عورت مارچ، پدرسری کے خلاف ایک غضب مارچ


تقسیم ہند کے بعد اکثر روایات، ہند کیطرح تقسیم نہیں ہوئے۔ ان بہت سارے روایات میں خواتین کو پدرسری کی چھتری تلے رہنا ایک لازم و مطلق روایت رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایات زور پکڑتی گیی اور عورت محکوم بنتی گیی۔ جہیز، تعلیم، جایداد میں حصہ، بچپن کی شادی اور بہت سارے ایسی بدبختیوں پہ تو اکثر لکھا جا چکا ہے، لیکن پچھلے سال سے اکایوں پہ لکھنا اور بولنا شروع ہوگیا ہے، جو میرے خیال سے ایک اچھا قدم ہے۔

جب عورت مارچ کی تیاریاں شروع ہوئیں توسب خواتین، لڑکیوں اور بہت سارے مردوں نے بھی بڑے زور و شور سے اس کا خیر مقدم کیا۔ جو کہ ہونا بھی چاہیے تھا۔

خوشی کی بات یہ تھی کہ اس مارچ کو کسی ایک بھی ادرارے کی سپورٹ حاصل نہیں تھی بلکہ تقریبا ہر شعبے کی خواتین نے انفرادی طور پر ذمہ داری اٹھائی۔ جس کا مظلب یہ ہوا کہ پاکستان کی عورت بیدار ہوچکی ہے اور اپنے حق کے لئے آواز اٹھا رہی ہے۔ مارچ کے مہینے میں عورت مارچ تو بہت کامیابی سے منعقد ہوا۔ لیکن بعد میں یہ جو بحث چھڑی ہے میں تو اس کو بہت مفید سمجھتی ہوں۔ چلو تنقید ہی صحیح لیکن آج ہر دوسرا بندہ عورت کے حق کی بات تو کرر ہا ہے یہ بذات خود ایک اچھی تبدیلی ہے۔

اوراس بحث کا نتیجہ کچھ نہ کچھ تو نکل ہی آئے گا۔ اچھا نتیجہ اس لئے نکلے گا کہ اس دفعہ خواتین دلیل پر اڑ گئی ہیں اور اپنے حق سے پیچھے ہٹنے والی نہیں۔ مجھے اس بحث سے زیادہ امیدیں ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے مرد اپنی جگہ اور عورت اپنی جگہ ایمانداری سے اپنی اپنی سوچ اور رویے کا تجزیہ بھی کرلیں۔ اور اخر میں مہذب انسانوں کے طرح ایک ہم آ ہنگ سوچ اور نتیجے پر پہنچ کرباقی کی زندگی ترقی اور ارتقا کے عمل میں ایک دوسرے کا باہم ساتھ دیں نہ کہ پھر ایک دوسرے کو زیر کرنیکی چالیں سوچیں، مطلب وہی گھسی پھٹی پدر سری اور مدر سری۔

سب سے بڑی تنقید اس وقت کچھ پلے کارڈز پر ہورہی ہے، سچ میں، میں نے بھی جب کچھ پلے کارڈز دیکھے تو بہت برا لگا اور کافی غصہ بھی ایا کہ اب یہ بھی بھلا کوئی ایسے پبلک میں کرنے والی باتیں ہیں۔ کیونکہ ہم تو ہمیشہ سے لڑکیوں کو کہتے ہیں کہ چپ کرو، کوئی بات نہیں، مرد کو اختیار ہے وہ جو کہے وہ جو کرے اس کی مرضی لیکن تم نے سر جھکا کر ہمیشہ برداشت کرنا ہے۔ لیکن سب کو تو پتہ ہے کہ زمانہ کتنا خراب ہوچکا ہے لہذا شہروں کی کچھ زیادہ پڑھی لکھی، بدزبان اور ازاد خیال عورتوں نے دل کھول کر وہ سب بتا دیا جو عموما عورتیں چھپاتی ہیں۔

خیر آپ لوگ فکر نہ کریں ہمارے پاس بہت ساری ایسی خواتین ہیں جو آپ مردوں سے زیادہ ان نوجوان لڑ کیوں اور خواتین کی خبر لے رہی ہیں اور ہر طرح سے کوشش کر رہی ہیں کہ انھیں مردوں کی فرمانبردار بنائیں۔ اور یہ کام زور و شور سے جاری ہے لہذا آپ لوگ زیادہ فکر نہ کریں۔ اب ان عورتوں کو کون بتائے کہ لوگ آپ کو حضرت خدیجہؓ کی تجارت، حضرت محمدؐ کو نکاح کی دعوت اور ایک مضبوط خاتون کی پٹی تو پڑھائیں گے لیکن یہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ تم اعلی تعلیم، پسند کی شادی، یا پسند کا کاوروبار یا نوکری کرو۔

لوگ پیغمبرؐ کی اپنی بیویوں سے محبت اور گھر کے کام کاج میں مدد کی مثال تو دیں گے لیکن اگر تمھارا شوہر ایسا کرے گا تو وہ اچھا مرد نہیں کہلائے گا۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ مثالیں اور پٹیاں ہمیشہ عورت ہی ہمیں پڑھاتی ہیں لیکن ہاں ایسی عورتوں کو پھر مردوں کی شاباش بھی تو ملتی ہے۔ ویسے اپس کی بات ہے پہلی دفعہ خواتین نے اتنی جرات کا مظاہرہ کیا اور اتنی کثیر تعداد میں نکل آ ئیں اب اس کامیابی کا جنازہ کچھ پلے کارڈز کی بنیاد پر نکالنا تو بنتا ہے نا۔ لہذا ٹھیک ہے۔ لیکن ایک بات ہے۔ یہ پتہ ضرور چل گیا کہ آ ج کی عورت کے ساتھ دھوکہ، فریب، اس کی حق تلفی کرنا اب اتنا آسان نہں جتنا پہلے تھا۔

اب تو عورتیں اکٹھی ہو کر ایک نئی طاقت بن کر ابر رہی ہے اور یہ عورتیں اب کمزور بھی نہیں، اس میں تو مزدور، کسان، صحافی، سیاستدان، فلاسفر، مصنف، اداکارہ، طوائف، کارکن، شادی شدہ، طلاق یافتہ، پولیس، وکیل، طالب علمہ، گھریلو عورت، پسی ہوئی عورت، مضبوط عورت سب شامل ہیں۔ اب اس طاقت اور ہمت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ شامل کریں یا اس کو اپنے سے الگ کر کے اپنا نقصان دوگنا کرو۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ والی بات کو تسلیم کریں گے، تو آگے بڑھیں گے۔ اب تو آگے بڑھنا بھی ہے اور جھکنا بھی نہیں ہے۔ ابھی تو اصل مارچ شروع ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).