بددعا


اللہ نہ کرے کہ ہمیں کبھی اس طرح کی صورت حال سے گزرنا پڑے جب اپنا اپ بے معنی اور ہر صبح مایوسی کا عالم لگے۔ چاچا بشیر شوق سے کچھ کارٹون بنے خوش رنگ کپڑے لایا اور ساتھ میں کچھ قیمتی کھلونے بھی ٹیبل پر سجا لیے۔ آواز میں اعتماد اور خوشی محسوس کی جاسکتی تھی تبھی کمرے سے آواز ائی اوے بشیرے ویلا آ گیا اے جا خالہ نذیراں نو بولا لے۔ چاچا بشیرے نے نہ آؤ دیکھا اور نہ تاؤ بھاگتا ہو دوسرے محلے جا پہنچا اور جاندار آواز میں خالہ نذیراں پکارتا ان کو ساتھ لیے چل پڑا۔

خالہ نذیراں نے مسرت بی بی کو اپنے جادوائی ڈاکٹرانہ طریقے سے چیک کیا اور کہا کہ بشیرے مٹھائی منگوا لے میں یقین سے کہتی ہوں تیرے گھر پتر ائے گا بشیرا چاچا حلوائی کی دکان سے بہترین مٹھائی لایا اور ساتھ ساتھ اس خوشی سے سرشار فخرانہ انداز میں صحن میں چہل قدمی کرنے لگا۔ مسرت بی بی چاچا بشیرے کی بیوی تھی اور وہ تیسری بار امید سے تھیں اللہ نے اس سے قبل ان کو دو بیٹیوں سے نوازا تھا۔ اور اب کی بار چاچا بشیرا امید سے تھا کہ ان کے گھر بیٹا ہو گا۔

کمرے سے باتوں کی آواز ارہی تھی اور پھر اچانک دو اداس چہرے باہر نمودار ہوئے نذیراں خالہ نے روایتی انداز میں کہا کہ بشیرے تیرے نال فر ہتھ ہو گیا بیٹا نہیں بیٹی ہوئی ہے۔ یہ سننا تھا کہ بشیرے کے تاثرات اور رنگ پیلا پڑ گیا اور دھیمی آواز میں بڑبڑاتا ہوا مایوسی سے گھر سے باہر نکل گیا۔ شام ڈھل گی رات چھانے لگی مسرت بی بی ساس کی باتیں سن کر پلو میں منہ چھپائے روتی رہی اور نومولود کو مایوسی سے دیکھتی رہی۔

آہستہ آہستہ رات کا اندھیرا چھانے لگا اور اب سب کو بشیرے کی فکر ہونے لگی کہ کہیں وہ اپنے ساتھ کچھ الٹا سیدھا نہ کرلے۔ رات اسی انتظار اور خوف میں بیت گی کہ ناجانے صبح کیا منظر ہو گا۔ مسرت بی بی نے صبح اٹھتے ہی بچوں کا ناشتہ بنایا اور امی ساس سے پوچھا کہ وہ رات سے گھر نہیں آئے جا کر خیر خبر تو لائیں۔ خالہ صفیہ جو کہ بشیرے کی والدہ تھیں اداسی اور مایوسی سے بولیں کہ کیا خیر کی خبر ہوگی اب اس کے لیے، تین دفعہ تو تونے لڑکیوں کو پیدا کیا، سن بی بی اب ہمارا تیرے ساتھ گزارا نہیں ہو گا، لڑکیاں پیدا کرکے ڈھیر لگانے سے بہتر ہے تو اپنے میکے چلی جا۔ پتہ نہیں کون سا منحوس دن تھا جب تیرے قدم میرے بیٹے کی زندگی میں پڑے تھے۔

وقت خاموشی سے گزرتا گیا بچیاں نہ تو سکول جا سکیں اور نہ ہی باپ کا پیارا ملا۔ چاچا بشیرا گاؤں سے شہر چلا گیا اور خبر ملی کہ وہاں دوسری شادی رچا لی۔ پہلے پہر کچھ پیسے بھیجتا تھا پھر پیسے بھیجنا بھی بند کر دیے۔ ماں بچیوں کو لیے دربدر پھرتی اور بچیاں جوان ہو گئیں۔ رشتے کی تلاش شروع ہوئی تو پہلے گھر کی غربت آڑے آتی پھر باپ کا چھوڑ کر چلے جانے پر سوالات اٹھتے۔

لوگ آتے چائے پیتے گھر کی حالت دیکھتے اور کردارکشی کرکے چلے جاتے۔ مسرت نے محنت مزدوری کرکے کچھ سامان جوڑا تھا مگر وہ ناکافی تھا۔ وقت گزرتا رہا اور حالات جوں کے توں رہے۔ سبھی سہیلیاں خوش باش اپنے گھروں میں زندگی گزر رہیں تھیں اور بشیرے کی بیٹیاں انتظار کرتی کرتی بوڑھی ہوتی جا رہیں تھیں۔ سالوں بعد سرد رات میں دروازے پر دستک ہوئی دروازہ کھلا تو بے جان زرد چہرہ اداس انکھیں لیے چاچا بشیرا خاموشی سے گھر میں داخل ہوا۔

کچھ دیر بعد خاموشی کے بعد ایک آواز ابھری۔ خیر سے انا ہوا، ۔ ہاں بیمار ہوں۔ رضیہ کا انتقال ہو گیا اور بیٹے ملک سے باہر چلے گے۔ چھوٹے بیٹے نے بیوی بچوں کے کہنے پر مجھے گھر سے نکال دیا۔ دیکھو مسرت ساری زندگی ان کے لیے کماتا رہا ان کو پڑھایا لکھایا اور اب جب آرام کے دن آئے تو مجھے اکیلا کر دیا۔ پھر اچانک سے چارپائی پر بیٹھی بیٹیوں کو دیکھا تو دل میں ہول اٹھے سرد آہ بڑھ کر چلا چلا کر رونے لگا نہیں مجھے سزا ملی ہے مجھے بددعا لگی ہے تم لوگوں کی بددعا میری چاہ نے تم لوگوں سے سب کچھ چھین لیا میں نے بدبخت ہوں۔

روتے روتے کہیں آنکھ لگ گئی اور صبح جب آنکھ کھلی تو عجیب منظر تھا بیوی اور بیٹیاں بے سدھ زمین پر گری ہوئیں تھیں۔ چہرے نیلے پڑے ہوئے اور انکھیں کھلی۔ چاچے بشیرے نے ہاتھ لگا کر دیکھا تو سانس بند تھی مسرت بی بی نے تینوں بیٹیوں کے ساتھ خود بھی زہر کھا کر جان دے دی۔ علاقہ میں ہو کا عالم تھا لوگ عجیب وغریب باتیں کررہے تھے۔ پھر کسی نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ بیچاریاں دن رات مر مر کے زندگی گزر رہی تھیں محلے میں نہ کسی کے گھر آنا جانا تھا اور نہ ہی زیادہ دعا سلام۔ لوگ ان کے گھر کو منحوس کہتے تھے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔

کچھ دن بعد گلی کے کونے پر بچے شور مچاتے ہوئے کسی کو پتھر مار کر پاگل پاگل پکار رہے تھے دیکھا تو گندے کپڑوں میں بابا بشیرا ایک جگہ دوسری چکر لگا رہا تھا آج کل بابا بشیرا چوراہوں پر بھیک مانگتا نظر اتا ہے۔ یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ تعلیم وتربیت کا فقدان خاندان اجاڑ دیتا ہے مکافات عمل سے انسان کو ڈرنا چاہیے۔ اپنی چاہ کی خاطر ہم اپنے ساتھ جڑے رشتوں کے ساتھ جو نا انصافی اور سلوک کرتے وہ ہم تو بھول جاتے ہیں مگر حقوق العباد کا محافظ سب لوٹا دیتا ہے۔ عورت کو مبجور اور لاچار سمجھ کر جو سلوک معاشرے میں کیا جاتا ہے اس کا بھی مکافات عمل ہے اور ڈرنا چاہیے اس انصاف کرنے والی ذات سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).