اپنی موم بتی جلاؤ اپنی شمع جلاؤ دوسروں کے چراغ مت بجھاؤ


یار آج پھر ہمارے ملک کی سالمیت پر حملہ ہو گیا! کہاں؟ سیہون شریف میں حضرت لعل شہباز قلندر کے دربار پر۔ 100 کے قریب معصوم انسانی جانیں درندگی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ بہت دکھ ہے۔
اؤ بھائی ذیادہ دکھ وکھ کی بات مت کرو، یہ سب خان صاحب کی ترقی کو روکنے کے بہانے ہیں! ہیں کیا واقعی؟ ہاں بس سب خان صاحب کی جماعت کو ترقی سے روکنے کے لئے کروایا جا رہا ہے۔ خون تو ضروری ہوتا ہے انقلاب لانے کے لئے۔ یار یہ کیا عجب منطق ہے؟ بس کرو بے پر کی نہ اڑاؤ۔

سندھ کے دور دراز علاقہ میں حملہ ہوا، اب وہاں اتنی آبادی نہیں کہ حکومت ساری سہولیات مہیا کرے۔ تمھیں پتا ہے کچھ لوگ ہونے والے حملے کے بعد سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہے تھے۔ کیا رے بابا، سائیں پر تنقید؟ پاگل عوام ہے، ان کو کیا پتا! سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا کر یہ اپنا بغض نکال رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ بلاول سائیں پنجاب میں جلسے کرنا شروع کر رہے ہیں تو یہ سب ان کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی بات نہیں یہ گولا وغیرہ پھٹتا رہتا ہے، بندے وغیرہ مرتے رہتے ہیں، یہ کوئی بات نہیں کہ بندہ سائیں کو برا بھلا کہنا شروع کر دے۔ دیکھو جو اگر یہی دہشت گردوں کا حملہ پنجاب کے یا کے پی کے، کے کسی دور دراز علاقے میں ہوتا تو پنجاب اور کی پی کی حکومت پر کوئی کیسے تنقید کرتا۔ ارے بابا یہ کیا بول رہے رب خیر کرے کیوں کوئی حملہ ہو ہو رب کرے کہیں کوئی درندوں کا حملہ نہ ہو۔ ارے وہ سائیں کو برا کہے تو ٹھیک ہم حملے کا بولے تو غلط۔ واہ چھورا واہ۔

میں ہندووں کا بھی وزیراعظم ہوں، میں مسیحیوں کا بھی وزیراعظم ہوں، میں تمام پاکستانیوں کا وزیراعظم ہوں۔ آپ سب کی جان کی ذمہ داری میری ہے۔ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ بس اب ان میں اتنا سا دم باقی ہے کہ 5 دنوں میں ڈی آئی جی کیپٹن سید احمد مبین، ایس ایس پی گوندل جیسے سپوتوں سمیت 150 کے قریب پاکستانیوں کو دھماکوں اور فائرنگ سے کیئے گئے حملوں سے اڑا سکتے ہیں۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کے ہمدرد ہمارے ووٹر سپورٹر ہو سکتے ہیں بس اس سے ذیادہ کچھ نہیں اب الیکشن بھی تو لڑنا ہے ناں جناب۔ ہاں بی بی پاک دامن، مینار پاکستان، علامہ اقبال کا مزار بند کر سکتے ہیں مگر ان کی پود جس چار دیواری میں پروان چڑھائی جاتی ہے اس پر کوئی حرف نہیں۔

سندھ کی دھرتی اور صوفیاء کرام کا ایک خوشنما اور تاریخی تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی ترویج اور تبلیغ کی مد میں صوفیاء کرام نے بے شمار خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان کا طرز تبلیغ انتہائی سادہ، پر خلوص، اور ہر قسم کی نفرت سے پاک تھا۔ امن محبت اور انسانیت جیسے دل آویز پیغامات لے کر یہ صوفیائے کرام شہروں شہروں گھومتے اور برصغیر میں موجود رائج نسل پرستی اور ذات پات کے نظام کی دھجیاں اڑاتے لوگوں میں اخوت اور بھائی چارے کا درس بانٹتے پھرتے۔ لوگ آپ کے کردار اور آپ کی باتوں سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرتے اور معاشرے میں محبت اور انسانیت کو عام کرتے۔ فلسفہ وحدت الوجود اور دھمال یا وجدانی رقص بھی صوفیاء کرام کی تعلیمات اور ان کے رہن سہن سے اخذ کیا گیاہے۔ غرضیکہ صوفیاء کا پیغام ہر قسم کی تفریق سے بالا تر ہو کر اللہ کی تمام مخلوقات سے پیار اور انس رکھنا اور کسی کو بھی اپنے عمل سے نقصان یا ایذا پہنچانا نہ تھا۔

افسوس کی بات یہ کہ یہی صوفی رقص جس نے کبھی اسلام کی ترویج اور اپنی ذات کی نفی سے لوگوں کو روشناس کرایا اسی دھمال کے دوران درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا۔ دھمال کے بارے میں ہمارے سننے میں بے شمار بے تکے تبصرے آئے۔ سب لوگوں نے اس پر دانشوری جھاڑنا شروع کر دی۔ بعض نے دھمال کے حلال اور شرعی ہونے پر دلیلیں مانگیں تو بعض نے اسے مجرے سے جوڑ کر سرے سے ہی حرام قرار دے دیا۔ بعض نے سیدھے سیدھے تاک کر بدعت کے فتووں کے تیروں کی بھرمار کی، بعض نے شرک جیسے گناہ سے مزاروں کو جوڑ کر عقیدت مندوں کو واجب القتل سمجھ کر دھیمی مسکراہٹ پیش کی۔ اور بعض بالکل خاموش اور گنگ ہو گئے۔ دھمال کو مجرے سے جوڑنے کے چکر میں جو سراسر ذیادتی کی گئی وہ یہ کہ مجرے اور دھمال دنوں کو آپس میں متصل کر دیا گیا جبکہ درحقیقت مجرے میں عورت کو ایک جنس سمجھ کر، اسے مجبور کر کے، معاشرہ ایک تفریحی شے کے طور پر اس پر ٹھرک جھاڑتا ہے۔ جبکہ دھمال ایک استعارہ ہے بیگانگی کا، اپنے عاشق کی طرف دیوانہ وار مست ہونے کا۔ دھمال میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا۔ نہ ہی اس کیمجرے کی طرح، قیمت لگائی جاتی ہے۔ دھمال تو عاشق اور معشوق کا اک ربط ہے۔

خیر مبصرین تو اپنی جگہ مگر دینی راہنماؤں کی جانب سے بھی بھرپور اور واضح چپ سادھ لی گئی۔ ارے بھئی مولانا گنگ کیوں ہیں؟ کچھ حرف ملامت؟ کچھ قوم کو دلاسا؟ جنت میں کون جا رہا یہی بتلا دیں، یہ معصوم نہتے لوگ یا وہ جانور صفت درندے جنہیں آپ کے حلقہ احباب شہید گردانتے ہیں؟ ظلم کا جشن یا اس کیمذمت اس وقت نہیں کی جاتی جب ایجنڈا مشترکہ ہو۔ خیر یہ باتیں سنا سنا تو زبان تھک چکی۔

دہشت گردوں کے درندگی سے بھرپور حملے کے بعد مذمتی بیانات شروع ہو گئے، حکومت اور دانشورں سمیت سماجی کارکن متحرک ہو گئے۔ مگر سب جدا جدا۔ کسی کو کسی کے شمعیں جلانے پر اعتراض، تو کسی کو کسی کے نعرے لگانے پر، کسی کو مظاہرہ کرنے پر، اور کسی کو مظاہرے میں دھمال ڈالنے پر۔ خود کو حرف کامل اور حرف آخر گرداننا اور دوسروں کی بھرپور حوصلہ شکنی کرنا۔ نہیں! نہیں! سنو تم غلط اور میں صحیح کی جنگ میں الجھ کر رہ گئے مگر مذمت جی کھول کر نہ کر سکے۔ جتنی ہمت اور وقت خود کو سچا اور دوسروں کو جھوٹا ثابت کرنے میں برباد کیا اس سے آدھا بھی حقیقی مذمت کرنے میں لگا دیا ہوتا تو شاید معاشرے کا کچھ بھلا ہو جاتا۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر نیا سانحہ ہم میں سے مزید گروہوں کو، نئے نام نہاد دانشوروں کو، نیئے فتووں کو جنم دیتا ہے اور جس کا نتیجہ معاشرے کی مزید ابتری کے سوا کچھ نہیں۔

۔ ہم بہانے ڈھونڈتے ہیں کہ کسی طرح ہم ظلم کی حمایت کر سکیں جو اپنے عقیدہ کے، اپنے ذات کے لوگوں سے، اپنی سیاسی جماعت کے لوگوں کی وجہ سے سرزد ہوا۔ ہمارا ذہنی شعوری اور اخلاقی میعار یہ ہے کہ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ شمع جلائے ہوئے ہے یا ہر کوئی شمع جلانے پر مصر ہے مگر اگر کوئی دوسرا اس کی طرح شمع نہ جلائے تو پھونک مار کر اس کی شمع بجھا دو، یا اپنی شمع سے اس کا گھر جلا دو۔ مگر اپنی انا پر آنچ نہ آنے دو۔ اور ایسی انا اور جہالت کی شمع کچھ سود مند نہیں، کچھ کارگر نہیں، کچھ چارہ گر نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments