دہشت گردی اور پاک افغان بارڈر کی بندش


\"\"دہشت گردی کے حالیہ واقعات کوئی ”نئی لہر“ نہیں ہے بلکہ پچھلے کئی سال سے جاری واقعات کا تسلسل ہی ہے اور اس کے علاوہ دوسری بات یہ کہ اس کے اسباب و عوامل بھی مقامی نہیں بلکہ یہ سب کچھ اسی عالمی گریٹ گیم کاحصہ ہی ہے جس پرعلمدرآمد کا آغاز نائن الیون سے بھی پہلے کر دیا گیا تھا۔ دو تین سال پہلے قبلہ وجاہت مسعود صاحب نے اپنے ایک کالم میں لکھ دیا کہ افغانستان میں طالبان دور حکومت میں طالبان کو امریکہ کی جانب سے سالانہ تین سو ملین ڈالر امداد ملتی تھی۔ اس بات کو پڑھ کر میں تو چونک پڑا کہ طالبان تو ایک خالص روایتی اور بے لچک ”شرعی نظام“ قائم کرنے والی تحریک ہے جس پر انسانی حقوق کے خلاف ورزی کے بھی الزامات ہیں۔ تو پھر ایسی تحریک اور حکومت کے ساتھ جمہوریت، لبرل ازم اور انسانی حقوق کے ایک خاص مفہوم کے علمبردار ملک کی کوئی ہمدردی کیوں اور کیسے ہوسکتی ہے۔ اس بنا پر میں نے وجاہت صاحب سے رابطہ کیا اور اس ”الزام“ کا ریفرنس جاننا چاہا جس کے جواب میں انہوں نے افغان امور پر گہری نظررکھنے والے دانشور اورتجزیہ نگار احمد رشید کے کتاب Descent into chaos کا حوالہ دیا۔ اس تناظر میں افغان طالبان کو نصیراللہ بابر کے دست ہنر کا معجزہ اور خالص پاکستانی پراڈکٹ سمجھنے کا تصور بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔

اس کے بعد نائن الیون رونما ہونے کے بعد دنیا کے شکل بھی بدل جاتی ہے۔ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے پوری دہشت سے میدان میں اترتا ہے لیکن امریکہ کے آنے کے بعد افغانستان میں امن کے ایک محدود وقفے کے بعد دہشت گردی پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ بال و پر پھیلانا شروع کر دیتی ہے۔ اس کی وسعت، قوت اور شدت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جاتا ہے اور ”اتفاقاً“ قطر جیسے ملک سے الجزیرە اور العربیہ کے شکل میں ان تنظیموں کے ہاتھوں ابلاغ کے ایسے آزاد اور موثر ذرائع لگ جاتے ہیں جن پر آئے روز ”نامعلوم مقام“ سے نازل ہونے والی دنیا کو تباہ کرنے کے دھمکیوں پر مشتمل آڈیو اور ویڈیو پیغامات کے نشرہونے کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے لیکن عملاً امریکہ اور یورپ میں ایک دو واقعات کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا جبکہ ہمارے اپنے خطے میں پبلک مقامات، مساجد اور اجتماعات میں بے گناہ اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنانے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ عرب میڈیا پرنشر ہونے والے ان پیغامات کا ماحصل صرف اور صرف یہ تھا کہ جنگ واقعی دو طرفہ ہے۔ اسی دوران افغانستان کا صدر اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ کئی سال تک معاملات ڈیل کرنے والا حامد کرزئی ایک دن بیان دیتا ہے کہ ان کے مسلح مخالفین کو ہیلی کاپٹرزکے ذریعے جنوبی صوبوں سے شمالی صوبوں میں منتقل کیا جا رہا ہے لیکن ایک ذمہ دار آدمی کے اس عجیب نوعیت کے بیان کاکوئی نوٹس نہیں لیا جاتا کہ آخر وہ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟

دوسری طرف عشروں تک شخصی آمریت کے تحت زندگی گزارنے والے عرب ممالک میں عرب بہارکا سیریز شروع ہو جاتا ہے اس بہار میں ایک مرحلہ یہ بھی آتا ہے کہ لیبیا میں نیچے زمین پر اجڈ قبائل ”جمہوریت“ کے نفاذ کے لئے اسلحہ اٹھاتے ہیں اور اوپر سے نیٹو کی فضائی قوت ان کا بھرپور ساتھ دے رہی ہوتی ہے۔ یہ بہار تیونس، لیبیا اور مصر سے ہوتی ہوئی شام اور یمن تک پہنچنے کے بعد انقلاب برپا کرنے اور انقلاب کو روکنے والی قوتوں کے درمیان پھنس کررہ جاتی ہے اور یوں ایران، ترکی، امریکہ، روس، سعودی عرب اورخود شام و یمن کی حکومتیں سب اس کھیل کے سٹیک ہولڈربن جاتی ہیں اوراس صورتحال کے تازہ ترین پوزیشن یہ ہے کہ ایک طرف سعودی عرب 39 مسلم ممالک کا فوجی اتحاد قائم کرکے بیٹھا ہوا ہے اوردوسری طرف ایران خطے میں اپنے سٹریٹیجیک مفادات کے تحفظ کے لئے ہر حد تک جانے کے لئے تیار ہونے کے موقف کا اعادە کررہا ہے

اس تحریر کو یہاں تک پڑھنے کے بعد قارئین کو یہ اندازہ لگانے میں آسانی ہوئی ہوگی کہ میں نائن الیون کے بعد مسلم دنیا میں پیش آنے والے تمام حالات و واقعات کو ایک دوسرے سے مربوط اور ایک ہی گیم کا حصہ سمجھتا ہوں

اسی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہنا یہ ہے کہ پاکستان کے حوالے سے بھی ہمیں اس کینوس کو تھوڑا وسیع کرکے خطے میں ہونے والی تبدیلیوں اوراس کے مقاصد و اثرات کا جائزە لینا چاہیے کیا آج سے صرف دو سال پہلے یہ سوچا جاسکتا تھا کہ کابل میں ایم کیو ایم کا نائن زیرو قائم ہوگا جس میں سو افراد کام کررہے ہیں؟ کیا اس چیز کا اندازہ بھی کیا جا سکتا تھا کہ وہ ایران جس کے لفظ اللہ والے مونوگرام کے اسلحے جو طالبان کے خلاف لڑنے والے شمالی اتحاد کو فراہم کیے جاتے تھے اور کراچی سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ اخبار میں دوران جنگ طالبان کے ہاتھ لگنے والی اس اسلحے کے تصویریں بھی شائع ہوتی تھی اب وہی اسلحہ افغان صوبہ ہلمند کے گورنرکے دعوے کے مطابق طالبان کو فراہم کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ تصور بھی کیا جا سکتا تھا کہ دہریے روس کے مقابلے کے لئے ہم نے ”اہل کتاب“ امریکہ کا ساتھ دینے کے جواز میں پوری قوم کی برین واشنگ کے تھی اب اسی روس کے دہریت سے توبہ تائب ہونے اور ان کے اہل کتاب بن جانے کی نوید ہمیں اوریا مقبول جان جیسی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے زبانی سننے کو ملے گی؟

اس لئے پاکستان میں سب سے زیادہ ضرورت اس بات کے ہے کہ قوم کو ٹرک کے بتی کے پیچھے لگانے کے بجائے اصل اور بھیانک حقائق سے آگاہ کیا جائے اوردوسرے مرحلے میں دہشت گردی سے ہونے والی نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لئے موثرحکمت عملی اختیارکی جائے۔ ضرب عضب، نیشنل ایکشن پلان، نیکٹا، فوجی عدالتوں اور کومبنگ آپریشن کے تمام مرحلوں سے گذرنے کے باوجود امن کے قیام میں ناکامی متعلقہ اداروں کے صلاحیت پرسوالیہ نشان ہے۔

ریاست کا کام صرف فساد اوردہشت گردی میں ملوث تنظیموں کو“کالعدم“ قرار دینا نہیں بلکہ انہیں ”معدوم“ کرنا ہے

جب کوئی تنظیم حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہوتی ہے اور اس کی سرگرمیاں اور اہداف قانون کے دائرے کے اندر ہوں اس کے بعد جب یہی تنظیم غیر قانونی راستے پرگامزن ہوجاتی ہے تو ایسی تنظیم کو کالعدم قرار دینے، اس کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے، ان کے دفاتر سربمہر کرنے اور اثاثے منجمد کرنے کی معقول وجہ سمجھ میں آتی ہے

مگر

جب کوئی تنظیم اپنے وجود کا اعلان ہی کسی دھماکے سے کرتی ہے تو اس کو کالعدم قرار دینے کا کیا تک بنتا ہے؟

صورتحال یہ ہے کہ ادھر کوئی دھماکہ ہوتا ہے اور ادھر کوئی نہ کوئی ”کالعدم“ تنظیم اس کے ذمہ داری قبول کرلیتی ہے ریاست کی جانب سے میڈیا پر ذمہ داری قبول کرنے کی اس اشتہاری مہم پر پابندی نہ لگنے کے وجہ ویسے ابھی تک سمجھ نہیں آسکی

ریاست اپنے وجود کا احساس قانون کے رٹ اور امن و استحکام سے دلاتی ہے نہ کہ کسی کو کالعدم قرار دینے یا دھماکے میں استعمال ہونے والی بارود کا وزن بتانے سے۔
اس لئے ہرسانحہ کم ازکم اس واقعے کے حد تک ریاست کی ”کالعدم“ ہونے اور کالعدم تنظیموں کے پورے آب و تاب کے ساتھ ”موجود“ ہونے کا عملی ثبوت ہوتا ہے
اور اس ”موجودگی“ کو صرف بھارت کے ملوث ہونے یا سی پیک کے ٹارگٹ ہونے جیسے اعلانات اور دعووں سے مدہم نہیں کیا جا سکتا

تسلیم کہ دہشت گردی انڈیا افغان سرزمین کو استعمال کر کے کروا رہا ہے۔ پاک افغان سرحد کو غیر معینہ مدت تک کے لئے بند کر کے ملک کی سیکورٹی کے لئے سرحد پر پڑے ہوئے لاکھوں لوگوں سے رزق روٹی کمانے کے واحد ذریعے پر پابندی بھی بسر و چشم قبول۔

لیکن ایک بات تو بتائی جائے کہ اتنے بھیانک واقعات پر سفارتی روایات کے مطابق انڈیا کے سفیر کو وزارت خارجہ بلا کر احتجاج ریکارڈ کروانے کا معمولی سا کام کیوں نہیں کیا جاتا؟
انڈیا ہماری سرزمین کے اندر گھس کر سینکڑوں لوگوں کو تہہ تیغ کروا دیتا ہے اور اس کے باوجود انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات کے سطح بالکل ہموار کیوں رہتی ہے؟
انڈیا کے ساتھ واہگہ بارڈرکے ذریعے ایکسپورٹ امپورٹ کا تسلسل کیوں نہیں ٹوٹتا؟

افغان بارڈرکے بارے میں یہ ”جراتمندانہ“ اقدامات اٹھاتے ہوئے انڈیا کے سامنے اس کے ان واضح جرائم کو رکھتے ہوئے آپ شرماتے کیوں ہیں حضور!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments