برقی گاڑیاں: مسائل اور لوگوں کی ہچکچاہٹ کا سبب


برقی گاڑیوں کی جو ایک اہم خرابی یا خامی بیان کی جاتی ہے وہ اس میں بجلی بھروانے کے مراکز کی کم یابی ہے۔ معدنی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں میں ایندھن بھرنے کے مراکز تو ہر جگہ ملتے ہیں لیکن برقی گاڑیوں میں دوبارہ بجلی بھرنے کے مراکز اب بھی خال خال ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے برقی گاڑی چلانے والوں کو یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ کیا پتا جب گاڑی کی بجلی ختم ہو تو انہیں بجلی بھرنے کے لیے دوسرا مرکز مل سکے گا یا نہیں۔ یہ پریشانی اب اتنی عام ہو گئی ہے کہ اس کے لیے ایک باقاعدہ اصطلاح گھڑ لی گئی ہے جسے ”رینج اینگزائٹی“ یا اردو میں منزل تک پہنچنے کی پریشانی کہا جا سکتا ہے۔

لیکن پاکستان کے حوالے سے اچھی بات یہ ہے کہ جو اس وقت جدید گاڑیاں آ رہی ہیں، وہ ایک دفعہ بجلی بھرنے پر کوئی ایک سو اسی میل سے ساڑھے تین سو میل تک کا فاصلہ طے کر لیتی ہیں جو کوئی تین ساڑھے تین سو کلو میٹر سے پانچ سو کلو میٹر بنتے ہیں اور پاکستان میں زیادہ تر شہروں کا ایک دوسرے سے اتنا ہی فاصلہ ہے، چنانچہ زیادہ امکان ہے کہ ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچنے پر آپ کو (اس وقت نہیں لیکن کچھ عرصے بعد ) کوئی نہ کوئی ایسا مرکز مل ہی جائے گا۔

ہاں! امریکیوں کے لیے یہ اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ وہاں عام طور پر شہروں اور ریاستوں کے درمیان کئی سو اور بعض اوقات کئی ہزار کلو میٹر کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اور درمیان میں کچھ نہیں ہوتا۔

دوسری بات وقت کے ضیاع کی ہے۔ عام گاڑیوں میں آپ چند لمحات میں ایندھن بھروا کر دوبارہ اپنی منزل کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں لیکن برقی سواری کے ذخیرے میں دوبارہ بجلی بھرنے کے لیے آپ کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ماضی کے مقابلے میں اب اتنی تیز رفتاری سے بجلی بھرنے والے طریقہ کار آ گئے ہیں کہ اگر آپ ٹیسلا کا جدید بجلی بھرنے کا آلہ استعمال کریں تو کوئی بیس منٹوں میں کم از کم آدھی ذخیرہ گاہ بھر جاتی ہے، جبکہ عام آلہ استعمال کرنے کی صورت میں دو سے چار گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

ویسے تو ایک لمبے فاصلے کے سفر کے دوران آدھا گھنٹا سستا لینا مستحسن عمل ہے کہ زیادہ تر حادثات مسلسل گاڑی چلانے کی صورت میں چلانے والے کے اعصاب تھک جانے کے نتیجے میں رونماء ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ ایک لمحے میں ایندھن بھروا کر زوں کر کے چلتے بنے پھرنے سے تو پھر بھی زیادہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب زیادہ تر برقی گاڑیوں میں روایتی قسم کی ذخیرہ گاہیں نصب ہوتی تھیں تو ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ جس طرح (کم از کم پاکستان میں ) آپ ایل پی جی کا خالی سلنڈر دے کر اس کے بدلے دکان سے دوسرا بھرا ہوا لے لیتے ہیں، اسی طرح ان گاڑیوں میں بھی فوری طور پر بجلی بھرنے والے مراکز میں پہلے سے بھری ہوئی ذخیرہ گاہ لے کر اپنی خالی ذخیرہ گاہ ان کو دے دیں۔

اور وہ اسے بھر کر کسی دوسرے گاہک کو فراہم کر دیں گے۔ یوں انتظار کی کوفت سے نجات مل جائے گی۔ لیکن اس میں بھی مسئلہ یہ ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں جہاں روایتی ایندھن بھرنے والے مراکز میں زیادہ گاہک نہیں آتے، وہاں تو یہ ترکیب کارگر رہے گی لیکن شہروں میں ایسے مراکز میں روز ہزاروں گاہک آتے ہیں تو وہ اتنے زیادہ گاہکوں کے لیے اتنی زیادہ ذخیرہ گاہوں میں بجلی بھرنے کا انتظام کیسے کرسکیں گے۔ پھر آپ نے دیکھا ہی ہو گا کہ کم از کم ہمارے یہاں تو گیس کی ان ذخیرہ گاہوں میں سے بیشتر کی حالت ادھر ادھر پھینکنے سے نہایت بری ہو جاتی ہے۔

اب گیس کے معاملے میں تو یہ رعایت ہوتی ہے کہ انہیں رکھنے کی ذخیرہ گاہیں فولاد سے بنی ہوتی ہیں لیکن بجلی بھرنے کی ذخیرہ گاہیں فولاد سے نہیں بنائی جا سکتیں، یوں کسی اونچی جگہ سے پھینکنے کی صورت میں ان میں گڑھے پڑ سکتے ہیں۔ اور آپ نے عام دستی فون کی ذخیرہ گاہوں پر لکھی ہوئی وہ تنبیہی عبارت پڑھی ہی ہوگی کہ ابھار یا گومڑ پڑنے کی صورت میں استعمال نہ کریں۔ پھر ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ کئی ہزار گاہکوں کے لیے ان مراکز میں کہاں سے اتنی گنجائش بنائی جائے گی کہ وہاں اتنی ساری ذخیرہ گاہوں کو رکھ کر ان میں بجلی بھری جائے۔

پھر کئی ہزار ذخیرہ گاہوں کو بیک وقت بجلی دینے میں ایک خطرہ یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک میں خرابی سے آگ لگ جائے تو ساری عمارت ان ذخیرہ گاہوں کے پھٹنے سے تباہ یا کم از کم متاثر ضرور ہو جائے گی۔ چنانچہ یہ طریقۂ کار عام گاہکوں کے لیے قابل عمل نہیں ہے۔ ہاں مریضوں کو لے جانے والی گاڑیوں اور مجرموں کا تعاقب کرنے والی پولیس گاڑیوں کے لیے اس سہولت کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جا سکتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بجلی بھرنے کے مراکز کی تعداد میں بڑھوتری تو آ رہی ہے لیکن اس میں ایک بڑی اڑچن یہ آن پڑی ہے کہ ایسے مراکز بنانے والے مالکان کہتے ہیں کہ ہم کیسے ان مراکز سے منافع کمائیں کیونکہ زیادہ تعداد میں گاہک اپنی گاڑیوں میں بجلی بھروانے کے لیے ہمارے مراکز کا رخ ہی نہیں کرتے جبکہ گاہکوں کا کہنا ہے کہ ہم برقی گاڑیاں کیسے خریدیں کہ ان گاڑیوں میں بجلی بھرنے کے مراکز زیادہ جگہوں پر نہیں ہیں۔ یعنی یہ پہلے مرغی آئی تھی یا پہلے انڈا جیسا مسئلہ ہے۔

کہ اگر زیادہ لوگوں کو برقی گاڑیاں خریدنے پر آمادہ کرنا ہے تو زیادہ تعداد میں بجلی بھرنے کے مراکز کھولنا ہوں گے لیکن اگر زیادہ مراکز کھولنے ہیں تو زیادہ لوگوں کے پاس برقی گاڑیاں ہونی ضروری ہیں تاکہ ان مراکز کے مالکان کو کوئی نفع ہو سکے۔ یعنی یہ ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔ اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ جس طرح مختلف حکومتیں برقی گاڑیاں خریدنے والوں کو اپنی طرف سے رعایت دے رہی ہیں، اسی طرح بجلی بھرنے والے مراکز کو بھی حکومت خصوصی مراعات دے تاکہ زیادہ سے زیادہ مراکز کھل سکیں۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ برقی گاڑیاں اس وقت روایتی گاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ مہنگی ہوتی ہیں۔ برقی گاڑیوں کی مرمت کرنے والے کاریگر بھی زیادہ تعداد میں دستیاب نہیں ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور فاضل پرزہ جات بھی زیادہ مہنگے ملتے ہیں۔ استعمال شدہ برقی کاروں کی اس وقت کوئی خاص طلب نہیں ہے کہ یہ بھی کم آمدن والے افراد کے لیے برقی کار خریدنے کا اچھا ذریعہ ہو سکتا تھا۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ روایتی گاڑیوں کے مقابلے میں برقی گاڑیوں کی کم اقسام دستیاب ہیں چنانچہ گاہکوں کو چند قسم کی گاڑیاں خریدنے پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے۔

نئی آنے والی چیزیں ہمیشہ مہنگی ہوتی ہیں لیکن آج سے ایک دہائی پہلے برقی گاڑیاں رولز رائس، مرسیڈیز اور بی ایم ڈبلیو جیسی پرتعیش گاڑیاں خریدنے والے ہی خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ آج ان کی قیمتیں خاصی گر چکی ہیں اور درمیانہ طبقہ بھی ان کو خریدنے کی سکت رکھتا ہے۔ لیکن روایتی گاڑیوں کے مقابلے میں اب بھی مہنگی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ تمام مسائل اتنے بھی گمبھیر نہیں ہیں کہ ان کا کوئی حل نہ نکالا جا سکتے، بس اس کے لیے حکومتوں کو ابتداء کرنا ہوگی۔

