نابینا افراد کے لئے بریل طریقہ تعلیم کا موجد: لوئی بریل


اس نے اپنے استادوں سے لائبریری کا معلوم کرنا شروع کر دیا۔ لیکن اس کو بہت مایوسی ہوئی۔ جب پتہ چلا کہ اسکول کی لائبریری میں تو صرف تین کتابیں ہیں۔ یہ کتابیں بڑی وزنی اور ایمبوسنگ (ابھری ہوئی) پرنٹنگ طریقہ میں لکھی گئی تھیں جس میں لیڈ (ایک سخت دھات) کو ابھرے حروف کی شکل میں ڈھال کر بھاری ویکس پیپر (موم کے کاغذ) پر چسپاں کیا جاتا۔ چھپائی کے اس، طریقہ کو ویلنٹین ہوئے (جو اس اسکول کا بنانے والا بھی تھا) نے دریافت کیا تھا۔

لیکن اس طریقہ کی خرابی یہ تھی کہ ابھرے حروف پر انگلی پھیرتے ہوئے جب بچہ جملہ کے آخر میں پہنچتا تو یہ بھول جاتا کہ آخر وہ پڑھ کیا رہا تھا۔ اور پھر یہ کتابیں موٹی اور مہنگی بھی بہت ہوتی تھیں۔ اس طرح لوئی کو اندازہ ہوا کہ آخر لائبریری میں اتنی کم کتابیں کیوں ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہاں اکثر استاد زبانی پڑھاتے۔

لوئی کو حساب، گرامر اور مضمون نگاری تو اچھی لگتی تھی مگر موسیقی سے خاص دلچسپی تھی۔ اور وہ مختلف قسم کے ساز بجاتا تھا۔

1821 میں لوئی کے اسکول میں فرانس کی فوج کے افسر چارلس باربئیر کو بلایا گیا۔ جس نے نقطوں اور لکیروں کو پیپر ٹیپ پر نوکیلے اوزار کی مدد سے سوراخ کر کے لکھنے کا طریقہ بتایا جس کو نائٹ رائٹنگ یا رات کی لکھائی کہتے ہیں۔ اس کی مدد سے فوجی میدانِ جنگ میں رات کے وقت خموشی سے خفیہ گفتگو کرتے تھے۔ چونکہ یہ نقطے اور لکیریں آوازیں ظاہر کرتے جو مل کے لفظ بناتیں لہذا ان کو سونو گرافی (Sonography) کا نام بھی دیا گیا۔ لوئی اور اس کے دوست گبرئیل کو یہ طریقہ اچھا تو لگا مگر اس میں یہ خرابی تھی کہ زیادہ آوازوں والے الفاظ کے لئے بہت سارے نقطے اور لکیریں استعمال ہوتیں۔ اس طریقے میں گنتی کے علاوہ گفتگو میں استعمال ہونے والی دوسری علامتیں بھی نہ تھیں۔ لوئی نے اس طریقہ کو بہتر کرنے کا سوچا۔ اپنی پڑھائی کے بعد وہ دن رات ہر وقت اس طریقہ پر کام کرتا رہتا۔

بالآخر 1824 میں جب وہ پندرہ سال کا تھا تو اس نے تمام حروف تہجی، گنتی اور دوسری علامات کو صرف ابھرے ہوئے نقطوں کی مدد سے لکھنے اور پڑھنے کا طریقہ بنا لیا۔ لوئی نے چارلس باربئیر کے طریقہ کو نہ صرف بہتر بلکہ سادہ ترین بنا دیا۔ خود نابینا ہونے کی وجہ سے اسے پتہ تھا کہ بہت سارے نقطے اور لکیریں یاد رکھنا مشکل ہو گا۔ لہذا اس نے زیادہ سے زیادہ چھ ابھرے لفظوں کو ایک خانہ میں اس طرح بنایا کہ جو انگلی سے چھو کر آسانی سے پڑھے جا سکتے تھے۔ اس کے اسکول کا ڈائریکٹر اس ایجاد سے بہت متاثر تھا۔ لیکن اتنے کم عمر طالب علم کی ایجاد کو قبول کرنا آسان نہ تھا۔ اسکول بورڈ کے دوسرے ڈائریکٹرز نے ا س طریقہ کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔ لوئی کو مایوسی تو ہوئی مگر وہ کام کرتا رہا۔

1826 میں اسکول کے بچوں کو حساب، جغرافیہ اور گرامر پڑھانے کے ساتھ ساتھ پیانو کے سبق دیتا اور چرچ کے لئے آرگن بھی بجاتا رہا۔ 1828 میں وہ اسکول کا نرم دل اور محنتی استاد بن گیا۔ بیس سال کی عمر میں اس نے اپنے بھرے ہوئے لفظوں کے طریقہ کے متعلق کتاب لکھی۔ باوجود بورڈ کے ڈائریکٹرز اور حکومت کی مخالفتوں کے نابینا بچوں کو یہ طریقہ بہت اچھا اور آسان لگا۔ لوئی نے بھی مایوسی کے بجائے بریل طریقہ پر کتابیں لکھنا شروع کر دیں۔ راتوں کو جاگ کر سخت محنت کرتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 26 سال کی عمر میں اسے ٹی بی کا مرض ہو گیا۔ جو اس زمانے میں بہت خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت میڈیکل سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ کہ کوئی اچھی دوا اس کا علاج ہوتی۔ مرض کا صرف ایک ہی علاج تھا۔ تازہ ہوا اور آرام۔ وہ آرام بھی کرتا اور تازہ ہوا میں بھی جاتا۔ مگراس کا کام اس کے لئے بہت اہم تھا۔

1837 میں اس نے لائبریری کے لئے اپنے ابھرے لفظوں کی مدد سے تین جلدوں والی 600 صفحات کی کتابThe Summary of French History، Century by Century ) ) مکمل کی۔ یہ زمانہ تھا کہ جب پڑھاتے ہوئے کھانسی کے دورے پڑتے۔ اور وہ بے حال ہو جاتا۔ اس کا ڈائریکٹر ڈاکٹر یگنز اس کے کام کا بہت بڑا حامی تھا۔ 1840 میں اس کو نوکری سے نکال کر اسکول میں بریل کے طریقہ پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔ طلباء میں مقبولیت کی وجہ سے بالآخر 1844 میں اسکول نے لوئی بریل کے طریقہ پر عائد پابندی ختم کر دی۔ 1850 میں لوئی کی طبیعت اتنی خراب ہو گئی کہ اس کو نوکری چھوڑنی پڑی۔ دسمبر 1851 میں اس کے دونوں پھیپھڑے خراب ہو چکے تھے۔ اس کے دوستوں نے فرانس کی حکومت کو ایک درخواست داخل کی کہ بریل کو سرکاری طور پر نابینا افراد کے لئے پڑھنے لکھنے کا طریقہ قبول کیا جائے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ لوئی بریل کو اس کے کاموں پرلیجن آف آنر (فرانس کا سب سے اعلی اعزاز) بھی دیا جائے۔ مگر حکومت نے اس درخواست پر کوئی توجہ نہ دی۔

لوئی بریل کو اندازہ تھا کہ وہ نہیں بچ سکے گا۔ اس نے اپنے دوستوں سے کہا، مجھے یقین ہے کہ میرا مشن (کام) اس زمین پر پورا ہو چکا ہے۔ 6 جنوری 1852 کو اپنی 43 ویں سالگرہ کے دو دن بعد لوئی کا انتقال ہو گیا۔ اس عظیم آدمی کی موت کی خبر کسی اخبار میں نہ چھپی۔ وہ اس وقت گمنام تھا۔ لیکن اس کی موت کے صرف چھ ماہ بعد ہی بریل طریقہ تعلیم کو فرانس میں باقاعدہ منظور کر لیا گیا۔

لوئی بریل کے مرنے کے سو سال بعد 20 جون 1952 میں اس کی میت کو اس کے گاؤں سے نکال کر مکمل اعزاز کے ساتھ فرانس کے عظیم لوگوں کی قبروں کے ساتھ پینتھم (Pantham) پیرس میں دفنا دیا گیا اور ہزاروں اہم لوگوں نے اس تقریب میں شرکت کی۔ آج بریل طریقہ تعلیم پوری دنیا میں استعمال کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2