے کرنا ہے پیسے کہاں سے لینے ہیں نہ ہی انہوں نے کچھ بتایا اور نہ ہی مجھ میں پوچھنے کی ہمت تھی۔ میری اپنی تنخواہ بھی ان دنوں کوئی ساڑھے چار یا پانچ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ بہر حال میں نے بشیر صاحب کو ساتھ ملایا جو میرے گاؤں کے بھی ہیں اور دیرینہ دوست بھی۔ سب سے پہلے ہم نے بغیر یونیفارم طلباء کی فہرست تیار کی تقریباً پچاس پچپن کی تعداد تھی۔ اس کارخیر کا آغاز ہم دونوں نے اپنی اپنی ذات سے کیا۔

پانچ پانچ سو روپیہ ملا کر ایک ہزار روپے فنڈ کی بنیاد رکھی گئی اس کے بعد اردگرد نظر دوڑائی تو نظر انتخاب ڈاکٹر ارشد پر پڑی۔ وہ اپنے کلینک میں بیٹھا ہوا مل گیا۔ اسے کچھ بتائے بغیر کہا کہ پانچ ہزار روپے نکالو اس بھلے آدمی نے بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے پیسے جیب سے نکال کر ہمارے حوالے کر دیے۔ اس کے بعد ہم نے اسے بتایا کہ سکول کے بچوں کو یونیفارم لے کر دینا ہے۔ اب ہم ریل بازار آ گئے۔ صادق کلاتھ ہاؤس کپڑوں کی سادہ سی دکان تھی اور اس کے غلے پر بیٹھا صادق نامی شخص اس دکان سے بھی زیادہ سادہ تھا اور یوں لگتا تھا کہ اس کے جسم پر ہلکے سے فالج کے اثرات بھی ہیں ہم اس کے پاس جا بیٹھے اور اسے کہا کہ ہمیں سفید رنگ کا ایسا کپڑا دکھاؤ جس کا رنگ بھی خراب نہ ہو اور دیر پا بھی ہو۔ ہم نے سٹوڈنٹس کو وردیاں لے کر دینی ہیں۔ اس نے اپنے ملازم کو بلایا اور کسی خاص کے ٹی کا تھان لانے کو کہا۔ جب تھان آ گیا تو بولا یہ کپڑا ہمیں انیس میٹر آتا ہے اور آپ کو بھی اسی قیمت پر دیں گے۔ یہ تھان میری طرف سے ہے باقی آپ کے پاس جتنے پیسے ہیں کپڑا لے جائیں اور اگر پھر بھی بچے رہ جائیں ان کو سکول کی مہر لگا کر چٹ دے کر بھیج دیں سب کو اس دکان سے مفت وردیاں فراہم کی جائیں گی۔ ایسے لوگ واقعی ہمارے معاشرے کا حسن ہوا کرتے تھے۔ سکول میں آ کر بچوں میں وردیاں تقسیم کرنے کے بعد بھی بچ گئیں۔ بار بار اسمبلی میں اعلان کیا گیا کہ جس کے پاس وردی نہیں ہے وہ چھٹی کے بعد حاجی حنیف صاحب سے وردی حاصل کر لے۔ اس کے باوجود وردیاں بچ گئیں اور سکول کے ملازمین کو ایک ایک جوڑا دے دیا گیا۔

کلاس نہم کے داخلے ہو رہے تھے کہ حاجی شیر کی طرف سے ایک طالب علم آ کر داخل ہوا۔ جس کی ایک ٹانگ ناکارہ تھی اور وہ لاٹھی کی مدد سے چلتا تھا۔ ایک دن ہم راؤنڈ پر تھے کہ ایک اور ایسا ہی لڑکا ملا جو لاٹھی کی مدد سے چل رہا تھا۔ بھٹی صاحب نے کہا کہ ان لڑکوں کے لیے سائیکل کا انتظام کرنا ہے پتہ کرو کہ وہ مخصوص سائیکل کہاں سے ملتا ہے اور اس کی قیمت کیا ہے۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کی قیمت تقریباً بارہ ہزار روپے ہے اور کسی بھی سائیکلوں کی دکان والے کو کہیں گے تو وہ اسے منگوا دے گا۔

بھٹی صاحب نے اگلے دن اسمبلی میں اعلان کیا۔ کہ سکول کے دو بچوں کو سائیکل خرید کر دنیا ہیں جن کی قیمت پچیس ہزار روپے ہے۔ آپ لوگ اپنے جیب خرچ میں سے کچھ نہ کچھ بچا کر اپنے کلاس مانیٹر کو دے دیں اور کلاس مانیٹر وہ پیسے حاجی حنیف صاحب کو جمع کروا دے۔ بس بات ہوگی اور ہم اس بات کو بھول گئے۔ آٹھ دس دن گزرنے کے بعد حاجی حنیف صاحب ہمارے پاس آئے اور بولے ان پیسوں کا کیا کرنا ہے۔ کون سے پیسے بولے کہ مختلف کلاسوں کے مانیٹر مسلسل جمع کروائے جا رہے ہیں۔

دریافت کیا کہ کتنے پیسے ہیں بولے ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے آج تک جمع ہو چکے ہیں۔ تب جاکر ذہن میں آیا۔ بچوں کے سائیکل خریدنے کے لیے چندے کی اپیل کی گئی تھی اگلے دن اسمبلی میں بچوں کو بتایا گیا کہ پچیس ہزار کی بجائے آپ لوگ ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے اس فنڈ میں جمع کروا چکے ہیں۔ پچیس ہزار روپے کے سائیکل خرید کر بقیہ بچ جانے والے ایک لاکھ دس ہزار روپے بلڈنگ فنڈ میں جمع کروا دیے گئے ہیں۔ اس فنڈ کے بارے میں بھی بتاتا چلوں اس سکول میں طلباء کی تعداد تقریباً ساڑھے پانچ ہزار تھی۔ نصف سے زیادہ کلاسوں کے بیٹھنے کے لیے کمرے موجود نہیں تھے ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت کلاس رومز کی تعمیر کا ڈول ڈالا۔ پہل ڈاکٹر سرور نے کی میں شیخ ایوب اور میاں حفیظ اس کے روح رواں تھے۔

ڈاکٹر سرور نے ہمیں ایک لاکھ روپے دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بسم اللہ کرو اور پہلا کمرہ تو بنوا لو میں نے اپنے ہیڈ ماسٹر سے بات کی تو وہ بولے کہ میں اپنے ڈپٹی سے صلاح مشورہ کرلوں۔ ڈپٹی صاحب سے مشورہ کیا گیا تو دونوں نے کمرہ بنوانے سے جواب دے دیا کہ اگر محکمہ ہم سے پوچھے گا کہ پیسے کہاں سے آئے تو ہم کیا جواب دیں گے۔ بہر حال پھر ہم نے کمیٹی کے ایک اہل کار کو ساتھ ملا کر ظاہر کیا کہ یہ کمرہ کمیٹی کی طرف سے بنوایا جا رہا ہے اور اس طرح صادق بھٹی بلاک کے پہلے کمرے کی تکمیل ہوئی اس کے بعد صادق بھٹی صاحب بطور ہیڈ ماسٹر آ گئے۔

پہلا کمرہ مکمل ہوئے تقریباً ایک سال گزر چکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں پھر ایک لاکھ روپیہ میچنگ گرانٹ کے طور پر دیا کہ ایک کمرہ میری طرف سے لیکن ایک کمرہ آپ لوگ اپنی طرف سے بھی بنوائیں گے۔ بھٹی صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے دو کی بجائے چار کمروں کی تعمیر کا کام شروع کر دیا۔ پھر اس کام میں کچھ ایسی برکت پڑی کہ چودہ پندرہ کلاس رومز پر مشتمل صادق بھٹی بلاک تعمیر ہو چکا تھا۔ اس تعمیر میں شہر یوں نے بھی حصہ لیا۔ سکول اساتذہ کا حصہ تھا۔ لیکن ہمارے طلباء کا حصہ سب سے بڑھ کر تھا۔

مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل تھوڑی سی توجہ اور خلوص سے فوری طور پر حل ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن یہی رویہ سرکاری سطح پر کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا اور دن بدن قومی سطح پر ہمارے اردگرد مسائل کے ایسے ایسے گراں بار پہاڑ بنتے چلے گئے کہ آج ہمیں سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن بھی بمشکل ہی ان سے گزر کر ہم تک پہنچتی ہے۔ وجہ جاننے کے لیے کسی افلاطون، ارسطو، کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔ آپ پچھلے پانچ سالوں میں وطن عزیز کے اعلیٰ ترین اختیاراتی عہدوں سے ریٹائر ہونے والے لوگوں کی فہرست ترتیب دے کر دیکھیں کہ ان میں سے کتنے فی صد لوگ اس وقت وطن عزیز میں موجود ہیں۔ ان کی تعداد شاید آٹے میں موجود نمک کی مقدار سے بھی کم ہوگی۔ بلکہ آپ حاضر سروس عہدوں پر ملک کی خدمت کا نعرہ لگانے والے براجمان بلکہ شاید قابض کا لفظ زیادہ بہتر ہو گا۔ لوگوں کا سروے کروا لیں اکثریت اپنے اہل خانہ سمیت کسی نہ کسی بیرونی ملک کی شہریت حاصل کر چکے ہیں یا یہ معاملات آخری مراحل میں ہیں۔ جب فیصلہ ساز لوگوں نے اس ملک میں رہنا ہی نہیں ہے تو وہ اس کو سنوارنے یا اس کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی زحمت کیوں کر گوارا کریں گے۔

نفسا نفسی کے اس عالم میں ہر کوئی اپنے مستقبل کو محفوظ کر لینا چاہتا ہے اور آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس طبقے اور گروہ کا مستقبل کس طریقے سے محفوظ ہو گا۔ بہرحال یہاں پر ایک بہت بڑا لمحہ فکر یہ ہے کہ ان طبقوں کی سوچ کیوں کر تبدیل ہو گئی اور تبدیل ہوگی بھی یا نہیں اور جواب منفی ہونے کی صورت میں ہمارا کیا بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments