”بنچ“ کو ”بار“ کی فی الحال ضرورت نہیں۔


یہ بات ہے گزشتہ برس کی، میں عدالت میں موجود تو نہیں تھی مگر اس وقت حالیہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بھی چیف نہ تھے۔ قصہ زبان زد عام ہے کہ ایک جونیئر وکیل صاحب عدالت میں پیش ہوئے اور جج صاحب سکول کی اسمبلی کے بعد ہونے والی یونیفارم چیکنگ کی مانند وکیل صاحب پر برس پڑے کیونکہ وہ مخصوص گاؤن زیب تن نہیں کیے ہوئے تھے۔ ریکارڈ کے لیے بتاتی چلوں کہ عموماً پنجاب کی ساری لوئر جوڈیشری وہ گاؤن پہننا گوارا نہیں کرتی جو ان کے یونیفارم کا حصہ ہے۔

خیر اس ڈانٹ ڈپٹ کے دوران ایک ممبر پنجاب بار کو ترس آ گیا وہ اٹھے اور جونیئر وکیل کو اپنا گاؤن پیش کیا تا کہ جج صاحب یونیفارم سے نظر ہٹا کر کیس پر مرکوز کر سکیں مگر شومئی قسمت جج صاحب کو یہ بھی حرکت توہین عدالت لگی اور اس ممبر پنجاب بار کونسل کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی گئی۔ وکلاء نے بہتر ہڑتالیں کیں مگر بے سود۔ حضور گرفتاری کے سوا کسی طور راضی نہ ہوئے۔ ہاں ان ہڑتالوں نے ججز حضرات کو ایک بار یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ان کے اتحاد کا کیا کیا جائے۔ انہوں نے سوچا۔ خوب سوچا۔ اور کورٹس کی تقسیم کا نوٹیفکیشن نکالا۔

نوٹیفکیشن کا مقصد بنایا سائلین کا فایدہ۔ میں ایک وکیل ہوں۔ سول پریکٹس کرتی ہوں۔ میرے سائلین اور ہمارے زیادہ تر سول وکیلوں کے سائلین بس تین بار ہمیں شکل دکھاتے ہیں پہلی کیس دیتے وقت دوسری شہادت دینے کے موقع پر اور تیسری بار وہ فیصلہ کی مصدقہ نقل لینے آتے ہیں۔ جنوری سے نوٹیفکیشن آیا سائلین کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا ہاں جیب پر پڑا کیونکہ ہم ماڈل ٹاؤن جانے کے لیے الگ سے فیس چارج کریں گے پھر بھی ہم ہر روز ماڈل ٹاؤن اور سول کورٹ کے درمیان لٹو نہیں بن پاتے۔

پر جناب صاحب بہادر چیف جسٹس صاحب کا نوٹیفکیشن بھاڑ میں چلا جاتا ہے جب ہائی کورٹ سے کسی کیس کا میسج آ جائے۔ جج صاحب 9 بجے کورٹ شروع کریں یا نہیں، آپ کا کیس ارجنٹ ہے ریڈ لسٹ ہے یا وائٹ، آپ کا نمبر پہلا ہے یا آخری آپ کو صبح 9 سے اپنی باری کے انتظار میں خوش قسمتی سے جگہ ملی تو میں عدالت میں بیٹھنا ہے یا ہجوم کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ اس دن کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کے لاہور میں اور کتنے کیس ہیں؟ یا پھر ہائی کورٹ کی ہی کسی برابر کی عدالت میں کیس ہے یا نہیں۔

جج صاحب مرضی کے مالک ہیں جو چاہے لسٹ شروع کریں جہاں سے چاہیں لسٹ شروع کریں آپ وکیل ہیں آپ کا کام چپ چاپ انتظار کرنا ہے تا کہ جج صاحب آپ کو 45 سیکنڈ سے دو منٹ تک سننے کی زحمت کریں یا پھر لسٹ لیفٹ اوور ہو جائے۔ ہائی کورٹ کو اگر سائلین کی اتنی ہی پرواہ ہے تو لسٹ میں کیس کے ساتھ وقت بھی شائع کر دیں تا کہ سائلین اور وکلاء بے جا کوفت سے بچیں۔ یقین جانیں مائی لارڈ یہی سائلین پر احسان عظیم ہو گا۔

ماڈل ٹاؤن نوٹیفکیشن کو وکلاء نے سختی سے رد کیا۔ لاہور میں دو ماہ مسلسل ہڑتال کی پنجاب میں بار ہا ہڑتالیں ہوئیں سب بے سود۔ نئے چیف صاحب آئے حالانکہ ممبر پنجاب بار والا واقع سب کو یاد تھا رضاکارانہ طور پر بار نے ہڑتال موخر کر دی تا کہ جناب یہ نہ سمجھیں کہ پریشر ڈالا جا رہا ہے۔ مگر اس دوران کئی وکیلوں پر بے جا 7 ATA کی دفعات کے تحت پرچے کٹنے لگے۔ قائدین کی آسانی کے لیے بتاتی چلوں یہ دفع سنگین دہشتگردوں پر لگتی ہے جنہوں نے اپنے ایکٹ سے معاشرے کو سنگین جانی نقصان پہنچایا یا پھر خطرے میں ڈالا ہو۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کی دسیوں ججمنٹس ہیں کہاں یہ دفع لگ سکتی ہے کہاں نہیں۔ اور انہیں ججز کے ایما پر یہی دفع وکیلوں پر بے دریغ لگ رہی ہے۔ مانا جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر مائی لارڈ ہم وہ برادری ہیں جو ایسی لاٹھیوں سے نہیں ڈرتے۔

گزشتہ کئی روز سے پر امن احتجاج اور ہڑتال کی طرح 8 مئی کو وکلاء نے ریلی نکالی اور ہائی کورٹ بار جا کر ہاؤس (بار کا اجلاس) کرنا چاہا۔ مگر چیف جسٹس صاحب کے حکم پر پولیس نے جو کیا وہ سب دیکھ چکے ہیں۔ سب جانتے ہیں وکلاء پر امن تھے۔ اور بس ہائیکورٹ داخل ہونا چاہتے تھے۔ کچھ موسمی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ وکلاء کا کوئی بڑا کاز نہیں تھا وہ عدلیہ کی آزادی کے لیے نکلتے چھ ججز کے خط کو موضوع بناتے۔

تجزیہ کرنے کے لیے ہمارے ہاں عموماً زبان استعمال ہوتی ہے دماغ نہیں۔ بار کیونکہ بنچ کے لیے 43 ڈگری گرمی میں سڑکوں پر خوار ہو جب چیف کے کہنے پر پولیس ان پر تشدد کرے؟ اس سارے معاملے میں پنجاب حکومت کا کردار بے حد سفاک ہے۔ آٹھ گھنٹے جی پی او چوک میں وکلاء پر تشدد ہوا ہمارے سینئر رہنما زخمی ہوئے کئی ساتھی گرفتار ہوئے اور میڈم سی ایم (ہماری سی ایم) بس ایک بیان دے کر الگ ہو جائیں کہ تصادم کسی کے مفاد میں نہیں ہے؟

حالات بتاتے ہیں بنچ عنقریب بار کو تڑپ کر پکارے گا۔ اس وقت بار اپنے کندھے پیش نہ کرے۔ آج جو جسموں پر زخم لیے بیٹھے ہیں کل بنچ کے لیے پھول لے کر مت جائیں۔ عام وکیل اس محاورے سے اکتا گیا ہے ”بار اور بنچ ایک ہی سکے کے دو رخ“ نہیں ہمارے انصاف کے نظام کی گدھا گاڑی کے دو پہیے ہیں اس میں ایک فورچونر کا ہے ایک مہران کا۔ فی الحال فورچونر والا عدلیہ کا ہے۔ مگر وقت کی یہی خوبصورت بات ہے یہ گھوم پھر کر سب پر آ جاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments