مرشد کی نصیحت: دہریا سے بچ کے رہنا


ویسے وزیرستان میں میری جنریشن کے نوجوانوں کا واسطہ ملا، مجاہد، طالبان، اور تبلیغی نامی کرداروں سے پڑتا ہے ان کی سرگرمیوں سے بلا واسطہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ یہ کردار افغان جنگ کے دوران منظر عام پر آ گئے جب امریکی پراجیکٹ کے تحت پشتون نیشنلزم کو اسلام مائزیشن کے ذریعے دبانا یا ہٹانا تھا (جو کہ پاکستان کی پاکستانائزیشن پالیسی کو بالواسطہ طور پر تقویت دیتی تھی) تاکہ اس علاقے کے باشندوں کو مذہبی کارڈ سے سابقہ سویت یونین کے خلاف استعمال کریں تو جہادی کارخانوں سے ملائیت کے آٹھ آٹھ سال کے ڈپلومے یا شارٹ کورسز پڑھانا شروع کروائے۔

یہی وجہ ہے کہ آج ہر گلی و کوچہ میں سینکڑوں کی تعداد میں یہ سفید پگڑی والے نظر آئیں گے جن کا معاشرے پر بوجھ کے علاوہ کوئی کردار نہیں۔ اس سے پہلے ملاؤں کے مذاق اڑانے کے لئے ان سے منسوب لطیفے سنائے جاتے تھے مطلب سعودی پیٹرو ڈالر کی مدد سے امریکہ کی نبراسکا یونیورسٹی میں شائع شدہ جہادی لٹریچر کی آمد سے پہلے ملا کی آج والی قدر نہیں کی جاتی تھی۔ مشہور پشتون نیشنلسٹ و شاعر غنی خان بھی ملاؤں کو شیطان کی گانٹھ کہلاتے تھے۔

ملا ازم سے پہلے لوگ پیری و مریدی کے عمل سے اپنی روحانی تسکین پاتے تھے۔ وزیرستان میں مشہور پیر گزرے ہیں۔ ثناء پیر میرے ابائی گاؤں وادی مچن بابا کا موثر پیر رہا جن کے مرید و عیال اس کا موازنہ بدنام زمانہ جہادی ملا نور محمد سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارا مرشد امن پسند تھا۔ ان کا یہ دعوی میں اس بات سے رد کرتا ہوں کہ امن پسندی یا شدت پسندی انسان کے اندر موجود نہیں ہوتی بلکہ باہر سے انجیکٹ کی جاتی ہے۔ مثلاً پاکستان میں بریلوی امن و شانتی والا فرقہ تصور کیا جاتا تھا لیکن ریاستی اداروں نے جب چاہا تو اس کو اتنا متشدد بنایا کہ زندہ پولیس والوں کو آگ میں جلانے سے باز نہ آئے۔ بدھ مت بھی خون بہانے سے روکنے والا مذہب ہے لیکن میانمار کی حکمران جنتا کے حکم پر روہنگیا مسلمانوں کے مرد تو چھوڑ، بچوں اور خواتین کے گلے کاٹنے سے گریز نہیں کیا گیا۔

پشتون سرزمین پر پچھلے چالیس سالوں سے جاری جنگ میں ملا ازم کے خونخوار کردار نے نوجوان نسل کو مذہب بیزار بنا دیا۔ کافی نے واپس صوفی ازم کی طرف رجوع کیا۔ لیکن کیا صوفی ازم کی اس نئی لہر بھی امن اور انسانیت کا سبق دیتی ہے؟ جی نہیں۔ اس کے بارے میں اپنی کہانی سناتا ہوں۔

چند دن پہلے کسی کام سے پشاور گیا تھا۔

وہاں پرانے دوست سے ملا، دوست نے استفسار کیا کہ شام کو شہر کی مشہور یونیورسٹی جانا ہے ایک پروفیسر سے ملنا ہے جو ان کا مرشد ہے، وہاں ذکر و فکر کی محفل ہوگی۔ میں نے دل بڑا کیا۔ یونیورسٹی کے بیچ واقع ایک بڑے گھر میں داخل ہوئے۔ کمرے کے دروازے پر چند جوڑے چپل دیکھے سوچا وہاں محفل والے ہوں گے۔ دروازہ کھولتے ہی میرے دوست نے گھٹنے کے بل بیٹھ کر سلام پیش کیا۔ سامنے بیٹھے مرشد کے پیر دبانے والوں میں ایک ڈاکٹر اور دوسرا آرمی کیپٹن تھا۔

میرا دوست انجنیئر ہے۔ عجب تضاد یہ ہے کہ ایک طرف ہم یہ بات سنتے آرہے ہیں کہ سائنس نے مذہب کا گلہ گھونٹ دیا ہے، لیکن دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ اکثر تعلیم یافتہ افراد کٹر مذہبی بنے ہوئے ہیں حتی کہ بعض جنہوں نے دہشت گرد تنظیموں کو جوائن کیا ہے، سائنس والے طلبہ نکلے ہیں۔

مرشد صاحب عمرے پر گئے تھے تبلیغ والوں کے انداز میں کار گزاریاں بیان کر رہے تھے، فرمایا اسی بار بیت اللہ کا پہلے والا مزہ نہیں تھا۔ محمد بن سلمان نے عورتوں کو زیادہ آزادی دی تھی ہر جگہ عورت ہی عورت نظر آ رہی تھی۔ عبایہ میں ملبوس با پردہ عورتوں اس بار وردی پہن کر سیکورٹی کے کام سر انجام دے رہی تھیں جو رونے کا مقام ہے۔ مرشد نے شام کی نماز کے بعد دس منٹ کا مختصر بیان فرمایا جو بدعت کے متعلق تھا، کہا ”جو مذہبی عمل رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق نہ ہو بدعت کے زمرے میں آتا ہے“ ۔ بریلوی اور شیعہ مسلمانوں کی مثال دے کر انہوں نے ان دو فرقوں کو بدعتی قرار دیا۔ پھر سب نے مل کر ایک گھنٹے تک ”اللہ ہو، اللہ ہو“ کا ورد کیا وہ بھی اتنے تیزی سے سر ہلانے کے عمل ساتھ کہ آج بھی دونوں کندھوں میں درد محسوس کر رہا ہوں۔

اس کے بعد آدھا گھنٹہ پھر دعائیں اور بد دعائیں دینے کا سلسلہ جاری رہا، فلسطین سے لے کر کشمیر، امارات افغانستان اور پیارے پاکستان کی فرشتوں کی پروں میں حفاظت، جبکہ یہود و نصاری سے ہوتے ہوئے احمدی، شیعہ، بریلوی، ملحدین اور ہر قسم کے مخالفین کی تباہی کی منتیں جب وہ اپنے رب سے کرنے لگے تو میں اپنے بند موبائل کو ہیلو ہیلو کہہ کر بھری محفل سے بھاگ نکلا۔ دوست کے انتظار میں باہر بیٹھ کر برٹنڈرسل کی کتاب
Why I am not a christian
پڑھنا شروع کی۔ تھوڑی دیر بعد جب دوست باہر آیا تو فخریہ انداز میں مجھ سے پوچھنے لگا، ”کیا مرشد صاحب کے روحانی اثرات محسوس کیے؟ اتنا نیک بندہ ہے کہ موبائل استعمال نہیں کرتا حتی کہ شناختی کارڈ بھی جیب میں نہیں رکھتا کیونکہ اس پر تصویر لگی ہے اور پیارے مرشد ساری انسانیت کی بھلائی کا سوچتا ہے۔ “

سوچا کہ مہمان ہونے کے ناتے دوست کی ہر بات کا جواب مقدس الفاظ یعنی جزاک اللہ سے دے دوں۔ پھر جب رات گزارنے کے لئے پلان بی بنایا تو دھیمی آواز میں دوست سے کہا کہ ناراض نہ ہونا تمھارا پیر تضادات کا مجمع ہے وہ یہ کہ اگر تصویر والے شناختی کارڈ کو گناہوں کے ڈر کی وجہ سے شلوار کی جیب میں نہیں رکھ سکتے تو جناح کی تصویر والے نوٹوں کو قمیص کی سامنے والی جیب میں کیوں رکھتے ہیں؟ آپ کہہ رہے کہ مرشد حضرت بشر دوست ہیں تو جن لوگوں کی ہلاکت و تباہی کے لئے اس نے بد دعائیں دی، کیا وہ انسان نہیں تھے؟ صرف وہ سترہ بندے انسان تھے جو پیر کے گرد بیٹھے تھے؟ کیا ایسا بندہ انسان دوست ہو سکتا ہے جن سے اللہ کے گھر میں خواتین کی موجودگی برداشت نہیں ہو سکتی؟

دوست نے یہ سن کر کہا کہ مرشد حضرت بار بار فرماتے ہیں کہ دہریا لوگوں سے بچ کہ رہنا۔ ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ مریدوں کو پیروں کی نیت و عمل پر شک کرنے یا سوال اٹھانے پر اکسائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments