ایک کشمیری کا خواب اور قصہ چند ملاقاتوں کا


میرے لئے یہ بڑے اچنبھے کی بات تھی۔ میں نے کہا: میں تو آج تک یہی سمجھتا رہا کہ ہندوستان مکار ہے، عیار ہے اور بددیانت ہے اور پاکستان کشمیر کے معاملے میں بہت ہی مخلص ہے۔ لیکن آپ جیسا ایک ذمہ دار افسر خود ہی اعتراف کر رہا ہے کہ آپ بھی بددیانت ہیں۔ اور پھر مجھے اپنے ساتھ تعاون کرنے پر بھی قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ آپ مجھے بتائیں میں کس بات پر آپ سے تعاون کروں؟ وہ صاحب بالکل خاموش ہو گئے۔ وہ کچھ کہنا تو چاہ رہے تھے لیکن ان کی زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ وہ پانی کے ایک گلاس کے لئے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ میں نے کہا ابھی ایک سوال اور بھی ہے۔ انہوں نے نہایت ہی مری ہوئی آواز میں کہا کہ پوچھیے (میں کوئی مبالغہ آمیزی نہیں کر رہا اور نہ ہی یہ انشاء پردازی ہے)۔

آپ نے آزاد کشمیر ریگولر فورس (A K R F) کو اے کے رجمنٹ بنا کر پاکستان کی فوج میں مدغم کر لیا ہے۔ اے کے رجمنٹس تو اب پاکستان کی فوج کا حصہ بن گئی ہیں، پاکستان فوج کے ریاست سے انخلا کی صورت میں ان کا کیا ہو گا؟

یہ کام ہم نے نہیں کیا، وہ تو خود آزاد کشمیر ریگولر فورس نے یہ مطالبہ کیا تھا۔

آپ مجھے یہ نہ بتائیں کہ یہ کیسے ہوا، میں بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں کہ یہ کس نے کیا اور کیوں کیا گیا تھا۔ میں خود اسی ادارے میں، جس کا آپ حصہ ہیں، کچھ عرصہ گزار چکا ہوں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اے کے رجمنٹ کے لوگ یو این او کی نظر میں پاکستان فوج کے افراد ہیں اور قراردادوں کے نفاذ کی صورت میں انہیں کشمیر سے نکالنا پڑے گا؟

وہ صاحب ہکا بکا ہو کر میرا منہ دیکھنے لگے۔ پھر دفعتاً انہیں کچھ خیال آیا اور دبی زبان میں کہا کہ مجھے اب پتہ چلا ہے کہ آپ نے اندر آتے ہوئے جو کچھ کہا، وہ کیوں کہا تھا۔ ہر شخص تو اس انداز اور اعتماد سے بات نہیں کر سکتا۔ یہ اعتماد تو فوج کی دین لگتا ہے۔ انہوں نے پوچھا:

آپ اپنی سروس میں کہاں پر تھے؟

جی میرا ٹھکانہ فلاں ٹیکری پر تھا، میرے پاس صرف اے پی سی کی گولیاں تھیں، جو اپنوں کو فائدہ دیتی تھیں اور نہ ہی دشمن کو گھائل کر سکتی تھیں۔

ارے بھائی میں بھی تو وہیں اسی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر میں تھا۔

پتہ چلا کہ یہ صاحب 1977 کے اوائل میں وہاں، غالباً، بی ایم (بریگیڈ میجر) تھے اور میرے وہاں جانے سے ایک ماہ پہلے ٹرانسفر ہو گئے تھے۔

میں نے کہا دیکھیے صاحب! آپ جانتے ہیں کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں، سرجن ہوں، کوئی سیاستدان نہیں، بیوروکریٹ نہیں اور نہ ہی سفارت کار۔ ہم ایک بند کمرے میں بیٹھے ہیں، یہاں پر اور کوئی نہیں ہے۔ اگر آپ میرے جیسے ایک پھٹیچر سے شخص کے بند کمرے میں سوالات کے جوابات نہیں دے سکتے تو آپ لوگ اقوام متحدہ میں جا کر کیا کرتے ہیں؟ مجھے وہاں بیٹھے ہوئے دو گھنٹے ہوا چاہتے تھے، چنانچہ میں اٹھا، ان سے مصافحہ کیا اور باہر آ گیا۔

بعد میں ان کے پیام بر سے، جو میرے جاننے والوں میں سے تھے، ملاقات ہوئی تو انہوں نے بڑی حیرت کا اظہار کیا اور کہا آپ نے انہیں کیا کہا ہے، وہ تو آپ سے بہت متاثر لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، انہیں پھر بلائیں۔ اس شخص نے اپنے بڑے صاحب کی زبان سے میری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے مثلاً  ’ہم تو آج تک وقت ہی ضائع کرتے رہے۔ وہ لوگ جو ہمارے پاس آ کر فرشی سلام کرتے ہیں، ہمارے کسی کام کے نہیں، کشمیر کے اصل ترجمان تو آپ جیسے لوگ ہیں‘ ۔

مجھے معلوم تھا کہ یہ بے روح، کھوکھلے اور بے معنی الفاظ ہیں، ان الفاظ سے میری ماہیت قلبی تبدیل نہیں ہو سکتی، میں وہی کچھ رہوں گا جو میں ہوں۔ یہ صاحب ایک دو ماہ بعد پھر ملے اور کہنے لگے، ہمارے صاحب کہتے ہیں کہ سردار عبدالقیوم اب ہمارے لئے ناکارہ ہو چکے ہیں، بلکہ وہ ہم پر ایک بار بنتے جا رہے ہیں۔ چناں چہ ہم چاہتے ہیں کہ کسی نئے شخص کو آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ کے لئے سامنے لایا جائے۔ میں ورطۂ حیرت میں ڈوب گیا۔

’نیا جال لائے، پرانے کھلاڑی‘ والی بات تھی۔ میں نے کہا بھئی تمہیں پتہ ہے کہ میں کوئی سیاست دان نہیں، قیادت کی صلاحیت سے یکسر محروم، انتہائی بے ضرر اور سادہ سا انسان بلکہ مٹی کا مادھو ہوں۔ مجھے تو صرف سرجری کرنا آتی ہے اور بس، اس سے آگے اور کچھ بھی نہیں۔ کہنے لگے یہ جو سیاست دان یا سیاسی رہنما آپ کو آزاد کشمیر یا پاکستان میں نظر آتے ہیں، کیا یہ بنے بنائے سیاست کے میدان میں آ گئے تھے، نہیں! یہ ہم نے بنائے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ آپ صرف ایک ’نکی جئی ہاں‘ کر دیں، باقی کام ہمارا ہو گا۔

میں نے انہیں ڈانٹا اور سختی سے کہا، بہت سے لوگ سیاست کے بازار میں بکنے کو ترستے ہیں، آپ مجھ پر وقت ضائع نہ کریں۔ اپنا گوہر مقصود کہیں اور تلاش کریں۔ اور ہاں اس مقصد کے لئے مجھ سے دوبارہ ملاقات کی ضرورت نہیں۔

وہ تو بھلا ہوا کہ انہیں جلد ہی سیاست کی منڈی سے پلا پلایا ایک پٹھور سا بھارو، سلطان وفور (میں انہیں وفور محبت میں، سلطان وفور کہا کرتا ہوں) کی صورت میں میسر آ گیا، اور سردار قیوم، آزاد کشمیر کے سیاسی افق سے ہمیشہ کے لئے معدوم ہو گئے۔ وفور صاحب 1996 سے 2001ء تک وزارت عظمیٰ پر فائز رہے اور اس وقت بھی لگتا ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کے اگلے امیدوار بلکہ منتظر وزارت عظمیٰ (Prime Minister in Waiting) ہیں۔ ۔ ۔ (جاری ہے )

(اس تحریر کے مندرجات سے ادارہ “ہم سب” کا اتفاق لازم نہیں۔) 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2