اسلام آباد میں اقتدار کی جنگ، نااہل حکومت اور مستعد محبان وطن


وزیر داخلہ اسلام آباد میں بہت سرگرم ہیں۔ یہ پھرتیاں ’آستین کے ان سانپوں‘ کو تلاش کرنے کے لئے دکھائی جارہی ہیں جنہوں نے پوری حکومت کو جزو معطل بنا کر \"nisar\"رکھ دیا ہے۔ وزیر اعظم نے نہایت فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چہیتے پرویز رشید کی قربانی بھی دی لیکن معاملہ ابھی تک پٹری پر چڑھنے کا نام نہیں لے رہا ۔ حالانکہ یہ امید کی جا سکتی تھی کہ جنرل راحیل شریف تین ہفتے بعد گھر جانے والے ہیں اور نئے چیف کو عہدہ سنبھالنے کے بعد معاملات کو سمجھنے اور کنٹرول حاصل کرنے میں اتنا وقت تو لگے گا کہ مظلوم سویلین حکومت کچھ دیر کے لئے من مانی کرسکے ۔ یعنی اپنی مرضی کی خبر لگوا سکے، اور پھر اس سے انکار کرکے اپنی وفاداری کا یقین دلوا سکے۔ یا یہ قیاس کرسکے کہ یہ عبوری مدت کھل کھیلنے کا اچھا موقع ہے۔ یہ تو فوج کے اندر اور باہر سب ہی جانتے ہیں کہ اگر نواز شریف وزیر اعظم رہے تو وہ آرمی چیف کو توسیع دینے کا ’ خیال بد‘ کبھی اپنے دل میں نہیں لائیں گے۔ اور یہ بھی اپنے پرائے سب جانتے تھے کہ نواز شریف آخری لمحے تک کسی کو یہ معلوم نہیں ہونے دیں گے کہ وہ اس عہدہ پر کس کو فائز کرنے والے ہیں۔ یہ بطور وزیر اعظم ان کا استحقاق ہے اور اپنا حق استعمال کرنے کے لئے نواز شریف کسی حد تک جانے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ خواہ سپریم کورٹ سے کابینہ کا استحقاق محدود کرنے اور آئینی تشریح کو بدلنے کی استدعا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ عدالت ان کی بات کو پوری توجہ سے سنتی ہے اور نہ ہی چار ستاروں والے جرنیل میاں صاحب کو زیادہ موقع دینے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ایسے میں چوہدری نثار علی خان کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں اور انہیں خوب بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ ان سے بھی زیادہ پھرتیلے واقع ہو رہے ہیں۔

اسلام آباد کی بھی کیا قسمت ہے اور چوہدری نثار علی خان کے لئے نئی مشکل ہے کہ ادھر وہ تحقیقاتی کمیٹی کے خد و خال تیار کرکے خاکیوں کو خوش اور مطمئن کرنے کے لئے زمین ہموار کررہے ہیں کہ سرپرستان پاک سر زمین شاد باد اور اسلام کے جیالے شہر کی سڑکوں کو سبز رنگ کے بینروں سے سجیلا اور بانکا بنا دیتے ہیں ۔ ’ عوامی مانیٹرینگ سیل ‘ راولپنڈی برانچ کے ترجمان کی طرف سے لگائے گئے ان اشتہاروں میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ وہ مان گئے ہیں کہ نواز شریف ضد کے پکے ہیں اور زبردست عوامی دباؤ اور خواہشات کے باوجود ، اور جنرل راحیل شریف کی بے مثال خدمات کے باوصف انہیں چیف کے عہدہ پر توسیع نہیں دیں گے۔ اگرچہ جنرل خود اپنے ترجمان کے ذریعے یہ واضح کرچکے ہیں کہ انہیں توسیع میں دلچسپی نہیں ہے اور وہ اپنے عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے لیکن ان کے جاں نثاروں کو اس بات کا یقین تھا کہ اگر وزیر اعظم کی ’نیت ٹھیک ہوتی‘ تو وہ جنرل صاحب کو اس عظیم ذمہ داری کو جاری رکھنے پر آمادہ کرسکتے تھے۔ تاہم نواز شریف اپنی ضد اور قوم کے نمائیندے اور خاکیوں کے پرستار اپنے فرض کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ تاہم انہوں نے بھی ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے بیچ کا ایسا راستہ تلاش کیا ہے کہ نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان اس کا آسانی سے جواب نہیں دے سکیں گے۔ نئے بینر میں دل کی بات بہت واضح اور دوٹوک الفاظ میں بیان کر دی گئی ہے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے اور حکومت یا اپوزیشن کو بہانے کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ بینر کا دل کو چھو لینے والا متن ملاحظہ ہو:

’ حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی کو ملک کی سلامتی کی خاطر انتشار کی سیاست ختم کرکے آئین میں سرکاری ملازمین کی سیاست میں حصہ لینے کی مدت دو سال سے کم کرکے ، ایک سال کردی جائے ۔ No extension but deduction (یعنی توسیع نہیں تخفیف) تاکہ 2018 کے انتخابات میں ہمارے ملک کی نامور شخصیت جنرل راحیل شریف حصہ لے کر وزیر اعظم بن جائیں۔ امید ہے کہ ان کی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائے گی۔ انشااللہ۔ اس طرح عسکری اور سول حکومت میں ہم آہنگی ہو جائے گی۔ ہمارا ملک تیزی سے ترقی کرے گا۔ پاکستان پر جان قربان، سب سے پہلے مسلمان۔‘

یہ بات تو اس مطالبے کے بد ترین دشمن بھی مانیں گے ۔۔۔ گو کہ اس ملک کے جاں نثاروں کو پختہ یقین ہے کہ ان کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر ہوگی ۔۔۔ کہ عوامی \"banners\"مانیٹرنگ سیل نے اپنا مدعا بیان کرنے کے لئے کوئی پیچیدگی اختیار کرنے کی بجائے کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ واضح کیا ہے کہ قوم کیا چاہتی ہے اور وہ جو ووٹ لے کر قوم کے نمائیندے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، انہیں خبر ہو کہ وہ درحقیقت قوم کی آواز بننے میں ناکام رہے ہیں۔ کوئی بھی اس وقت تک قوم کی آواز نہیں بن سکتا جب تک وہ اس سرزمین کے لئے جان قربان کردینے والوں کا حق حکومت تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ اس مطالبہ میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی کی بھی تخصیص نہیں کی گئی ہے بلکہ پر واضح کردیا گیا ہے کہ وہ سب مل کر انتشار کی سیاست بند کریں اوروہ کام کریں جو قوم کی آواز ہے، سبحان اللہ ۔ ایسے صاف بیان کو تو کور مغز بھی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں ، بس وہی اسے ماننے سے گریز کریں گے جو اس قوم کے ہمدرد نہیں بلکہ دشمن کے ایجنٹ ہیں۔ تو لیجئے اب کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہؤا، یہ پہچان کرنے کے لئے کہ کون اپنا ہے اور کون پرایا۔

کام تو چوہدری نثار علی خان بھی یہی کرنا چاہتے ہیں یعنی خاکیوں کو یہ یقین دلانا کہ قوم کی طرح حکومت بھی ان کے ساتھ ہے اور ان کی ہر بات کو سر آنکھوں پر رکھنے کے لئے تیار ہے خواہ اس مقصد کے لئے اسے خود اپنا کہا اور کیا بدلنا ہی کیوں نہ پڑے۔ تو کیا ہؤا اگر چیف کی مدت میں صرف تین ہفتے باقی ہیں۔ چیف تو اس وقت تک سیاہ و سفید کا مالک ہے جب تک وہ کمان، جانشین کے سپرد نہیں کرتا۔ تو فرمایا چوہدری صاحب نے بیچ ان بینروں کے کہ اندر کی خبر باہر نکالنے والے بھیدی کی تلاش میں جو کمیٹی بنائی جائے گی اس کا سربراہ اعلی عدالت کا ریٹائر جج ہوگا۔ اس میں سب کی تشفی کے لئے آئی ایس آئی ، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے اعلیٰ افسران شامل ہوں گے۔ اب یہ نام جلد ہی وزیر اعظم کو منظوری کے لئے بھیج دئے جائیں گے۔ گو کہ گزشتہ ہفتے بھی کچھ ایسا ہی اعلان کیا گیا تھا لیکن چوہدری صاحب بے وقت دھرنے کی دھمکیوں سے نمٹنے والے پولیس اہلکاروں کو توصیفی سرٹیفکیٹ بانٹنے اور انعام کے طور پر تنخواہوں میں اضافہ جیسے غیر ضروری کاموں میں مصروف تھے ، اس لئے اس اہم قومی کام میں کچھ تاخیر ہوگئی کیوں کہ وزیر داخلہ یہ کام نہایت توجہ اور اہتمام سے کرنا چاہتے تھے۔ تاکہ غلطی کا کوئی شبہ نہ رہے۔ باقی رہا معاملہ وزیر اعظم کی منظوری کا، تو اس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ وزیر اعظم خواہ کاغذ پر بنا شیر ہی کیوں نہ ہو ، اس ملک کے لوگوں کو یہ یقین بہر حال رہنا چاہئے کہ اصل فیصلہ ان کا منتخب نمائیندہ یعنی وہ خود ہی کرتے ہیں۔

بس ایک ہی اندیشہ ہے کہ کوئی سر پھرا یہ پٹیشن لے کر سپریم کورٹ نہ چلا جائے کہ اگر وزیر اعظم کابینہ کی مرضی کے بغیر کوئی ٹیکس عائد نہیں کرسکتا تو وہ پوری حکومت کی چھان پھٹک کرنے کے لئے کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ تن تنہا کیسے کرسکتا ہے۔ تاہم اس اندیشے کو دو وجوہ کی بنا پر مسترد کیا جا سکتا ہے: الف) ایسے درخواست گزارقوم کے جاں نثاروں میں سے ہی ہوتے ہیں اور جب جاں نثاروں کے ہیروز کا ہی مطالبہ پورا ہو رہا ہو تو انہیں قانون اور ضابطہ یاد نہیں آتا۔ ب) ملک کی سپریم کورٹ کی جاں نثاری بھی شک و شبہ سے بالا ہے ۔ وہ کبھی ایسا فیصلہ نہیں کرسکتی جس سے کسی قومی مفاد پر ضرب لگتی ہو۔ اس بھیدی کا پتہ لگانے سے اہم کیا قومی خدمت ہو سکتی ہے، جس نے اس ملک کے لوگوں کو اندر کی بات بتانے کا حوصلہ کیا۔ کیا سمجھا تھا کہ اس ملک سے قانون یوں رخصت ہؤا جیسے عزت تیمور کے گھر سے گئی تھی۔ یوں بھی اگر قوم کے مفاد اور ملکی سلامتی کا معاملہ درپیش ہو تو نظریہ ضرورت یعنی جو پیا من بھائے قسم کا فیصلہ کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو سکتی۔

اس طرح اس طرف سے تو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ لیکن عوامی مانیٹرنگ سیل والوں کو یہ کیسے گمان ہو گیا کہ چوہدری نثار علی خان اور ان کے وزیر اعظم تحقیقات کروانے اور بھیدی کا پتہ لگانے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور کچھ نہ کچھ گڑ بڑ کرنے کی کوشش کریں گے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ایک طرف ہمارے چوہدری صاحب قومی مفاد کی حفاظت کے لئے ہلکان ہوئے جاتے ہیں تو ادھر یہ جاں نثار وطن و خاکیان، شہر میں بینر لگا کر ’ اصلی مقبول لیڈر‘ کو وزیر اعظم بنانے کی بات کررہے ہیں۔ تو پھر ہمارے گدی نشین وزیر اعظم کا کیا بنے گا۔ وہ تو چوتھی مرتبہ اس عہدہ کو عزت بخش کر گنیز ریکارڈ بک میں نام لکھوانے کی تیاری کرچکے ہیں۔

اب ایسی زیادتی تو نہ کریں حضور۔۔۔ ہم ہیں نا! آپ کے سارے مطالبے سر آنکھوں پر۔ بھیدی کا سراغ ضرور لگایا جائے گا اور اسے کیفر کردار تک بھی پہنچایا جائے گا۔ کیا کہا کہ کھرُا یہاں مجھ تک بھی آتا ہے۔ نہ آپ ایسا گمان نہ کریں ۔ یہ تو اعتزاز احسن سے پرانی سیاسی چشمک ہے تو وہ ایسی بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں۔

اور اس بات کا کیا ہوگا کہ تم خفیہ خبر افشا کرنے کی بات کرتے ہو لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس خبر کا سرے سے وجود ہے ہی نہیں ۔ اسے کسی بدخواہ نے کسی دفتر میں بیٹھ کر بدنیتی کی بنا پر گھڑا ، اس میں رنگ آمیزی کی ، پھر ایک ناقص العقل صحافی کے ذریعے اخبارت میں خصوصی Exclusive کہہ کر چھپوا بھی دیا اور تم سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے منہ پھیر پھیر کر مسکراتے رہے۔ کتنا نقصان کیا تم لوگوں نے۔ قومی سلامتی کو زک پہنچائی۔

جی اسی شخص کا تو پتہ لگانا ہے۔ اسے ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔

واہ ری حکومت اور تیرا اختیار۔ نہ خبر چھپوا نے کا حوصلہ اور نہ چھپوائی ہوئی خبر کو ماننے کا یارا۔ اور اگر خبری تک پہنچنے کا مطالبہ آئے تو اصل کو چھپانے کے لئے کسی ایسے کو آگے دھکیلتے ہو جو اپنی وفاداری کا انعام یوں پا رہا ہے کہ اسے اپنے فرائض سے غفلت برتنے کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا پھر بھی اصل ’گناہگار‘ کو چھپا پاؤ گے، کیوں کہ اگر مان لیا جائے کہ حکومت اتنی بے خبرہے کہ اسے ان لوگوں کے قول و فعل کا بھی اعتبار نہیں جنہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے اور جو اہم ترین قومی امور طے کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ پردہ داری کی کوششیں ہی شہر کی گلیوں پر بینر کی صورت نمودارہو رہی ہیں۔ بھاگنے کے سارے راستے بند کرنے کے لئے۔

خبر تو یہ بھی ہے کہ القاعدہ اور پاکستان تحریک طالبان کے بعد اب ہمارے دلاور ان عناصر کو نشانے پر لینے کے لئے تیار ہیں جو بھارت دشمنی کی آڑ میں جتھے بناتے ہیں اور سرحد پار جہادی کارروائیوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ اب کیا کریں کہ دنیا مزید اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور نیا چیف بھی آرہا ہے۔ نیا چیف نیا منشور۔ کیا یہ اچھی خبر ہے۔ کہنا مشکل ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ فوج جب تک سیاست کرے گی خواہ وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کا معاملہ ہو یا امور مملکت میں بندربانٹ کا شوق، تو ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی طرف چلتی اس قوم کا نہ کعبہ درست ہو سکتا ہے اور نہ بے ہنگم چال بہتر ہوگی۔ نہ گھر میں عزت ہوگی اور نہ باہر اعتبار قائم ہوگا۔ البتہ دیواروں پر لگے جاں نثاروں کے بینر حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ ضرور بانٹتے رہیں گے۔ یوں بھی پاکستان کی کمپنیاں جعلی ڈگریاں اور سرٹیفکیٹ بنانے اور تقسیم کرنے میں ید طولیٰ اور عالمی شہرت رکھتی ہیں۔ اب یہ نہ کہا جائے کہ نوشتہ دیوار پڑھو۔ ہم نے دیوار تو کیا قسمت کا لکھا پڑھنے سے بھی انکار کیا ہے۔ ہم قسمت خود بناتے ہیں اور راستہ کھوٹا ہونے پر کھوجی اور خبری کو تلاش کرکے تہمت کا سارا بوجھ اس کے سر پر لادنے کی تیاری کرتے ہیں۔

یہ ہم ہیں زندہ دلان پاکستان۔ نہ جمہوریت کا مطلب سمجھتے ہیں اور نہ جاں نثاری اور حب الوطنی کا ۔ کہ یہ سارے مطالب ہمارے مفاد کی چھلنی سے چھن کر مفہوم بدل لیتے ہیں۔ وہی مفہوم ہمارا مقدر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2774 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments