تھینک یو اللہ میاں کہا کرو


بے شک ذاتی قابلیت، تخلیقی صلاحیت اور زرخیز ذہن وہ سیڑھیاں ہیں جن کے ذریعے اوجِ کمال تک پہنچا جاسکتا ہے لیکن ان سیڑھیوں کو سہارا دینے والا، اُنہیں یوں تھامے رکھنا کہ آپ بے خطر اُن پر چڑھتے جائیں، نصیب ہوتا ہے۔ اتفاق اور بخت ہوتا ہے۔ اگر یہ سہارا نہ دیں تو دوچار ہاتھ لبِ بام رہ جاتا ہے اور آپ دھڑام سے وہیں آگرتے ہیں جہاں سے چڑھائی کا آغاز کیا تھا۔ میں بنیادی طور پر فنون لطیفہ کے حوالے سے اپنی زندگی کے تجربے اور حوادث سے اخذ کیے گئے نتائج کا تذکرہ کر رہا ہوں۔ اگرچہ وہاں بھی کسی حد تک نصیب کا عمل دخل ہوتا ہے لیکن مجموعی طور پر سائنس، طِب اور فلسفے کے شعبوں پر یہ اتفاق اور بخت کا کلیہ منطبق نہیں ہوتا۔ ابن سیناء رازی، نیوٹن یا خاص طور پر آئن سٹائن ایسے لوگ بخت کو اپنا تابع کرنے پر قادر ہوتے ہیں، افلاطون، سقراط، ابن میمون اور ابن رشد کسی بھی نصیب کے تائع نہیں ہوتے خود نصیب ہوتے ہیں۔

آسمانوں سے ہم زمین پر اترتے ہیں، نصیب کی چند کارستانیوں کا ذکر کرتے ہیں، اُن دنوں میں دھڑا دھڑ ٹیلی ویژن ڈرامے اور سیریل لکھ رہا تھا جب میں نے ٹیلی ویژن کے برآمدوں میں بھٹکتے ایک ایسی لڑکی کو دیکھا جو کوہ قاف سے اتری ہوئی لگتی تھی، اتنی سوہنی تھی کہ ایک نظر دیکھنے سے دل رُک رُک جاتا تھا۔ کبھی اُس کی جھیل ایسی آنکھوں کو دیکھ کر رُکتا اور کبھی اُس کی میدے اور مکھن کی آمیزش سے گوندھی گئی رنگت کے لئے رُک جاتا۔ مجھے اُن دنوں اپنے سیریل ’’سورج کے ساتھ ساتھ‘‘ کے لئے کچھ نئے اداکار درکار تھے۔ اور میرا دل اس لڑکی پر آگیا کہ اسے بہرصورت کاسٹ کرنا ہے، جیسا کہ اُن دنوں دستور تھا اُس کی جہاندیدہ والدہ صاحبہ اُسے ٹیلی ویژن کے برآمدوں میں لئے پھرتی تھیں کہ شاید بچی کے نصیب جاگ جائیں اس کے ساتھ میرے نصیبوں کو بھی پر لگ جائیں اور پھر یہ فلموں کی جانب اڑان کر جائے کہ ٹیلی ویژن محض ایک سیڑھی تھی، بڑی سکرین تک پہنچنے کی۔

مسئلہ یہ ہوا کہ وہ لڑکی اداکاری میں ذرا پیدل تھی، اُس کا لہجہ بھی کچھ عجیب تھا اور آوازمیں ایک جنسی مردانہ پن تھا، اب کیا کریں۔ میں نے بہرطور اُسے کاسٹ کرنا تھا چنانچہ وہ قدیم لاہور کے ایک جھروکے میں بیٹھی ہوئی اپاہج لڑکی ہے، بولتی نہیں، مسکراتی رہتی ہے اوروہ ہِٹ ہو گئی۔ مدیحہ شاہ کا یہ پہلا ٹیلی ویژن ڈرامہ تھا۔ اب تو وہ قدرے وسیع ہو گئی ہے لیکن اُن زمانوں میں وہ ایک قہر تھی، غدر تھی، تو یہ اُس کے نصیب تھے، کہ میں نے اُسے دیکھ لیا۔

اس سیریل کے لئے مجھے ایک خوش شکل نوجوان اداکار درکار تھا اور میں چاہتا تھا کہ وہ ایک پرانا چہرہ نہ ہو۔ راشد ڈار نے کہا۔ تارڑ جی، کل تک آپ مجھے بتا دو کہ کس کو یہ اہم رول سونپنا ہے ورنہ میں کسی اور معمول کے اداکار کو کاسٹ کرلوں گا، پرسوں مجھے سیٹ پر جانا ہے۔ اُس شب ٹیلی ویژن پر پشاور ٹیلی ویژن کا ایک ڈرامہ شاید ’’تین کبوتر‘‘ نام کا چل رہا تھا جس میں تین نوجوان گمنام اداکاری کر رہے تھے، عینی اُن دنوں سکول میں پڑھتی تھی، کہنے لگی، ابو یہ جو دوسرا لڑکا ہے یہ آپ کے سیریل کے لئے اچھا رہے گا۔ اچھی ایکٹنگ کر رہا ہے۔

اگلی سویر میں نے رفیق وڑائچ سے کہا کہ رفیق۔ پچھلی شب پشاور کا ایک ڈرامہ چل رہا تھا، مجھے اُس لڑکے کا نام نہیں معلوم لیکن یہ یاد ہے کہ وہ ایک گلدان توڑتا ہے تو مجھے اپنے سیریل کے لئے وہ درکار ہے۔ رفیق نے پشاور فون کیا اور شام سے پہلے میرے گھر کے باہر وہی لڑکا کھڑا تھا کہ سر۔ میرا نام عجب گُل ہے۔ اُس کی خوش شکل اور اداکاری کی بہت دھوم ہوئی، بعدازاں وہ ایک فلمی ہیرو اور ہدایت کار ہوا، پچھلے دنوں اُس کی آرٹ فلم ’’دُختر‘‘ریلیز ہوئی۔ تو کیا یہ نصیب کے کرشمے نہیں ہیں، اگر اُس شب عینی وہ ڈرامہ نہ دیکھتی تو شاید عجب گُل کب کا فراموش ہو چکا ہوتا۔ وہ جب کبھی ملتا مجھ سے کہتا۔ اپنی بیٹی اور میری بہن کا شکریہ ادا کردیجئے کہ میں آج اُس کی وجہ سے شہرت کی بلندیوں پر ہوں۔

ویسے اسی سیریل کی نسبت سے وسیم عباس، سجاد کشور، شکیلہ قریشی، عابد علی نے بہت شہرت حاصل کی اور خیام سرحدی کو ایک موچی کا کردار ادا کرنے پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
مین مارکیٹ گلبرگ کے ایک فلیٹ میں کنور آفتاب احمد اور محمد نثار حسین مقیم تھے، بعد میں وہ ایک دوسرے کو برداشت نہ کرسکے لیکن تب وہ دوست تھے، ایک شب میں اور فخرزمان اُن کے مہمان تھے اور نثار نہایت دل جمعی سے ٹیلی ویژن پر اپنے ہی ہدیت کردہ ڈرامے کو دیکھ رہا تھا تو میں نے یونہی ازراہ مذاق کہا کہ نثار۔ آپ کے ڈرامے کا ہیرو سیدھا تھیٹر سے آیا ہے اور کیسا ’’چِبّڑ‘‘ سا ہے، فخر کو دیکھو، مجھے دیکھو، ہم کیوں ہیرو نہیں ہوسکتے؟ ‘‘

چند روز بعد نثار کی جانب سے مجھے ایک سکرپٹ موصول ہوا، نعیم طاہر کا تحریر کردہ ڈرامہ ’’پُرانی باتیں‘‘، ایک ڈاکٹر کا کردار تھا، میرے تو ہاتھ پاؤں پھُول گئے، اگر چہ اُن زمانوں کے ہر نوجوان کی مانند میں بھی ہیرو بننے کے خواب دیکھتا تھا لیکن ہمارے ہاں، جاٹ ذات میں تو یہ سب کام ایکٹنگ ا ور گانا بجانا وغیرہ تو کمّی کمین میراثیوں کے کام تھے اور ہم تو چوہدری ہوا کرتے تھے، میں نے نثار کو فون کیا کہ حضور میں نے تو یونہی جھک ماری تھی، مذاق کیا تھا، یہ کردار فخر زمان سے کروالیں وہ مجھ سے زیادہ سوہنا ہے تو نثار نے نہایت سنجیدگی سے کہا ’’اُس نے بھی انکار کردیا ہے۔ تم دونوں آپس میں فیصلہ کرلو۔ کہ کس نے ڈاکٹر کا رول ادا کرنا ہے۔ کسی ایک نے بہرطور کرنا ہے۔ کیوں کہا تھا کہ سر جی ہمیں ہیرو بنا دو‘‘۔ اُس شب فخر زمان سے ملاقات ہوئی تو اُس کا رنگ زرد تھا، وہ کسی حد تک ایک ڈرا ڈرا جھینپوں سا شخص تھا کہنے لگا ’’مستنصر، میرے ابا جی میجر زمان صاحب، ایک جاٹ ہونے کے تکبر میں مجھے تو عاق کردیں گے اگر میں نے ٹیلی ویژن پر اداکاری کی۔ ‘‘

فیصلہ ہوا کہ ٹاس کر لیتے ہیں جو ہار جائے وہ اداکاری کا سزا وار ٹھہرے اور میں ٹاس ہار گیا۔ تو اگر ٹیلی ویژن پر میری حیات کے بہت برس گزرے، میرے رزق کا ساماں ہوا، چار سو سے زائد ڈراموں میں مرکزی کردار اداکیے ’’نواب سراج الدولہ‘‘سے شہرت ہوئی، سینکڑوں پنجابی اور اردو ڈرامے لکھے، متعدد سیریل تحریرکیے اور ’’سورج کے ساتھ ساتھ‘‘پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے سات صفحوں پر محیط ایک فیصلہ دیا۔ میزبانی بہت کی۔ الیکشن کے دنوں کی اور صبح کی نشریات کی، نامور ہوا۔ پرائڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے والا طارق عزیز کے ہمراہ ٹیلی ویژن کی تاریخ میں پہلا میزبان ہوا تو کیا اس میں میری تخلیقی صلاحیتوں کا کچھ کمال تھا۔ ہرگز نہیں، یہ سب ایک ٹاس ہارنے کا شاخسانہ تھا، اسی کو تو نصیب کہتے ہیں۔ احمق لوگ فخر اور تکبر کرتے ہیں، نصیب کی کرامت کو اپنی عظمت کے کھاتے میں ڈال لیتے ہیں۔ یہ احمق لوگ ہوتے ہیں۔ نصیب کی چوکھٹ پر سر جھکا دو اور رب کا شکر ادا کرو۔ تھینک یُو اللہ میاں کہا کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar