آہستہ بولیں! ایک ماں مقتولہ بیٹی کی نعش کے ساتھ رورل ہیلتھ سنٹر اوچ شریف کے فرش پر سو رہی ہے


زیر نظر تصویر دراصل ہمارے بانجھ بنجر سماج کی بے حسی کی ”مردہ“ مثال اور سسکتی، بلکتی، کرلاتی انسانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بلکہ اس خون آشام معاشرے میں درندگی اور شرمندگی کے درمیان پھنسی زندگی کا بوجھ ڈھوتے ہوئے کبھی کبھی تو ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ من حیث القوم ہم ابھی بھی وائی کنگز کے دور میں جیتے ہیں۔

گزشتہ روز حق مہر سے دستبردار نہ ہونے کے ”جرم“ میں اپنے ”مجازی خدا“ کی ”شقاوت قلبی“ کا نشانہ بننے والی نوبیاہتا دلہن کی نعش رورل ہیلتھ سنٹر اوچ شریف کے باہر اسٹریچر پر پڑی ہے جبکہ اس کی حرماں نصیب ماں ہسپتال کے فرش پر لیٹ کر نئے پاکستان میں سستے ”انصاف“ کے خواب دیکھ رہی ہے۔

ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ ہسپتال کے ڈاکٹرز، طبی عملہ، پولیس اہلکار سمیت عام شہری بھی ”وافر تعداد“ میں اکٹھے ہو کر اس ”تماشے“ سے ”محظوظ“ ہوتے رہے تاہم کسی کے دل میں غیرت و عبرت کی اتنی رمق بھی نہ تھی کہ اس بوڑھی ماں کو دلاسا دیتے ہوئے اس کے لئے چارپائی یا بنچ کا انتظام کرتا۔

آئیے! اپنی نعش اپنے کاندھوں پر اٹھا کر اپنی اجتماعی بے حسی اور بے بسی کا نوحہ پڑھتے ہیں اور فیض احمد فیض کو یاد کرتے ہیں۔

آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہ جہاں، والی ما سوا، نائب اللہ فی الارض، دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤ ں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھا گئے ہیں
ان بیاہتاؤں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹڑیوں اور گلیوں، محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشا ک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینے میں جلنے کی بو
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحاب طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صر صر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).