پولیو سے متاثرہ عثمان کی کہانی


دو بوند میری زندگی کو مکمل کر سکتی تھی۔ لیکن میرے والدین نے اس میں کوتاہی برتی مجھے ان دو بوندوں سے محروم رکھا جس کی وجہ سے میں اب ایک نامکمل انسان کی زندگی جی رہا ہوں۔ انہوں نے اپنی باتوں میں توقف کرتے ہوئے ا اپنے ذہن پر زور دیا اور پھر گویا ہوا یہ بھی ہو سکتا ہے میری والدین کو اس موذی مرض کے حوالے سے اس وقت معلومات ہی نہ ہو کیونکہ ہمارا اس وقت بسیرا پہاڑوں کے دامن میں ہوا کرتا تھا ہم پاوندوں کی زندگی جی رہے تھے۔

عثمان اپنی ماضی کو کریدتے ہوئے مسلسل بولے جا رہے تھے اور کہے رہے تھے جب میں چل پھرنے لگا اور اپنے دوستوں سے کھیلتا تھا تب مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے دوستوں کی طرح چل پھر نہیں سکتا۔ میرے دوستوں کو بھی اس بات کا ادراک ہوگیا۔ تو وہ مجھے لنگڑے کے نام سے چھیڑنے لگے جس کی وجہ سے میں احساس کمتری کا شکار ہونے لگا اسی لیے خود کو دوستوں سے الگ رکھنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرتا تھا۔ امی سے شکایت روز کا معمول تھا کہ امی میں کیوں باقی بچوں کی طرح نہیں ہوں۔ کیا میں انسان نہیں؟ بچپن میں بے گناہ بھی تھا تو پھر مجھے کس بات کی سزا ملی اور سزا بھی ایسی سزا کہ تمام عمر مجھے یہ سزا جھیلنی پڑے گی۔

عثمان نے زندگی کے پینتیس بہاریں دیکھیں ہے۔ اب وہ اسٹنٹ مین ہے معذوری کو اس نے اپنی کمزوری نہیں بنایا۔ لیکن ان کے مطابق بچپن میں ان کی والدین کی کوتاہی، غلطی یا لاعلمی جو بھی کہے لیکن اس عمل نے اس کا آدھا وجود چھین لیا۔ اب یہ بیماری ان کی زندگی بھر کا روگ ہے۔

عثمان سوچنے کے بعد یک دم بول پڑا یار۔ میں جس کرب سے گزر رہا ہوں بہت سے والدین اب بھی دانستہ طور پر چاہتے ہے کہ ان کے بچے بھی اسی کرب سے گزرے۔ اس دور میں جہاں معلومات کا ہر طرف دریا بہہ رہا لیکن اس کی باوجود لوگ سازشی تھیوریز کے شکار ہے۔ اور افسوس کن امر یہ ہے کہ ان سازشی تھیوریز کو من و عن و سچ بھی تسلیم کرتے ہیں اس کے باوجود کہ معاشرے میں میرے طرح معذور پولیو سے متاثرہ لوگ ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ اور ان کواس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ اگر خدانخواستہ ان کا بچہ یا بچی اس موذی مرض سے متاثر ہوا تو پھر وہ اپنے بچے کو یہی جواب دے گا کہ بیٹا یا بیٹی میں نے آپ کو اس لیے پولیو کے دو قطرے نہیں پلائے کیونکہ فلاں نے کہا تھا کہ پولیو ویکسین مغرب کی سازش تھی جو آپ کے لئے رچائی گئی تھی۔

عثمان نے عالمی ادارے صحت کے اعداد و شمار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 1990 سے لے کر اب تک پاکستان میں بیس ہزار سے زائد لوگ اس موذی مرض سے متاثر ہو کر عمر بھر کے لئے معذور ہوئے۔ ان معذور افراد میں بچیاں بھی شامل ہے مجھے یقین ہے سازشی تھیوریز سے متاثرہ اس معاشرے نے ان بچیوں کو اس لیے قبول نہیں کیا ہے کیونکہ وہ معذور ہے اب وہ دوسرے کی محتاج ہے۔ ا ب اس کا ذمہ دار کون ہے ان پر کیا گزر رہی ہوگی کوئی ہے جو ان کا درد محسوس کرے۔

نہیں ہے کیونکہ یہ منفی ذہنیت کا معاشرہ ہے۔ یہاں منفی باتوں کو لوگ بہت تیزی سے پھیلاتے ہیں۔ لیکن مثبت بات کوئی سوچتا نہیں۔ پولیو تو ان کو سازش لگتی ہے لیکن دیگر بیماریاں تبرک اس معاشرے میں اہل علم سے پوچھنے کا کوئی رحجان نہیں بس اس بات پر یقین کرلیتے ہیں، کہ فلاں نے یہ کہا کہ یہ ایسا ہے فلاں کا علمی سطح کیا ہے اس بارے میں کوئی سوچتا ہی نہیں ہے۔

عثمان نے لرزتے ہوئے ہاتھ جوڑتے ہوئے التجاء کی کہ خدارا اپنے بچوں کو میری طرح آدھی زندگی مت دو۔ اس دنیا میں سب کو صحت مند رہنے کا حق ہے۔ لیکن افسوس ہم یہ حق اجتماعی طور پر اپنے بچوں سے چھین رہے ہیں۔ رواں سال میں اب تک 73 بچے اس موذی مرض کا شکار ہوچکے ہیں اور اس کا وار مسلسل جاری ہے۔ دنیا نے اس موذی مرض کو اکھاڑ کر پھینک دیا ہے لیکن ہم آج تک اس کے شکار ہورہے ہیں۔ والدین اس یقین کے ساتھ مت رہیں کہ ان کے بچے محفوظ ہیں ہر بچہ ہمارے معاشرتی رویوں کی وجہ سے اس مرض کا شکار ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).