دلی فسادات: سوشل میڈیا ایک مرتبہ پھر جلتی پر تیل کا باعث بنا؟


دہلی

ایک انڈین سیکیورٹی اہلکار نئی دہلی میں فسادات کے دوران جلائی جانے والی دکانوں کے پاس سے گزر رہا ہے

بدھ 26 فروری کو جتِن آنند جب دہلی میں ہونے والے مذہبی فسادات میں ہوئی ہلاکتوں کا پتہ لگانے گرو تیغ بہادر ہسپتال پہنچے تو ان کی ملاقات محمد قادر سے ہوئی جو اپنے چھوٹے بھائی محمد آفتاب کی تلاش میں وہاں آئے تھے۔

انڈیا کے انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ میں بطور صحافی کام کرنے والے جتِن آنند سے جب محمد قادر نے اپنے 20 سالہ بھائی کو تلاش کرنے میں مدد مانگی تو پہلے انھیں سمجھ نہیں آیا کہ وہ بطور صحافی یا عام شہری ان کی کیسے مدد کریں۔

پھر انھوں نے اپنا موبائل اٹھایا اور محمد قادر کے ہاتھ میں موجود ان کے بھائی کی تصویر کھینچی اور اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اسے شیئر کرتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ آفتاب کو ڈھونڈنے میں ان کی مدد کریں۔

23 فروری کو انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں شروع ہونے والے فسادات میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو دہلی بڑے ہسپتال گرو تیغ بہادر لانے کا سلسلہ جاری تھا، اس لیے جتِن 29 فروری کو ایک بار پھر وہاں گئے تو اتفاقاً ان کی ملاقات محمد قادر سے دوبارہ ہوئی جو اب بھی اپنے بھائی کو تلاش کر رہے تھے۔

جتِن نے ایک بار پھر محمد قادر اور ان کا فون نمبر اپنے ٹوئٹر اور اپنے دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شئیر کیا اور لوگوں سے محمد آفتاب کی تلاش جاری رکھنے کی اپیل کی۔

یہ بھی پڑھیے

دلی ہنگامے: ہلاکتوں کی تعداد 23, کم از کم 200 زخمی

دلی فسادات: افواہوں نے بتا دیا کہ دہلی کس قدر سہمی ہوئی ہے

دلی فسادات: ’گولہ بارود کی آواز ذہن پر نقش ہے، کیسے گھر جاؤں‘

2 مارچ کو جتِن کو ایک شخص نے بتایا کہ رام منوہر لوہیا ہسپتال میں ایک نالے سے ملنے والی لاشیں لائی گئی ہیں جن میں ایک 20 سالہ نوجوان کی لاش بھی شامل ہے۔

جتِن جب لاش کی شناخت کے لیے وہاں پہنچے تو ان کو معلوم ہوا کہ نالے سے ملنے والی لاش آفتاب کی ہی ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ محمد قادر کو اس بارے میں بتاتے وہ وہاں پہنچ گئے اور اپنے بھائی کو لاش کی شناخت کرنے کے بعد اپنے ہمراہ لے گئے۔

جتِن کو دکھ ہے کہ وہ محمد قادر کے بھائی کو زندہ تو نہ ڈھونڈ سکے لیکن ان کی کچھ حد تک مدد ضرور کر دی۔

دلی، دہلی،

دلی کے علاقے اشوک نگر میں واقع بڑی مسجد، جس پر شرپسندوں کی جانب سے 26 فروری کو حملہ کیا گیا تھا

لیکن جتِن وہ واحد شخص نہیں تھے جنہوں نے سوشل میڈیا کو دہلی فسادات میں متاثرہ ہونے والے افراد کی مدد کے لیے استعمال کیا۔

آشیش نے بھی ان فسادات میں اپنا گھر بار کھو دینے والوں کی مدد کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔ انھوں نے ایسے متعدد افراد کی کہانیاں اپنے ٹوئٹر پر شئیر کرنی شروع کیں جو ان فسادات میں اپنے پیاروں کے ساتھ ساتھ اپنا گھر بار بھی کھو چکے تھے اور لوگوں سے ان کے لیے عطیات کی اپیل کی۔

آشیش نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے صرف سوشل میڈیا کی مدد سے بہت سے متاثرین تک امداد پہنچائی-

لیکن جہاں جتِن اور آشیش جیسے لوگ سوشل میڈیا کو لوگوں کی مدد کے لیے استعمال کر رہے تھے وہیں بہت سے ایسے بھی تھے جنھوں نے اس کے ذریعے جھوٹی افواہیں پھیلائیں اور لوگوں کو نفرت اور تشدد پر اکسایا۔

سوشل میڈیا کا جلتی پر تیل کا کام

ایک ایسے وقت میں جب متعدد انڈین اخبارات اور ٹی وی چینلز پر صرف بی جے پی اور نریندر مودی نواز بیانیہ نشر کرنے کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں، تو بہت سے لوگوں کے خیال میں سوشل میڈیا تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔

لیکن دہلی فسادات کے دوران سوشل میڈیا کا کردار کچھ زیادہ قابل ستائش نہیں رہا۔

بلکہ اگر ان فسادات کا نقطہ آغاز تلاش کریں تو وہ بھی کہیں نہ کہیں سوشل میڈیا سے ہی جا ملتا ہے۔ ایک رائے کے مطابق دہلی فسادات کا آغاز اس وقت ہوا جب بی جے پی کے رہنما کپِل مشرا کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی جس میں انھیں دہلی پولیس کو تین دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ انڈین شہریت سے متعلق متنازعہ قانون کے خلاف شاہین باغ میں جاری دھرنے کو ختم کروائیں ورنہ وہ خود کوئی کارروائی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

بی جے پی نے کپِل مشرا پر لگائے جانے والے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

دلی، دہلی،

کپل مشرا نے حال ہی میں عام آدمی پارٹی چھوڑ کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے

کپِل مشرا کی اس ویڈیو کو ابھی 72 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ پتھروں اور لاٹھیوں سے لیس چند افراد نے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر حملہ کر دیا اور اس کے بعد شروع ہونے والے تشدد نے شمال مشرقی دہلی کے کئی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس میں 53 افراد ہلاک کر دیے گئے، جبکہ متعدد گھروں، دکانوں، سکولوں اور مساجد کو آگ لگا دی گئی۔

اس دوران ایک طرف تو متعدد فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس سے ایسی معلومات شیئر کی گئیں جو درست نہیں تھیں، تو دوسری طرف ایسی معلومات کو بھرپور انداز میں غلط قرار دینے کا سلسلہ بھی جاری رہا جو درحقیقت درست تھیں۔

صحافی رعنا ایوب اور چند دیگر ٹوئٹر صارفین نے ایک ویڈیو شئیر کی جس میں ایک تباہ شدہ مسجد کے مینار پر ایک شخص کو ہندو مذہب کی علامت نارنجی چھنڈا لگاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد متعدد ٹی وی چینلز اور ٹوئٹر صارفین کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ ویڈیو یا تو ترمیم شدہ یا پھر پرانی ہے، یا پھر ایسا کوئی واقعہ دہلی میں سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔

https://twitter.com/ani/status/1232338612131225600?s=21

جس کے بعد رعنا ایوب بھی اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کرنے پر مجبور ہو گئیں، لیکن جب سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی معلومات کی درستگی جانچنے والی ویب سائٹ الٹ نیوز نے اس ویڈیو کی جانچ پڑتال کی تو معلوم ہوا کہ یہ ویڈیو درست ہے اور یہ واقعہ 25 فروری 2020 کو اشوک نگر میں پیش آیا۔

https://twitter.com/free_thinker/status/1232387042895683586

اسی دوران واٹس ایپ اور سوشل میڈیا ویب سائٹس کے ذریعے افواہیں اور غلط معلومات بھی پھیلائی گئی۔ دہلی میں فسادات پھوٹنے کے ایک ہفتے بعد واٹس ایپ کے ذریعے پر تشدد واقعات کے دوبارہ شروع ہونے کی جھوٹی خبریں پھیلیں جس سے شہریوں میں افراتفری مچ گئی اور دہلی پولیس اور کئی رہنماؤں کو خود یقین دہانی کروانی پڑی۔

لیکن اس سب کے دوران جو سوشل میڈیا کا سب سے بھیانک استعمال سامنے آیا وہ پر تشدد واقعات کی براہ راست نشریات تھی۔ ان فسادات کے دوران توڑ پھوڑ اور تشدد میں ملوث چند ایسے افراد بھی تھے جو یہ سب کچھ فیس بک لائیو کے ذریعے بلا خوف نشر کرتے رہے۔ ان ویڈیوز میں ان مشتعل افراد کو نفرت آمیز نعرے لگاتے اور تشدد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

https://twitter.com/zoo_bear/status/1233706244428333056?s=21

پولیس کا ردعمل

سوشل میڈیا پر جھوٹی اور نفرت آمیز ویڈیوز سامنے آنے کے بعد دہلی پولیس نے عوام سے ایسے مواد اور اس کو شئیر کرنے والے افراد کی نشاندہی کرنے کی درخواست کی اور معلومات دینے والے کے لیے 10 ہزار روپے انعام کا بھی اعلان کیا۔

اس کے علاوہ دہلی پولیس اپنے باضابطہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے لوگوں کو جھوٹی افواہوں کے خلاف خبردار بھی کرتی رہی۔

https://twitter.com/vijaita/status/1235412767319814147?s=21

https://twitter.com/dcpnewdelhi/status/1234865936789692416?s=21

سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت کا پرچار

یہ پہلی بار نہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو نفرت اور تشدد پر اکسایا گیا ہو۔

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام پر اقوام متحدہ کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ فیس بک کے ذریعے اقلیتی برادری کے خلاف نفرت پھیلائی گئی جس کے نتیجے میں روہنگیا مسلمانوں کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اسی طرح سری لنکا میں 2018 کی ایسٹر تقریبات میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد سری لنکا کی حکومت نے سوشل میڈیا پر ایک ہفتے تک کے لیے پابندی عائد کر دی گئی تھی تاکہ اس کے ذریعے غلط معلومات کو نہ پھیلایا جائے۔

اسی طرح سری لنکا میں 2019 میں جب ایک مسجد پر حملے کا واقع پیش آیا تو حکومت نے مذہبی فسادات روکنے کے لیے ایک بار پھر فیس بک اور واٹس ایپ پر پابندی عائد کر دی تھی۔

دہلی میں ہونے والے حالیہ فسادات کے دوران انڈین حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی تو عائد نہیں کی البتہ انڈین اخبار دی ہندو کے مطابق وزارت داخلہ نے انٹرنیٹ کمپنیوں کے عہدے داروں سے ملاقات میں اپنے تحفظات کا اظہار ضرور کیا۔

دہلی پولیس کی جانب سے اشتعال انگیز مواد کی نشاندہی کے باوجود فیس بک اور ٹوئٹر کی جانب سے بر وقت کارروائی نہ کرنے پر انڈین وزارت داخلہ نا خوش دکھائی دی۔

نفرت آمیز مواد اور سوشل میڈیا پالیسی

سوشل میڈیا پر نفرت آمیز مواد کی اشاعت کو روکنے کے لیے فیس بک ٹوئٹر اور یوٹیوب کی اپنی اپنی پالیسیاں ہیں اور یہ ہر ملک کے لحاظ سے بھی مختلف ہیں۔ انڈین قوانین کے تحت حکومت یا پولیس کی جانب سے نشاندہی کے چھتیس گھنٹوں کے اندر اندر یہ کمپنیاں اس مواد کو ہٹانے کی پابند ہیں تاہم دہلی فسادات کے بعد اب کئی لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اشتیال انگیز مواد کو ہٹانے کے لیے درکار 36 گھنٹے کا وقت بہت زیادہ ہے اور تب تک ایک چنگاری بھڑک کر آگ بن چکی ہوتی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32721 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp