پی ٹی وی کو کیسے زندہ رکھا جائے؟


پاکستان کے دیگر نجی انٹرٹینمنٹ ٹی وی چینلز یو ٹیوب پر اپنے چینلز چلا کرلاکھوں کروڑوں روپے کما بھی رہے ہیں لیکن اس کے برعکس پی ٹی وی اپنے روشن ماضی کے تاریخی مواد کے لئے مخصوص ایسا یو ٹیوب چینل آج تک کیوں نہ بنا سکا، اس سوال کا جواب نہ صرف پی ٹی وی کی انتظامیہ بلکہ نئے پاکستان کی وزارتِ اطلاعات و نشریات اور ان قائدین کو بھی دینا چاہیے جو پی ٹی وی میں تبدیلیوں کے گن گاتے رہے ہیں۔

یہ پیش گوئی کرنا بہت مشکل نہیں ہے کہ پی ٹی وی کی طرف واپسی، ماضی کے مواد اور انداز پر مخصوص ٹیلی ویژن چینل اور پی ٹی وی کے اپنے آفیشل یو ٹیوب چینل جیسے مطالبات وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ شدت سے سامنے آئیں گے اور ذمہ داران کو ان کا جواب دینا ہو گا۔ ہمارا موجودہ الیکٹرانک میڈیا تباہی کی طرف آگے بڑھ رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب اس کو مزاحمت کا سامنا کرنا ہو گا۔ ذمہ داران کو کیوں نہیں اس مزاحمت سے پہلے ہی اچھے اور بہتر فیصلے کر کے اپنی غلطیوں کا ازالہ کرلینا چاہیے اور پاکستانیوں کو ان کا کھویا ہوا پی ٹی وی واپس کر دینا چاہیے۔ یہاں ہم پی ٹی وی کے چند بہترین اور شاہکار ڈراموں کا ذکر کرنا چاہیں گے جو ابھی تک ہمارے دل و دماغ میں ہمکتے ہیں۔

خدا کی بستی

شوکت صدیقی کے تحریر کردہ اس ناول کو پہلی بار 1969 اور پھر 1974 میں دوسری بار ڈرامے کی شکل دی گئی۔ ’خدا کی بستی‘ میں ایک مفلوک الحال مگر باعزت خاندان کے شب و روز کو موضوع بنایا گیا ہے جو قیامِ پاکستان کے بعد ایک بستی میں آباد ہو جاتا ہے۔ یہاں اس کا ہر طرح کے معاشرتی و معاشی مسائل اور با اختیار لوگوں کی ریشہ دوانیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس ڈرامے میں زندگی کی تلخ حقیقتیں، کمزوروں کی بے بسی، طاقتوروں کے استحصالی رویے، مذہب کے ٹھیکیداروں کی من مانیاں، غرض ہمارے معاشرے کا ہر رخ موجود تھا۔ اسی لیے یہ ڈرامہ اپنے دور کا مقبول ترین ڈرامہ تھا۔ اس کی ہر قسط کے موقع پر گلیاں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے، یہاں تک کہ اکثر شادیوں کی تاریخ طے کرنے کے موقع پر بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ اس روز ’خدا کی بستی‘ نے نشر نہ ہونا ہو۔

وارث

جاگیرداری نظام کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کرنے والا یہ ڈرامہ معروف شاعر امجد اسلام امجد کے قلم سے تحریر کیے گئے مضبوط سکرپٹ اور ہدایتکار نصرت ٹھاکر اور یاور حیات کی گرفت کی بدولت ماسٹر پیس قرار دیا جا سکتا ہے۔ وارث جاگیردارانہ نظام کے نشیب و فراز، دو جاگیرداروں کے مابین دشمنی، با اثر خاندان کے اندرونی جھگڑوں اور اس نظام سے جڑی سیاست کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے جس میں ذاتی مفادات کو ہر رشتے اور ہر شے پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس ڈرامے کے پرستار چوہدری حشمت کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کا جاندار کردار محبوب عالم مرحوم نے ادا کیا جبکہ فردوس جمال، اورنگزیب لغاری، جمیل فخری اور دیگر بھی اسے اپنی زندگی کا لازوال ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔

دھواں

پی ٹی وی کی تاریخ میں اگر کوئی ڈرامہ پہلے ایکشن پلے کا اعزاز حاصل کر سکتا ہے تو وہ ’دھواں‘ ہی ہے۔ عاشر عظیم نے اسے تحریر کیا اور انہوں نے ہی ایک پولیس افسر اور ایک خفیہ ایجنٹ کا مرکزی کردار بھی کیا، جبکہ نبیل، نازلی نصر اور نیئر اعجاز کے کرداروں کو بھی آج تک یاد کیا جاتا ہے۔ سجاد احمد کی ہدایات میں بننے والے اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں اور پولیس کی کمزوریوں کی بہت خوبصورتی سے عکاسی کی گئی تھی جن سے نمٹنے کا بیڑاچند نوجوان اٹھاتے ہیں، جن کی دوستی بھی دیکھنے والوں کے ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ اس ڈرامے کا المیہ اختتام بھی انتہائی پُراثر ثابت ہوا اور آج بھی اسے کلاسیک سمجھا جاتا ہے۔

ہوائیں

ہوائیں پی ٹی وی کا وہ ڈرامہ ہے جو آج بھی اُن لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہے جنھوں نے اسے دیکھا تھا۔ حیدر امام رضوی کی ہدایات اور فرزانہ ندیم سید کی تحریر سے سجے اس ڈرامے میں محمود علی، فرید نواز بلوچ، غزالہ کیفی، قیصر خان نظامانی، کومل رضوی، قاضی واجد، ہما نواب اور عبداللہ کادوانی جیسے اداکاروں نے کام کیا مگر جو شخص لوگوں کے ذہنوں پر چھایا وہ طلعت حسین تھے۔ یہ ڈرامہ ایک خاندان کی مشکلات کے گرد گھومتا ہے جس کے سربراہ کو قتل کے جھوٹے الزام میں پھانسی کی سزا ہوجاتی ہے، اس الزام کو ختم کرنے کے لیے اس کی کوششیں اور جدوجہد دیکھنے والوں کے دلوں کو نرم کردیتی ہیں۔

دھوپ کنارے

یہ ڈرامہ حسینہ معین کی تخلیقی صلاحیتوں کا شاہکار تھا جب کہ ہدایات راحت کاظمی کی بیگم اور معروف اداکار ساحرہ کاظمی نے دی تھیں۔ مرینہ خان اور راحت کاظمی کو اس ڈرامے کے بعد بہترین آن سکرین جوڑا تسلیم کیا گیا۔ ڈاکٹروں کی زندگی پر بننے والا یہ ڈرامہ سنجیدہ راحت کاظمی اور شوخ و چنچل مرینہ خان کے گرد ہی گھومتا ہے اور ان کی کیمسٹری نے اس ڈرامے کو پی ٹی وی کی تاریخ کے مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک بنا دیا۔

الفا براوو چارلی

اپنے دور کے اس مقبول ترین ڈرامے کے ہدایت کار شعیب منصور تھے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے تعاون سے بنائی گئے اس ڈرامہ سیریل میں تین دوستوں کی کہانی بیان کی گئی جو زندگی کے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہیں۔ کاشف کی فوج کو خیرباد کہہ دینے کی خواہش اور فراز کی اپنے دوست کو بیدار کرنے کے لیے کی جانے والی شرارتیں آپ کو اُس وقت تک اسکرین پر نظریں جمائے رکھنے پر مجبور کردیں گی جب تک کہ سنجیدہ معاملات شروع نہیں ہو جاتے۔

اسی طرح شرارتی کاشف کا سیاچن گلیشیئر پہنچ کر بتدریج سنجیدہ ہونا اور اپنے ملک کے لیے جان کو داؤ پر لگا دینے کی ادا تو سب پر جادو سا کر دیتی ہے۔ پاک فوج کے لیے دل میں محبت جگانے والی اس سیریل نے اپنے دور میں ہر طرح کے ریکارڈز توڑ دیے تھے اور اب بھی اسے دیکھ کر وہی مزہ آتا ہے جو پہلی دفعہ دیکھ کر آتا تھا۔

جانگلوس

دو قیدی لالی اور رحیم داد کے جیل سے فرار کے بعد وسطی پنجاب کے پسِ منظر میں چلنے والے اس ڈرامے کو کون بھول سکتا ہے۔ شوکت صدیقی کے ایک اور بہترین ناول کو بنیاد بنا کر پی ٹی وی نے 1989 میں اس ڈرامے کو نشر کیا اور اس نے اپنے دور میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ ایم وارثی اور شبیر جان قیدیوں کے مرکزی کردار میں موجود تھے تو سلیم ناصر، شگفتہ اعجاز، ظہور احمد، اور دیگر نے بھی اپنے کریکٹرز سے بخوبی انصاف کیا۔ ’جانگلوس‘ میں با اختیار طبقے کے تاریک چہرے سے نقاب نوچا گیا تھا اور بظاہر یہی وجہ ہے کہ تین حصوں پر مشتمل ناول کا ایک ہی حصہ ٹیلیویژن اسکرین کی زینت بنا تھا کہ اور پھر یہ ڈرامہ بند کروا دیا گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3