اکیسویں صدی کے اکیس اسباق (خلاصہ)


یوول نوح ہراری کی فکری صلاحیت پیچیدہ نظریات سے قابل رسائی اور آسان فہم بیانیوں کو کشید کرنے کی صلاحیت میں چمکتی ہے۔ وہ انسانی حالت کے بارے میں اپنی گہری بصیرت سے دنیا بھر کے قارئین کو مسحور کر دیتا ہے۔ سیپینز (Sapiens) اور ہومو ڈییس (Homo Deus) جیسے اپنے زیادہ فروخت ہونے والے کاموں کے ذریعے، ہراری انسانی تاریخ کی پیچیدہ راہداریوں کو روشن کرتا ہے اور فکر انگیز مستقبل کا تصور پیش کرتا ہے۔ ہراری روایتی دانش کو چیلنج کرتا ہے اور گہرے غور و فکر کو جنم دیتا ہے۔ اس کا بین الضابطہ نقطہ نظر، تاریخ، فلسفہ اور سائنس کا امتزاج، انسانیت کے ماضی، حال اور اس کی صلاحیتوں کا ایک خوبصورت منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ ہراری عصری علمیت کے دائرے میں ایک روشن ستارہ ہے۔

یوول نوح ہراری کی ”اکیسویں صدی کے اکیس اسباق“ ایک فکر انگیز کتاب ہے جو جدید دور میں انسانیت کو درپیش اہم مسائل اور چیلنجوں کی کھوج لگاتی ہے۔ یہاں ان اکیس اہم خیالات کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔

معنی کا چیلنج:

جیسے جیسے معنی کے روایتی ذرائع، جیسے مذاہب اور نظریات، اپنا اثر کھوتے جا رہے ہیں، افراد اپنی زندگی کے مقصد کے بارے میں وجودی سوالات سے دوچار ہوتے جا رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں مذاہب اور نظریات اس معاملے میں انسانوں کی رہبری کرنے سے قاصر ہیں۔ ہراری یہ تجویز دیتا ہے کہ ان روایتی ذرائع سے واضح رہنمائی کی عدم موجودگی میں، لوگوں کو خود شناسی اور خود کی دریافت کے ذریعے فعال طور پر معنی تلاش کرنا چاہیے۔

کہانی کی اہمیت:

کہانی، بشمول دیو مالا، مذاہب اور نظریات، مشترکہ بیانیہ فراہم کر کے انسانی رویوں اور معاشروں کی تشکیل کرتے ہیں جو معاشروں کو متحد رکھتے ہیں اور رویوں کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ ہراری جدید دنیا کی پیچیدگیوں اور اس کے مسابقتی بیانیے کو سمجھنے کے لیے کہانی کی طاقت کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

آزادی کا التباس:

بڑھتی ہوئی نگرانی اور ڈیٹا میں جوڑ توڑ کے دور میں، افراد محسوس کر سکتے ہیں کہ ان کے انتخاب بیرونی قوتوں سے متاثر یا پہلے سے طے شدہ ہیں۔ ہراری تکنیکی ترقی کے پیش نظر خودمختاری کے تصور پر سنجیدہ سوال اٹھا دیتا ہے جو انسانی رویوں کی پیشین گوئی کر دیتی ہے اور ان پر اثرانداز بھی ہوتی ہے۔

الگورتھم کا استبداد:

بڑے اعداد و شمار سے چلنے والے الگورتھم، فیصلوں پر اثر انداز ہو کر ہماری زندگیوں کو تیزی سے تشکیل دینے لگے ہیں۔ ہمارے خبریں دیکھنے سے لے کر ہمارے کسی سے رومانوی طور پر جڑنے تک، ہر رویے پر یہ الگورتھم اثر انداز ہونے لگے ہیں۔ ہراری ہماری زندگیوں میں الگورتھم کی اثر پذیری سے آگاہ اور خبردار کرتا ہے کہ کس طرح وہ ہماری انفرادی صلاحیتوں کو محدود کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔

بڑے ڈیٹا کی طاقت:

حکومتوں اور کارپوریشنوں کے ذریعہ ڈیٹا کی وسیع مقدار کو جمع کرنا اور تجزیہ کرنا رازداری اور غلط استعمال کے امکانات کے بارے میں خدشات کو جنم دیتا ہے۔ ہراری استحصال کے خطرات کو کم کرنے کے لیے زیادہ شفافیت اور ذاتی ڈیٹا پر کنٹرول کی وکالت کرتا ہے۔

فضائیات (بائیو ٹیکنالوجی) کے خطرات:

بائیو ٹیکنالوجی میں پیشرفت، بشمول جینیاتی انجینئرنگ اور مصنوعی ذہانت، اخلاقی الجھنیں اور غیر متوقع نتائج کے امکانات کو پیش کرتی ہے۔ ہراری معاشروں پر زور دیتا ہے کہ وہ ان طرزیات کے مضمرات کو بغور دیکھیں اور ان کے استعمال کے لیے اخلاقی رہنما اصول وضع کریں۔

کام کا مستقبل:

خود کاری (آٹومیشن) اور مصنوعی ذہانت سے روایتی روزگار کے طریقوں میں خلل پڑنے کا خطرہ ہے، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ملازمتیں ختم ہوجائیں گی۔ ہراری تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں بے روزگار افراد کی مدد کے لیے تعلیم اور سماجی تحفظ کے نئے منصوبے بنانے اور اپنانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

آزاد خیالی (لبرل ازم) کا بحران:

لبرل جمہوریتوں کو عوام پسند تحریکوں، آمرانہ حکومتوں اور تکنیکی رکاوٹوں کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ہراری اس بحران کی بنیادی وجوہات کی کھوج کرتا ہے اور لبرل اقدار اور اداروں کو مضبوط کرنے کے طریقے تجویز کرتا ہے۔

قوم پرستی بمقابلہ عالمگیریت:

قوم پرستی اور عالمگیریت کے درمیان تناؤ عصری سیاست کو تشکیل دیتا ہے، جس کے اثرات تارکین وطن، تجارت اور ماحولیاتی پالیسی جیسے مسائل پر ہیں۔ ہراری نے دونوں طریقوں کے فوائد اور خرابیوں پر تبادلہ خیال کیا ہے اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔

بعد از صداقت (Post۔ Truth) دنیا:

غلط معلومات اور جعلی خبریں اداروں پر اعتماد اور معروضی حقیقت کے تصور کو کمزور کر دیتی ہیں۔ ہراری اس رجحان میں کردار ادا کرنے والے عوامل کا جائزہ لیتا ہے اور کہانی سے سچائی کو علیحدہ کرنے کے لیے تنقیدی سوچ اور ذرائع ابلاغ کی خواندگی کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔

رکاوٹوں سے ابھرنے کی قوت:

تیز رفتار تکنیکی اور سماجی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے افراد اور معاشروں کو ابھرنے کی طاقت اور لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہراری غیر یقینی صورتحال اور رکاوٹوں کے پیش نظر ابھرنے کی طاقت پیدا کرنے کے لیے حکمت عملی پیش کرتا ہے۔

اکیسویں صدی میں تعلیم:

روایتی تعلیمی ماڈل افراد کو مستقبل کے چیلنجوں کے لیے مناسب طریقے سے تیار نہیں کر سکتے۔ ہراری ایک ایسے تعلیمی نظام کی وکالت کرتا ہے جو تنقیدی سوچ، مطابقت اور زندگی بھر سیکھتے رہنے پر زور دیتا ہے۔

مصائب کی دنیا میں معنی:

مادی ترقی کے باوجود، بہت سے افراد اب بھی وجودی سوالات اور مصائب سے دوچار ہیں۔ ہراری معنی اور ابھرنے کے مختلف ذرائع تلاش کرتا ہے جو افراد کو مشکلات سے نمٹنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

سیکولرازم اور روحانیت:

جیسے جیسے روایتی مذاہب زوال پذیر ہو رہے ہیں، افراد متبادل راستوں جیسے مراقبہ اور سیکولر اخلاقیات کے ذریعے روحانی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں۔ ہراری جدید معاشرے میں معنی اور مقصد فراہم کرنے کے ضمن میں روحانیت کے کردار اور صلاحیت پر بحث کرتا ہے۔

برادری کا احساس:

ایک تیزی سے باہم جڑی ہوئی دنیا میں، برادری اور تعلق کے احساس کو فروغ دینا انفرادی فلاح و بہبود اور سماجی ہم آہنگی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہراری لوگوں کی زندگیوں میں مدد اور معنی فراہم کرنے میں برادری کی اہمیت کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

سیاست کا تصور نو:

عدم مساوات، تکنیکی رکاوٹیں، اور عالمی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے اکیسویں صدی میں سیاسی نظام کو از سر نو تیار ہونا چاہیے۔ ہراری نے سیاست کو مزید جوابدہ اور جامع بنانے کے لیے ممکنہ اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا:

موسمیاتی تبدیلیاں انسانیت کے لیے ایک وجودیاتی خطرہ ہیں، جس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی تعاون اور اجتماعی کارروائیوں کی ضرورت ہے۔ ہراری موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے ممکنہ نتائج سے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

غیر یقینی صورتحال کو اپنانا:

تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں، جدت اور مطابقت کو فروغ دینے کے لیے غیر یقینی صورتحال اور ابہام کو اپنانا ضروری ہو جاتا ہے۔ ہراری افراد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ غیر یقینی صورتحال کو انسانی تجربے کے فطری حصے کے طور پر اپنائیں۔

مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات:

جیسے جیسے مصنوعی ذہانت زیادہ پھیلتی جا رہی ہے، اس کے استعمال اور ترقی سے متعلق اخلاقی خدشات کو دور کرنا ضروری ہو تا جا رہا ہے۔ ہراری نے مصنوعی ذہانت کے اخلاقی مضمرات اور اس کے ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے رہنما اصولوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

امید کو برقرار رکھنا:

انسانیت کو درپیش چیلنجوں کے باوجود، مثبت تبدیلی اور اجتماعی عمل کو جاری رکھنے کے لیے امید کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ ہراری امید اور ابھرنے کے ذرائع تلاش کرتا ہے جو افراد کو بہتر مستقبل کی طرف کام کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔

اکیسویں صدی میں سیپینز:

انسانیت کے ماضی، حال اور مستقبل کی عکاسی کرتے ہوئے، ہراری نے افراد پر زور دیا ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں تہذیب کی رفتار اور ہیئت کو تشکیل دینے کی ذمہ داری اٹھائیں۔ وہ آنے والے چیلنجوں سے نمٹنے میں اجتماعی کارروائی اور یکجہتی کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔

”اکیسویں صدی کے اکیس اسباق“ میں بیان کردہ اسباق آج انسانیت کو درپیش کثیر جہتی چیلنجوں کے بارے میں گہری بصیرت پیش کرتے ہیں۔ افراد پر لازم ہے کہ وہ اپنے اردگرد کی دنیا کا تنقیدی جائزہ لیں۔ کتاب قارئین کو تکنیکی خلل، سیاسی عدم استحکام، اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے پیچیدہ مسائل کا صحیح الدماغی اور عزم کے ساتھ مقابلہ کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ مزید برآں، یہ سب کے لیے زیادہ پائیدار اور مساوی مستقبل کو فروغ دینے کے لیے اجتماعی کاوش اور محنت کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ اگر ہم جدید دور کی پیچیدگیوں میں اترتے ہیں، تو ہمیں ان اسباق پر ایک رہنما روشنی کے طور پر دھیان دینا چاہیے۔ یہ کتاب بلاشبہ ہمیں ہمدردی، انصاف اور ابھرنے کی خصوصیات والی دنیا کے لیے مل کر کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments