سوشل میڈیا ہمارے ساتھ کیا کر رہا ہے؟ چشم کشا فیچر


ٹویٹر کے سابق ایگزیکٹیو جیف سئیبرٹ کے مطابق یہ سب مارکیٹنگ کی دنیا ہے ، جہاں آپ کی توجہ کو بطور پراڈکٹ بیچا جا رہا ہے اور یہ سب کرنے کے لیے ڈیٹا درکار ہے۔ آپ کا ڈیٹا۔ آپ کیا سوچتے ہیں، کیا پسند کرتے ہیں، کیسی ویڈیوز دیکھتے ہیں، کیا پڑھنا پسند کرتے ہیں، کس ویڈیو یا کس فوٹو کو آپ نے کتنی دیر تک دیکھا۔ یہ سب ڈیٹا ہے اور یہ سب آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا اے آئی ہے جو آپ کا یعنی بلا مبالغہ ہر انسان کا ایک ورچوئل امیج بنا کر اپنے پاس رکھتی ہے۔

یہ مستقبل کی پیش گوئی کرنا ممکن بنا رہی کے یعنی آپ کب کیسے سوچتے ہیں، کب کیسا ری ایکٹ کر سکتے ہیں، کیا پہننا پسند کرتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ آپ کب خوش ہیں، کب افسردہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ان کا ڈیٹا فروخت کیا جاتا ہے۔ فیس بک سمیت بڑی کمپنیز کو یہ سوٹ ہی نہیں کرتا کہ وہ ڈیٹا فروخت کریں بلکہ جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ وہ اس ڈیٹا کے ذریعے آپ کا ورچوئل ماڈل تیار کرتے ہیں اور جس کا ماڈل جتنا زیادہ بہتر ہو گا وہ کامیاب ہو گا۔

آپ کسی انسان کو کس طرح اور کتنی کامیابی سے قائل کر سکتے ہیں اور اس قائل کرنے کی ”خوبی“ کو ٹیک جائینٹس نے کس قدر مہارت کے ساتھ اپنی ٹیکنالوجی اور ایپس میں استعمال کیا ہے ، یہ قابل رشک و قابل تعریف ضرور ہے لیکن یہی اصل کہانی ہے اور یہی گیم ہے۔ فیس بک کی مثال لے لیں، ہر بار جب آپ اپنی انگلی کے ساتھ اس ایپ کو یعنی ”اپنی“ نیوز فیڈ کو فریش کرتے ہیں تو کچھ نیا ہی سامنے آتا ہے۔ ایسا ہونا اس لیے بھی ضروری تھا تاکہ صارف ”بور“ ہو کر کہیں اور منتقل ہونے کا نہ سوچ لے۔

پازیٹو ری این فورسمنٹ کا سہارا لے کر یوزرز کو ان ایپس کے ساتھ جیسے باندھ دیا گیا ہے اور ہم یوزرز اس فیڈ بیک ( لائیک، کوومنٹ اور شیئر ) کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اس فیڈ میں کمی ہمیں ڈپریس کرتی ہے اور اس فیڈ بیک کی زیادتی ہمارے ڈوپامین میں اضافہ، جس سے ہمیں اچھا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ اچھا کیا ہے۔ ایک ہی دن میں بار بار اپنی تصاویر لگانا، ایک ہی جیسی باتوں کو بار بار لکھنا، کرنا یہ سب ایسے ہی ہے جیسے کوئی ماہر مداری اپنی انگلیوں پر اپنی کٹھ پتلیوں کو نچا رہا ہو لیکن کٹھ پتلیاں یہ سمجھ بیٹھیں کہ وہ اپنی مرضی سے سب کچھ کر رہی ہیں۔

ویری فنی! تصور کریں کہ آپ یا میں جب اپنی حقیقی زندگی میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں یا کہیں فیملی کے ساتھ تو ہمارا ہاتھ بار بار اپنی ڈیوائس کی طرف اٹھتا ہے کہ چیک کیا جائے کہیں کچھ ”نیا“ آیا ہو،  یہ ڈیزائینڈ تکنیک ہے۔ فوٹو ٹیگنگ بھی ایسا ہی ایک فیچر ہے، مینشن کرنا بھی۔ جب آپ کسی کو ٹیگ کرتے ہیں یا مینشن کرتے ہیں تو سو فیصد چانس یہی ہے کہ وہ اس کو لازمی چیک کرے گا بھلے کچھ ری ایکٹ دے یا نہ دے البتہ اگر آپ کسی فلم سٹار یا نہایت مشہور انسان کو ٹیگ یا مینشن کر رہے ہیں تو شاید وہ زیادہ مصروفیت اور زیادہ ٹیگنگ یا مینشنز کی وجہ سے اس کو چیک نہ کر پائے۔

کیتھی اونیل ڈیٹا سائنٹسٹ ہیں، پی ایچ ڈی ہیں اور ویپنز اوو میتھ ڈسٹرکشن نامی مشہور کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کیتھی کے بقول الیگوردھمز کو آپ محض کمپیوٹر میں انسٹال شدہ حسابی طرز کے فارمولے نہ سمجھیں۔ یہ رائے قائم کرنے، رائے بنانے اور رائے تبدیل کرنے کے فارمولے ہیں۔ ایلگوردھمز اوبجیکٹو نہیں ہیں بلکہ یہ ایک خاص لیول کی کامیابی حاصل کرنے کی یقین دہانی رکھتے ہیں۔ یہ تمام فارمولے تجارتی بنیادوں پر اور منافع حاصل کرنے کا ٹارگٹ ذہن میں رکھ کر بنائے جاتے ہیں اور یہ فارمولے ہر بار اپنی استطاعت کو بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سینڈی پارا کلاس جو فیس بک کے سابق آپریشن مینجر اور اوبر کے پراڈکٹ مینیجر رہے ہیں ان کے بقول فیس بک، ٹویٹر یا دیگر کمپنیز میں بس مٹھی بھر لوگ ہی سمجھ رکھتے ہیں کہ یہ سسٹم کیسے کام کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی مکمل طور پر اس نظام کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کسی خاص فارمولے کا خاص حصہ کیسے کام کر پا رہا ہے یا کام کر رہا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ سمجھ لیں کہ بطور انسان ہم ان سسٹمز پر کنٹرول تقریباً کھو چکے ہیں اور ہم سے زیادہ سسٹم ہمیں کنٹرول کر رہے ہیں چلا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3