کالم لکھنا: قلم سے جنگ کے مترادف ہے


ہر صاحب علم پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنی علم و ہنر کا استعمال معاشرے کی فلاح و بہبودکے لئے بھی کرے، کیونکہ ہمارے پیارے نبی نے قلم کی طاقت کو سب سے بہترین طاقت قرار دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے علم و ہنر سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ انسان کا اصلی شناخت اس کا علم و فن ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اس کا اخلاق و کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اگرانسان کے پاس علم کی درجنوں ڈگریاں موجود ہو مگر اس کا اخلاق و کردار، انداز و اطوار اور عادات و خصائل ٹھیک نہیں تو ایسے شخص کے لئے علم و فن کا اعلی مقام حاصل کرنا بے معنی ہے۔

الحمدللہ آج ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد بھی زیادہ ہے لیکن اگر چشم حقیقت سے دیکھا جائے تو یہی پڑھے لکھے نوجوان ہاتھ میں ڈگریاں تھامیں کرپٹ اور بے ضمیر سیاست دانوں کے درپر نوکری کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اس تمام تر صورت حال کے ذمہ دار ہم خود ہیں کیوں کہ ہم نے ان کرپٹ سیاستدانوں کو اپنے اوپر مسلط کیا ہے جنہوں نے ہماری کئی نسلوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا۔ جنہوں نے ہمارا تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کیا۔

آپ گلگت بلتستان کی مثال لے لے، پیپلز پارٹی کی دور حکومت میں محکمہ تعلیم کے اندر بے تحاشا کرپشن ہوئی جو ہر کوئی جانتا ہے۔ ظالموں نے ایسی کرپشن کی کہ آج تحقیقاتی ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگوں کو معاشرے میں جائز مقام نہیں ملا۔ جس کو الف اور ب میں فرق کرنا نہیں آتا ان کو اونچے عہدوں پر بھرتی کیا گیا ہے لاکھوں اور کروڈوں روپے تعلیم پر خرچ کرنے والے بالآخر خود کشیوں پر اتر آئے ہیں۔

آخر یہ لوگ خود کشی کیوں کر رہے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ جب خود کشی کا کیس پولیس کے پاس پہنچ جاتا ہے تو حقائق کو چھپایا جاتا ہے کیوں کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ کو انہی کرپٹ سیاست دانوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ گزشتہ چالیس سالوں سے ان کرپٹ سیاستدانوں نے ظلم و جبر کی مثال قائم کر دی اور ہم جانتے ہوئے بھی خاموش رہے ہیں کیونکہ ہم آج تعلیم یافتہ ہیں لیکن ترقی یافتہ نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش رہے ہیں کہ ہمارے سیاست دان کرپٹ ہیں۔

جب بھی کسی شخص نے معاشرے میں ہونے والی ان نا انصافیوں کے خلاف اپنی قلم کے ذریعے یا کسی اور فورم پر آواز بلند کی ہے تو بے ان بے ضمیر سیاستدانوں نے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ان کی آواز بند کردی ہے۔ اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگ بھی دو روپے کی خاطر اپنی ضمیر کا سودا کر گئے ہیں۔ اور یوں ہمارا معاشرہ دور جدید میں بھی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے۔ کیا وجہ ہے بینکوں سے پیسے لے کر اپنا گزارا کرنے والے آج مہنگی مہنگی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں؟

اس بات سے ہر شخص واقف ہے جب بھی کوئی فلاحی ادارے کی طرف سے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی پروجیکٹ دیا گیا تو یہ سماج دشمن عناصر علاقے کی تعمیرو ترقی کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ذاتی مفادات کی خاطر نت نئے اور اوچھے ہتکنڈے استعمال کرکے اس فنڈ کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ یہی ان کا مقصد ہے کہ یہ فنڈز ان کو ملے اور کام وہی چند لوگ کروائے تاکہ پہلے ان کی ضروریات پوری ہو غریب عوام بھاڈ میں جائے ان کے باپ کا کیا جاتا ہے۔

آخرکب تک ہم خاموش رہیں گے؟ اور بڑی مزے کی بات تو یہ ہے کہ جب کسی شخص نے ان کے خلاف آواز اٹھائی تو ان کو ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات چلانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ لیکن اب ان کے خلاف ہر گلی، ہر محلے اور ہر فورم سے آواز اٹھے گی اب مزید نا انصافی ہم برداشت نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم اپنی قلم کے ذریعے غریب عوام کے ساتھ ہونے والے نا انصافیوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے چاہیں اس میں ہماری جان بھی کیوں نہ چلی جائے۔ یہ ہم سب کافرض ہے اگر اب بھی ہم خاموش رہے تو ہماری آنے والی نسلیں بھی غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے اور قیامت کے دن اللہ کے سامنے ہم جواب دہ ہوں گے اور روز محشر میں اللہ ہمیں ہرگز معاف نہیں کر یگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).