مولانا محمد یوسف اصلاحی کی قرآنی خدمات


مدرسۃ الاصلاح، سرائے میر، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا، کو قرآنی خدمات کے حوالے سے امتیازی شان حاصل ہے۔ فکر فراہی سے وابستہ خادمان قرآن کی پوری ایک کہکشاں ہے جس کی نورانی کرنوں سے پوری بیسویں صدی منورہوئی ہے۔ پروفیسر ابوسفیان اصلاحی صاحب نے اصلاحی فضلاء کی قرآنی خدمات پر تقریباً تین سو صفحات پر مشتمل ایک وقیع کتاب تیار کی ہے، جو پروفیسر خلیق احمد نظامی مرکز علوم القرآن، علی گڑھ سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں ان دس اصلاحی فضلاء کی قرآنی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جنہوں نے قرآنیات پر گراں قدر کام کیا ہے۔ ان میں سب سے پہلا نام مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم کا ہے۔

مولانا اختر احسن اصلاحی کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی، صاحب ”تدبر قرآن“ کی رائے ہے کہ وہ یوں تو ان کے ہم درس ہیں مگر قرآنی علوم وفنون پر ان کی گہر نظر ہونے کے باعث وہ ان کے لیے استاد جیسا مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تفسیر ”تدبر قرآن“ میں ان کی تبحر علمی سے خوب استفادہ کیا ہے۔ مولانا اختراحسن اصلاحی علامہ حمید الدین فرا ہی کے، جنہیں علامہ سید سلیمان ندوی نے بجا طور رپراپنے دور کا ابن تیمیہ قرار دیا ہے، ان کے تمام شاگردوں میں سب سے زیادہ ذہین، باصلاحیت اور مطیع وفرماں بردار طالب علم تھے، خود علامہ کی شفقتیں اور محبتیں بھی جتنی ان کو حاصل رہیں اتنی ان کے تمام شاگردوں میں کسی اور کو حاصل نہیں رہیں۔

مولانا امین احسن اصلاحی کا بیان ہے کہ ”مولانا اختر احسن اگرچہ بہت کم سخن آدمی تھے، لیکن ذہین اور نہایت نیک مزاج۔ اس وجہ سے ان کو برابر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا خاص قرب اور اعتماد حاصل رہا۔ انھوں نے حضرت استاذ کے علم کی طرح ان کے عمل کو بھی اپنانے کی کوشش کی، جس کی جھلک ان کی زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں ہوئی اور مجھے ان کی اس خصوصیت پر برابر رشک رہا۔“

مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر وہ مزید جیے ہوتے اورمختلف امراض نے ان کی مختصر سی زندگی کو گرفتار بلا نہ رکھا ہوتا تو ان کے ذہنی وعلمی تفوق اور نیک وصالح مزاج سے خلق کثیر کو فائدہ پہنچتا۔

اصلاحی علماء کی اسی روشن کہکشاں میں ایک اہم نام مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کا بھی ہے۔ درج بالا سطور میں مولانا اختراحسن اصلاحی مرحوم کا تذکرہ بطور خاص اس لیے کیا گیا ہے کہ مولانا محمد یوسف اصلاحی نے کم وبیش تین سال ان کی خدمت میں رہ کر ان سے تفسیر قرآن کے اسرارورموز سیکھے ہیں۔ اور اس طرح وہ فراہی مکتبۂ فکر سے بالواسطہ طور پر منسلک ہو گئے ہیں۔

مولانامحمدیوسف اصلاحی مسلم دنیا کے علمی ودینی اور دعوتی حلقوں میں ایک معروف اور جانا پہچانا چہرہ ہیں۔ ان کی کم وبیش ساٹھ جھوٹی بڑی تصانیف اہل علم وقلم کے حلقوں میں قبول عام حاصل کرچکی ہیں اور داد و تحسین پاچکی ہیں۔ یہ سب تصانیف مادری زبان اردو میں لکھی گئی ہیں، تاہم کئی اہم تصانیف کے دیگر زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے ہیں۔ جن میں ’آداب زندگی‘ Etiquette of Life in Islam ’قرآنی تعلیمات‘ Teachings of the Holy Qur ’an‘ آسان فقہ ’Everyday fiqh‘ روشن ستارے ’Heroes of Islamاور‘ ختم نبوت قرآن کی روشنی میں ’Finality of the Prophet hoodخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

مولانا نے 9 جولائی 1932 کو اس عالم ناپائیدار میں آنکھیں کھولیں۔ ابتدائی تعلیم اور حفظ وتجوید کے بعد بریلی اسلامیہ انٹر کالج سے ہائی اسکول پاس کیا۔ پھر اپنے والد ماجد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالقدیم خان صاحب ؒ کی خواہش کے مطابق مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور میں داخل کیے گئے۔ مظاہر العلوم میں سال دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ آ گئے، جہاں آپ مولانا اختر احسن اصلاحی کی زیر تربیت رہے اور امتیازی نمبروں سے سند فضیلت حاصل کی۔

مدرسۃ الاصلاح سے فراغت کے ساتھ ہی آپ جماعت اسلامی ہند کے رکن بن گئے، اس وقت آپ کی عمر یہی کوئی 25 برس کی رہی ہوگی اوراسی وقت سے دعوت وتبلیغ، تصنیف وتالیف اور تعلیم وتربیت کے میدان سے ہمیشہ کے لیے وابستہ ہو گئے۔ مولانا نے اپنی اسی علمی وابستگی کے باعث 1972 ءمیں اردو زبان میں شہر رام پور یوپی سے ایک ماہنامہ ”ذکری ٰ“ کا اجرا کیا، جو ادھر ایک دہائی سے بھی زائد عرصے سے ”ماہنامہ ذکریٰ جدید“ کے نام سے آپ ہی کی ادارت میں نئی دہلی سے پابندی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔

آپ کی نگرانی میں کئی فلاحی اور تعلیمی ادارے بھی چل رہے ہیں، جن میں ایک عالم اسلام کا معروف ومقبول ادارہ ’جامعۃ الصالحات‘ بھی ہے، جو تقریباً نصف صدی سے مسلمان بچیوں اور عورتوں کی دینی وعلمی رہنمائی اور تربیت کے میدان میں بڑاکام کر رہا ہے۔ اور تقریباً 25 سال سے اس کی سرپرستی ونگرانی مولانا محترم فرمارہے ہیں۔ مولانا نے اپنی قابلیت، خدادا ذہانت اور دن رات کی محنت ولگن سے اس ادارے کو عالم اسلام کا معروف ادارہ بنا دیا ہے۔ جہاں تقریباً پورے ہندوستان سے کم وبیش دوڈھائی ہزار بچیاں ہاسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ مقامی بچیاں اس کے علاوہ ہیں۔

مولانا نے لکھنے لکھانے کا مشغلہ اپنی چھوٹی سی عمر ہی سے شروع کر دیا تھا۔ جب وہ اپنی سب سے معروف و مقبول تصنیف ’آداب زندگی‘ لکھ رہے تھے، اس وقت شاید انہیں اندازہ بھی نہیں رہا ہوگا کہ وہ اپنی پہلی ہی تصنیف سے اس قدر شہرت و پہچان حاصل کر لیں گے، اس وقت ان کی عمر یہی کوئی بیس بائیس برس تھی۔ یہ کتاب گرچہ عمر کے اس حصے میں لکھی گئی، جو عموماً پڑھنے اور سیکھنے کا دورانیہ ہوتا ہے، مگر اس کتاب نے کامیابی کے کئی ریکارڈ بنائے اور تصنیف وتالیف کے میدان میں اپنی خاص پہچان اور جگہ بنائی، جو آج تک بھی قائم اور باقی ہے۔ مولانا کا بنیادی موضوع قرآن کریم ہے، قرآنی موضوعات پر آپ کی کئی تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں، جن میں ایک اہم اور ضخیم کتاب ’قرآنی تعلیمات‘ ہے۔

مولانا محترم کی گراں قدر تصنیف ”قرآنی تعلیمات“ پر تبصرہ اس مضمون کے آخر میں کیا جائے گا، ان شاء اللہ۔ اس سے قبل تذکیرالقرآن پر مولانا کی تین مستقل تصنیفات ”تفسیر سورۂ یٰسین ’‘ ،“ تفسیر سورۃ الصف ”،“ درس قرآن ”، نیز مزید ایک دومختصر رسائل کا تذکرہ کرتے چلیں۔ مولانا نے ماہنامہ ذکریٰ میں اس کی اشاعت کی ابتدا ہی سے جو تفسیری سلسلہ شروع کیا تھا، جب اس کو عوام وخواص میں بہت پسند کیا گیا حتیٰ کہ بعض مستقل سورتوں کی تفاسیر کو الگ سے کتابی شکل میں شائع کرنے کے مطالبات زور پکڑنے لگے تو مولانا نے متعلقہ سورتوں کا از سر نو مطالعہ کیا اور ذکریٰ میں اس حوالے سے جو کچھ بھی سلسلہ واور سپر د قلم کیا تھا اس کا از سر نوجائزہ لیا۔ اس جائزے کے بعد مولانا نے دوچند اضافے کیے، ان سے ان کتابوں نے مستقل تصنیفات کی شکل اختیار کرلی۔

تفسیر سورۂ یٰسٓ :

مولانا کی کتاب تفسیر سورۂ یٰسٓ درمیانی سائز کے دوسو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، مصنف کے مختصر سے پیش لفظ کے بعد پہلے مکمل سورۂ یٰسٓ مع ترجمہ دی گئی ہے۔ اس کے بعد آیت در آیت ترجمہ وتفسیر ہے۔ تفسیر ی نکات پر ذیلی عناویں لگائے گئے ہیں، جو تعداد میں سو سے زائد ہیں۔ چند عناوین اس طرح ہیں : ’مغفرت کا قرآنی مفہوم‘ ، ’نیک کردار کا حقیقی محرک عقیدۂ آخرت‘ ، ’جوڑے جوڑے پیدا کرنا توحید کی بصیرت افروز نشانی‘ ، ’شاعر اور نبی ﷺ میں تین بنیادی فرق‘ ، ’قرآن کی تعلیم کو ہر ایک قبول نہیں کرتا‘ ، ’خدا کے عمل تخلیق کو مخلوق کی تخلیق پر قیاس نہ کرو‘ ۔

ان چند ذیلی عناوین سے کسی قدر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سورۂ یٰسٓ میں کون سا پہلو کس قدر نمایا ہے اور مولانا کا ذہن اس کی تفسیر میں کہاں کہاں اور کن کن نکات تک پہنچاہے۔ یہ تمام نکات فلسفیانہ مباحث کا دروازہ کھولنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ تذکیر کاپہلو اجاگر کرنے کے لیے ہیں اور تعلیمات قرآن کو ابلاغ کے اعلیٰ درجے پر فائزکرنے کے لیے ہیں۔ اس بات کا کسی قدر اندازہ ان وضاحتوں سے بھی ہوگا جو مولانا نے پیش لفظ میں نمبر وار چھے نکات میں بیان کی ہیں۔ یہ ایک طرح سے تفسیر میں مولانا کے غالب فکر، منہج اور طریقے کار کو بتانے کے لیے بہت کافی ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں کہ اس تفسیر میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ:

1۔ انداز عام فہم اور زبان آسان رہے،
2۔ علمی بحثوں سے بچتے ہوئے، سادہ انداز میں قرآن کو سمجھنے کی طرف رہنمائی ہو،
3۔ قرآن کو قرآن کے ذریعے سمجھنے کی راہ کھلے،
4۔ اور قرآن کو ایک تحریک کی حیثیت سے متعارف کرایا جائے،
5۔ دعوت وتحریک اور حکمت وتربیت کے پہلو پر خصوصی توجہ دی جائے،

6۔ قرآن کو سمجھنے کا ذوق ابھرے، قرآن سے شغف بڑھے اور دل میں اس عظیم کتاب کی واقعی قدر وعظمت پیدا ہو۔

تفسیر سورۃ الصف:

اس کتاب کے مضامین بھی ابتداءً ماہنامہ ذکریٰ میں سلسلہ وار شائع ہوئے تھے، جو بہت ہی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے گئے تھے۔ پھر احباب کے مشورے سے ان مضامین کو یکجا کر کے، ان پر نظر ثانی کی گئی اور بیش قیمت اضافے کیے گئے اور پھر ان مجموعۂ مضامین کو الگ سے کتاب کی صورت میں پیش کیا گیا۔ اس کتاب میں بھی تفسیرسورۂ یٰسٓ والا طریقہ اپنا یاگیا کہ قرآن کو خود قرآن کے ذریعہ ہی سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی گئی۔ اسلوب عام فہم رکھا گیا ہے اور دعوت وتحریک اور علم وحکمت سے متعلق آیات کے مفہوم ومدعا کوبطورخاص واشگاف کرنے کی کوشش کی گئی۔

درس قرآن:

ماہنامہ ذکریٰ میں ’تذکیر القرآن‘ والے کالم کے تحت بعض اوقات منتخب آیات کی ترجمانی اور تشریح و توضیح بھی پیش کی جاتی رہی تھی، جسے ذکریٰ کے باذوق قارئین کی طرف سے خاصی پذیرائی ملتی تھی۔ اسی پذیرائی اور افادۂ عام کی غرض سے ان منتخب آیتوں کی تشریح وترجمانی کو کتابی شکل میں شائع کیا گیا تاکہ قرآن سے شغف رکھنے والے حسب توفیق استفادہ کرسکیں۔ اس میں بھی قرآن کی دعوت اور ہدایات کو نہایت سادہ اور موثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مطالعہ قرآن کیوں اور کس طرح؟ :

اس مختصر سے رسالے میں مطالعۂ قرآن کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مطالعۂ قرآن کے سلسلے میں رہنما ہدایات فراہم کی گئی ہیں، تاکہ مطالعۂ قرآن مسلمانوں کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن سکے۔

قرآن کو سمجھ کر پڑھئے :

مسلم معاشرے میں قرآن کی تلاوت کی روایت کسی نہ کسی درجے میں باقی ہے، خاص طور پر رمضان کے ماہ میں یہ روایت بڑی مستحکم اور ہمہ گیر ہوجاتی ہے تاہم قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی جہاں تک بات ہے تو مسلم معاشرہ آج بھی اس حوالے سے قرآن سے بہت دور ہے۔ اسی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مختصر رسالہ ترتیب دیا گیا۔

قرآن کیوں پڑھیں اور کیسے پڑھیں؟ :

اس مختصر کتابچے میں قرآن پڑھنے کی اہمیت وضرورت پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور قرآن کو پڑھنے کا طریقہ بتایاگیا ہے۔

مولانا کا اسلوب تحریر:

آگے بڑھنے سے قبل بہتر ہوگا کہ مولانا کے اسلوب تحریر کا بھی کچھ تذکرہ کر لیا جائے۔ مولاناکا اسلوب تحریر سادہ، سلیس اور برجستہ ہے، اردو زبان کے عام قاری جس اسلوب سے زیادہ مانوس ہیں مولانانے دیدہ ودانستہ اسی اسلوب تحریر کو اختیار کیا ہے۔ نہ بہت زیادہ اختصار ہے کہ بات سمجھنا مشکل ہو جائے اور نہ ہی بے جا طوالت ہے کہ قاری اکتاہٹ محسوس کرنے لگے۔ یہ فی الحقیقت ایجاز واطناب کے درمیان ہے۔ نہ ایجاز مخل ہے اور نہ اطناب ممل۔

مولانا کے مزاج میں عاجزی وانکساری ہے اور بے جا نمود و نمائش سے احتراز کی روش ہے۔ انہوں نے اپنے اسلوب تحریر کے لئے بھی ظاہری طمطراق، گھن گرج اور رعب ودبدبے والی لفظیات اور لب ولہجے کے بجائے سادہ وسہل اور محبت آمیز طرز اداواظہارکو ترجیح دی اور اس کا انہیں فائدہ بھی ملا۔ اسی وجہ سے ان کی تصانیف عام وخاص سب کے استفادے کے لیے یکساں طور پر مفید بن گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کی کتابیں ملک وبیرون ملک میں اردو وانگریزی کے باذوق قارئین ذوق وشوق کے ساتھ پڑھتے ہیں، ان کی بیشتر کتابوں کے دس دس بارہ بارہ اور بعض کے تیس سے بھی زائد ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ مولانا کی بعض کتابوں کو پڑوسی ملک کے بعض پبلشرز نے بھی شائع کیا ہے اور وہاں بھی ان کے کئی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔

تفسیر قرآن کے موضوع پر مستقل تصنیفات کے علاوہ مولانا اپنے دروس قرآن کے حوالے سے معروف رہے ہیں۔ مولانا کوقرآن کی دعوت دیتے ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ ملک وبیرون ملک دیے گئے ان کے دروس قرآن کے سیکڑوں آڈیو اور ویڈیو منظر عام پرآچکے ہیں، ان میں سے بہت سارے یوٹیوب کے علاوہ دیگر سوشل سائٹس اور ویب پورٹلز پر موجود ہیں اور ان سے بہت زیادہ تعداد میں ان کے دروس قرآن ہنوز کیسٹس اور سی ڈیز میں محفوظ میں ہیں۔

ماہنامہ ذکریٰ جدید میں ان کے دروس قرآن کو کیسٹس اور سی ڈیز سے نکال کر گزشتہ چارپانچ سالوں سے، ذکریٰ جدید کے مستقل کالم ”تذکیرالقرآن“ کے تحت ہر ماہ پابندی سے شائع کیا جا رہا ہے۔ ذکریٰ جدید کا یہ وہی کالم ہے جسے خود مولانا محترم نے ذکریٰ کی اشاعت کے بالکل ابتدائی دور، یعنی 1972 ء کے آس پاس ہی قائم کر دیا تھا اور اس کے تحت تفسیر قرآن کا سلسلہ انتہائی استقلال اور دلجمعی کے ساتھ جاری رکھا۔

جب مولانا نے ماہنامہ ذکریٰ میں تفسیر قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھا، توا ن کے پیش نظر خاص طور پر بلکہ ایک طرح سے منضبط منصوبہ بندی کے تحت سرتاسر قرآنی دعوت کا ابلاغ ہی تھا، تفسیر قرآن کے سلسلے میں ان کا مطمح نظر نکتہ رسی کا یا تحقیق وتدقیق کا کبھی نہیں رہا اور خصوصی طور پر انہوں نے اس رجحان وفکر سے دوری بنائے رکھی جو برصغیر کے اکثر وبیشتر مکاتب فکر کا عمومی طور پر ذہن رہا ہے اور جس کے چلتے قرآن کی دعوت اور تعلیمات کہیں خلفیے میں چلی جاتی ہیں اور مسلک ومشرب اورتنظیمی و تحریکی افکار ورجحانات کی تبلیغ فرنٹ پر آجاتی ہے۔

مولانا گرچہ ابتداہی سے تحریکی آدمی رہے، انہوں نے زندگی کے پہلے پڑاؤ پر ہی جماعت اسلامی سے وابستگی اختیار کرلی تھی اور تاحال اس وابستگی کو بحسن وخوبی نبھارہے ہیں، تاہم جہاں تک قرآنی خدمات کا تعلق ہے تو انہوں نے اس کے تذکیری پہلو کو ہی سامنے رکھنے کی کوشش کی ہے۔ بیشک دعوت قرآنی کے حوالے سے ان کی قلمی کاوشوں میں بعض جگہ تحریکی مزاج دیکھنے کو ملتا ہے، مگر یہ غالب رجحان نہیں ہے، اس کے برعکس غالب رجحان تذکیر ہی ہے۔ مولانا نے قرآن کو تحریک کے نشانے پر رکھنے کے بجائے خود تحریک کو قرآن کے نشانے پر رکھنے کی کوشش کی ہے، یعنی خود قرآن کو ایک تحریک کی حیثیت سے پیش کرنے کی سعی مسعود کی ہے۔

مولانا درس قرآن کے حوالے سے اپنی تحریروں اور تقریروں میں مسلمانوں کی دنیاوی و معاشرتی اور پھر ان کی آخرت کی زندگی بنانے سنوارنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں معاشرتی مسائل زیادہ شرح وبسط کے ساتھ بیان ہوئے ہیں بنسبت ان احکامات وہدایات کے جن کا تعلق عبادات سے ہے، سیاست سے ہے یا پھر اقتصادیات سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ قرآن نے نماز، روزے اور زکوٰۃ وغیرہ کا صرف حکم دیا ہے کہ نماز قائم کرو اور زکٰوۃ دیتے رہو، تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ قرآن کہتا ہے۔ واقیموا الصلاة وآتوا الزکاة وارکعوا مع الراکعین ﴿البقرۃ: 43﴾ واقیموا الصلاة وآتوا الزکاة واطیعوا الرسول لعلکم ترحمون ﴿سورۃ النور:56﴾

جبکہ اسی قرآن میں عائلی وخانگی مسائل، میراث کے مسائل، نکاح و طلاق کے مسائل، یہاں تک کہ شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے کے مسائل کسی قدر زیادہ تفصیل کے ساتھ آئے ہیں۔ کیونکہ قرآن کا نشانہ انسان ا ور انسانی معاشرہ ہے۔ قرآن انسانی معاشرے کو فی الواقع انسانی معاشرہ بنانا چاہتا ہے، انسان کے اندر کی بہیمی صفات کو کچلنا اور ملکوتی صفات کو پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

” ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ہر چیز کا ذکر کیا ہے، عبادت کا بھی کیا ہے، سیاست کا بھی کیاہے اور معیشت کا بھی ذکر کیاہے۔ لیکن یہ عجیب وغریب بات ہے کہ اللہ نے ان سب کا صرف ذکر ہی کیا ہے اور بس حکم دینے کی حد تک ذکر کیا ہے۔ نماز کے سلسلے میں فرمایا: ’اقیموا الصلاۃ‘ بس اتنا ہی کہا، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا، کتنی رکعتیں پڑھیں، کس وقت پڑھیں اوران میں کیا پڑھیں، ان سب چیزوں کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں۔

سب رسول اللہﷺ پر چھوڑدیا۔ اور آپ ﷺ نے اللہ کے حکم کے مطابق سارے احکام اور تفصیلات بیان کیں، انہی تفصیلات کے بیان کا نام حدیث ہے۔ اسی طرح روزے کا معاملہ ہے، زکوٰۃ اور حج کا معاملہ ہے، یہاں تک کہ سیاست ومعیشت کا بھی یہی حال ہے۔ ان میں سے کسی کے تعلق سے کچھ بھی تفصیل بیان نہیں کی، بس حکم دینے کی حد تک اکتفا کیا۔

لیکن جب عائلی اور خاندانی زندگی کا ذکر آتا ہے توقرآن ایک ایک چیز کو اورایک ایک مسئلے کووضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت زندگی کے اسی شعبے کو حاصل ہے، چنانچہ طلاق ہے، عدت ہے، مہر ہے۔ طلاق ہے تو پھراس کی تفصیلات ہیں۔ میراث کا بیان ہے تو یہ وضاحت بھی ہے کہ کس کو ملے گی، کس کو نہیں ملے گی اور اگر ملے گی تو کتنی ملے گی۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ حد یہ ہے کہ معاشرت کے تعلق سے بہت معمولی معمولی مسائل کو بھی ذکر کیا ہے، رضاعت اور پرورش سے متعلق مسائل کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست ہے کہ اگر آدمی کی عائلی زندگی تباہ ہو گئی توسمجھو پوری زندگی تباہ ہو گئی۔ اس لیے کہ اگربیٹا باپ کا نہیں، باپ بیٹے کا نہیں اور کوئی کسی کارشتہ دار نہیں توپھر جانوروں کی زندگی میں اور انسان کی زندگی میں کوئی بڑافرق نہیں رہے گا۔ انسان اور جانور کی زندگی میں فرق یہی ہے کہ اس کے یہاں عائلی نظام ہے۔ اور جانوروں کے یہاں عائلی نظام نہیں ہے۔

) ذکریٰ جدید، اکتوبر 2018 (
قرآنی تعلیمات:

قرآنی تعلیمات ساڑھے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ہے، اس میں قرآن کی اکثر ہدایات اور تعلیمات کو تصنیفی انداز ترتیب کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں سات ابواب ہیں۔ جو اس طرح ہیں :

1۔ ایمانیات
2۔ تزکیۂ نفس
3۔ عبادات
4۔ حسن اخلاق
5۔ حسن معاشرت
6۔ معاملات
7۔ تبلیغ دین۔

اس کتاب کے بیشتر مضامین ماہناہ ’زندگی‘ رامپور میں قسط وار شائع ہوئے تھے، جو شوق ودلچسپی کے ساتھ پڑھے گئے تھے۔ اس میں قرآنی آیات کی مختصر مگر دلنشیں تشریح کی گئی ہے۔ بعض ذیلی عناوین کے تحت صرف ایک یا ایک سے س زائد آیات درج کی گئی ہیں، گویا عنوان ہی آیت کے معانی کی وضاحت ہے اور بعض آیات کے تحت چند لائن میں یا زائد از چند لائن میں ان آیات کے مفاہیم اور تفسیر کو سپرد قلم کیا گیا ہے۔ بعض ابواب میں تیس یا ان سے زائد، بعض میں کچھ کم یا زیادہ مرکزی عناوین ہیں جن کے تحت مزید ذیلی عناوین قائم کیے گئے ہیں۔

مثلاً باب اول ’ایمانیات‘ کے تحت ایک مرکزی عنوان ہے ”انکار آخرت کے اسباب“ پھر اس کے تحت چار ذیلی عناوین اس طرح ہیں :

1۔ کوتاہ فکری
2۔ قدرت الٰہی کا ناقص تصور
3۔ دنیا پرستی
4۔ دولت کی بدمستی

ان میں سے ہر ایک کے تحت ایک دو آیات ہیں، جو عنوان میں قائم کیے گئے مدعا کو واضح کررہی ہیں۔ اور اس طرح نتیجے کے طور پر جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ انکار آخرت میں مذکور ہ چار چیزوں یعنی کوتاہ فکری، قدرت الٰہی کا ناقص تصور، دنیا پرستی اور دولت کی بدمستی، کا بڑا عمل دخل ہے۔ اور گویا یہ ایک طرح کے حجابات ہیں جو اللہ کی معرفت کے حصول میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر یہ حجابات اٹھ جائیں تو کچھ بعید نہیں کہ آدمی کلمۂ حق تک رسائی حاصل کرنے میں کامیابی پاسکے۔

دوسرا باب ’تزکیۂ نفس‘ ہے۔ اس کتاب کا یہ مختصر ترین باب ہے۔ اس میں اول اول بہت ہی تھوڑے سے لفظوں میں تزکیۂ کی نفس کی تشریح اور دین میں اس کی اہمیت بتائی گئی ہے، پھر یہ بتایا گیا ہے کہ رسولﷺ کی بعثت کا اصل مقصد تزکیہ ہی ہے۔ اس کے بعد یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ تزکیۂ نفس کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ او راس کے سات ذرائع بتائے گئے ہیں۔

1۔ توبہ واستغفار
2۔ ذکر وفکر
3۔ تلاوت قرآن
4۔ تقویٰ
5۔ عمل صالح
6۔ انفاق
7۔ دعا

تزکیۂ نفس کے لیے مطلوب ان ساتوں ذرائع کے مفہوم کو مزید ذیلی عناوین کی مدد سے اور ہر عنوان کے تحت قرآن کی متعلقہ آیات کے ذکر اور دوچار لائن کی وضاحت کے ساتھ ذہن نشیں کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ کتاب قرآن کو خود قرآن سے اور احادیث نبویہ سے سمجھنے اورسمجھانے کی بہت ہی مبارک کوشش ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے قرآن حکیم کی تمام بنیادی تعلیمات پر ایک طائرانہ نگاہ پڑجاتی ہے اور طالب علم کو ان سے کماحقہ واقفیت ہوجاتی ہے۔ اس لیے یہ کتاب قرآن کے طالب علموں کے لیے اورقرآن سے متعلق کسی بھی موضوع پر ریسرچ کرنے والوں کے لیے بھی مفید ہے۔

اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات بھی کسی قدر لگا یاجاسکتا ہے کہ دوہزارسترہ تک اس کتاب کے سولہ ایڈیشن نکل چکے تھے اور فی الحال بھی یہ کتاب آؤٹ آف پرنٹ ہے۔ کتاب کا انگریزی ترجمہ خود انہی کے صاحبزادے ڈاکٹر سلمان اسعد صاحب نے ”ٹیچنگس آف دی ہولی قرآن“ کے نام سے کیا ہے اور اپنے ہی پبلیکیشن ”اسرا“ سے شائع کیا ہے۔ اس انگریزی نسخے کے بھی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔

یہ کتاب علم دین حاصل کرنے والے طلبہ اورعام کاروباری مسلمان سب کی ترجیحی پسند ہے۔ اور اس کی وجہ صاحب تصنیف کاقرآن کریم کے ساتھ قلبی تعلق، حسن نیت، اخلاص وللٰہیت اور سب سے بڑھ کر قرآن کی تعلیمات کو عام لوگوں تک پہنچانے کا شدید جذبہ اور داعیہ ہے۔

ذیل میں ہم اس کتاب کے چند مختصر اقتباسات درج کر رہے ہیں تاکہ مولانا کے اسلوب تحریر اور انداز تفسیر کا کسی حد تک اندازہ کیا جاسکے۔ پہلے باب میں اللہ تبارک وتعالی کے وجود کی دلیل کے طور پر چند دلکش لائن اس طرح سپر دقلم کی ہیں :

”اللہ کا وجود ایک ایسی روشن اور کھلی ہوئی حقیقت ہے جو کائنات کے ذرے ذرے سے عیاں ہے۔ غیر محدودد کائنات میں انسان کا ننھا سا وجود اور اس ننھے وجود میں کائنات کو مسخر کرنے کا عزم۔ دیکھنے، سننے، سوچنے، سمجھنے اور غور وفکرسے زبردست نتائج نکالنے کی غیر معمولی صلاحیتیں، یہ حسین وجمیل کائنات، یہ زمین وآسماں میں رزق رسانی اور پرورش کا بے مثال نظام، یہ روشن سورج، یہ چمکتا چاند، حسین تارے، یہ اتھاہ سمندر، یہ لہلہاتے کھیت۔ یہ پھلوں سے لدے باغ، یہ دن کی ہماہمی، یہ رات ک اسکون، یہ صبح کا شگفتگی، یہ شام کی دل آویزی، ہر چیز پکارپکار کر اللہ کے وجود کی گواہی دے رہی ہے۔ اور ایک ایک چیز اس حقیقت کی واضح نشانی ہے کہ اس کائنات کا ایک بہترین خالق اور بے مثال رب ہے“ (صفحہ نمبر: 57 )

سورۂ الفرقان کی آیت نمبر 62 (وھو الذی جعل اللیل والنھار خلفةً، الخ) کی دلنشیں وضاحت دیکھیں :

”ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ پوری آب وتاب کے ساتھ سورج چمک رہا ہے اور زمین کا ذرہ ذرہ روشن ہے، لیکن چند ہی گھنٹے گزرے کہ یہ چمکتا سورج زمین کے سامنے سے ہٹا لیا گیا۔ یکایک زمین کی فضا سے روشن دن کھینچ لیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری فضا پر رات اپنی تاریکیاں لیے مسلط ہو گئی۔ پھر چند مقررہ گھنٹے ہی گزرے تھے کہ سورج اسی آب وتاب کے ساتھ مشرق سے نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری فضا جگمگا اٹھی۔ پھر یہ عمل پوری باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ لاکھوں برس سے ہو رہا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ رات کے اوقات میں یکایک دن نمودار ہو جائے، یا دن کے اوقات میں یکایک تاریک رات چھا جائے۔“ (صفحہ نمبر:61)

کتاب کے دوسرے باب کے ایک مرکزی عنوان ”تقوی“ کے تحت آل عمران کی آیت نمبر102 ( یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتھ۔ الخ) لائے ہیں اور اس کے ذیل میں رقم طراز ہیں :

” تقویٰ خدا کے خوف اور خدائی محبت سے پیدا ہونے والی ایک دلی کیفیت کا نام ہے، جو تمام اعمال خیر کا حقیقی محرک اور تمام اعمال بد سے باز رکھنے والا ایک طاقتور جذبہ ہے۔ ایمان کا فطری تقاضا ہے کہ مومن کے د ل میں خدا کا تقویٰ ہو۔ خدا کا تقویٰ ہی مومن کو ہر طرح کی نافرمانی سے روکتا اور اطاعت وفرمانبردای کی شاہ راہ پر دوڑنے کی طاقت بخشتا ہے۔“

پہلے باب ’ایمانیات‘ کے ایک مرکزی عنوان ”آخرت“ کے تحت لکھتے ہیں :

”دنیا کی زندگی آزمائش کا ایک وقفہ ہے اور عمل کی ایک مہلت ہے۔ اصل زندگی موت کے بعد شروع ہوگی۔ مرنے کے بعد سارے انسان خدا کے حضور پیش ہوں گے، اپنے اعمال کا حساب دیں گے۔ اور ہر ایک اپنے عمل کے مطابق جنت کی لازوال نعمتیں پائے گا یا جہنم کی ہولناک سزا۔ اس عقیدے کا منکر درحقیقت خداکا منکر ہے۔ اس کو نہ ماننے کے بعد نہ خدا کو عادل وحکیم ماننے کے کوئی معنیٰ رہتے ہیں اور نہ رسول وشریعت کے ماننے کا کوئی مفہوم رہ جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے اس عقیدے کو انتہائی اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے اور اسے ذہن میں جمانے پر اتنا زور دیا ہے کہ قرآن کا کوئی ایک صفحہ ایسا نہیں جس میں آخرت کا ذکر نہ ہو۔“

اگر یہ مختصر مقالہ اس کا متحمل ہوتا کہ اس کتاب کے مزید اقتباسات پیش کیے جا سکتے توہم مزید اہم اقتباسات نقل کرتے۔ تاہم یہ چند اقتباسات یہ بتانے کے لیے شاید کافی ہیں کہ تفسیر قرآن میں مولانا کا منہج کیا ہے اور وہ قرآن کے کس پہلو کو ترجیحی بنیاد پر لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ اور یہ کہ مولانا کا اسلوب تحریر اور انداز بیان کیسا ہے، اس میں کیسی روانی اور سلاست ہے، وہ کس حد تک عام فہم ہے اور ایک کم پڑھے لکھے مردوعورت اور ایک متوسط ذہنیت کے حامل قاری کے لیے کتنا مفید ہے اوران کے لئے وہ اپنے اندر کیسی کیسی ترغیبات اور اثر آفرینی رکھتا ہے۔ اسی طرح ابلاغ اور تذکیران کے بیانیے میں کس طرح اپنے عروج تک پہنچے ہوئے ہیں۔

عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ قلم کار اپنے مذہبی ودینی بیانیے میں بھی فصاحت و بلاغت کی فروانی، حکمت بالغہ تک رسائی، ہمہ دانی کے زعم کے جاوبے اظہاراور نکتہ رسی وافلاطونی پراسراریت پر، ترسیل و ابلاغ کو قربان کردیتے ہیں اور ایسا کئی بار اکثر قلم کار جانتے بوجھتے بھی کرتے ہیں، شاید انہیں یہ پسند ہوتا ہے کہ لوگ ان کی تحریروں میں نادیدہ بلکہ ناپید لعل وگہر کی تلاش میں غوطہ زنی کرتے رہیں اور قلم کار کی بے مثال صناعی، اعلیٰ درجے کی کاری گری اور گہری تہہ میں چھپاکر رکھی ہوئی دانش وری اور حکمت کی تلا ش میں سرگرداں رہیں اور اس کے لیے قلم کار کے دامن میں داد وتحسین کے ڈونگر انڈیلتے رہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا محترم نے جانتے بوجھتے اس نوعیت کی دیدہ وری اور پرتکلف کاری گری سے دوری بنائے رکھنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکا ہے۔

ختم شد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).