یہ تمام وہی مسائل ہیں جو برقی سائیکل کی صنعت کو درپیش تھے لیکن اس وقت برقی سائیکلوں کی فروخت میں نہایت تیزی آ چکی ہے۔ مثلاً سنہ 2019 میں برطانیہ میں صرف سینتیس لاکھ برقی سائیکل فروخت ہوئے تھے جبکہ سنہ 2020 میں اس کی شرح میں تئیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس میں کرونا کی وبا کا بھی زیادہ عمل دخل ہے کیونکہ سماجی فاصلے کی پابندی اور تنگ گاڑیوں میں بیٹھنے سے کترانے کی کوشش کرنے والوں کو برقی سائیکل کی صورت میں اچھا متبادل مل گیا ہے۔ اور اگر برقی سائیکلوں کی مقبولیت کی یہی رفتار رہی تو ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ سنہ 2024 ء سے ہر سال ایک کروڑ برقی سائیکلیں فروخت ہو رہی ہوں گی۔ اور سنہ 2030 تک سالانہ ایک کروڑ ستر لاکھ برقی سائیکلیں فروخت ہو رہی ہوں گی۔ اور یہ صرف برطانیہ کے اعداد و شمار ہیں۔

اس وقت برقی گاڑیوں کی مقبولیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا عوام میں تاثر ہے۔ برطانیہ میں ایک کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو سینتیس فیصد نے نئی گاڑی خریدنے میں برقی گاڑی کو ترجیح نہ دینے کی وجہ ان علاقوں میں جہاں وہ اکثر جاتے ہیں، تیزی سے بجلی بھرنے والے مراکز کی عدم دستیابی قرار دیا۔ تینتیس فیصد نے معدنی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں برقی گاڑیوں کی زیادہ قیمت قرار دی جبکہ پینتیس فیصد نے ایک دفعہ بجلی بھرنے پر اپنی منزل مقصود تک نہ پہنچنے کی پریشانی بتائی۔

اور یہ وہ مسائل ہیں کہ جن کے بارے میں صارفین کو آگاہی فراہم ہونے کی کمی کا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر برقی گاڑی پہلے پہل مہنگی ضرور پڑتی ہے لیکن بعد میں روایتی گاڑی کے ایندھن کے خرچے وغیرہ دیکھے جائیں تو یہ زیادہ سستی پڑتی ہے۔ اس کی انشورنس کرانا زیادہ آسان ہوتی ہے۔ اور روایتی گاڑیوں کے مقابلے میں یہ ایسے ایندھن پر انحصار نہیں کرتی کہ جسے ایک دن آخر کار ختم ہو ہی جانا ہے۔ رہ گئی ایک دفعہ بجلی بھر جانے پر کم فاصلہ طے کر نے کا اعتراض تو سنہ 2019 میں برطانیہ میں کیے گئے ایک عوامی جائزے سے پتا چلا کہ لوگ ایک سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے 8.4 میل کا اوسطا فاصلہ طے کرتے ہیں اور یہ وہ فاصلہ ہے کہ جو اس وقت دستیاب سب سے کم فاصلہ طے کرنے والی برقی کار ایک دفعہ بجلی بھرنے پر 21 بار اور سب سے زیادہ فاصلہ طے کرنے والی 41 دفعہ طے کر سکتی ہیں۔

ایک دفعہ پھر یاد دہانی کرا دیں کہ صرف ایک بار بجلی کا ذخیرہ بھر نے پر ۔ یعنی زیادہ فاصلے کی فکر صرف انہی کو ہونی چاہیے کہ جو اکثر و بیشتر بہت لمبے فاصلے کی مسافت طے کرتے ہیں، جو کہ اگر تعداد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بہت کم ہیں۔ بہت سارے برقی کار مالکان کا کہنا ہے کہ برقی کار اپنانے سے انہیں کبھی بجلی بھرنے کے انتظار کی کوفت یا عین راستے میں بجلی ختم ہونے کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ لیکن یہ وہ حقیقت ہے جو یا تو متوقع گاہکوں کے سامنے اچھی طرح اجاگر کر کے پیش نہیں کی جا رہی ہے یا پھر متوقع گاہک اس حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔

ان اعداد و شمار سے یہ لگتا ہے کہ وہ جو ایک مثل مشہور ہے کہ بد اچھا، بدنام برا تو یہ برقی کاروں پر بھی صادق آتی ہے کہ ایک دفعہ لوگوں نے سوچ لیا ہے کہ برقی کار ان کے لیے گھاٹے کا سودا ہے تو حقائق بدل جانے کے باوجود سوچ وہیں جم سی گئی ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں اگر ہم چاہتے ہیں کہ برقی کاریں زیادہ عام ہوں تو لوگوں کی سوچ بدلنے کے لیے کام کرنا پڑے گا۔ اور اس کے لیے ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا ہے کہ برقی گاڑیوں میں ایک چھوٹا سا انجن سے چلنے والا جنریٹر نصب کر دیا جائے کہ جو بیٹری ختم ہونے کی صورت میں گاڑی کی برقی موٹر کو چلائے۔

ہم مخلوط گاڑی کی بات نہیں کر رہے۔ ہم ایسی گاڑی کی بات کر رہے ہیں کہ جس کے ساتھ صرف ایک سلنڈر والا چھوٹا سا جنریٹر نصب ہوتا کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ اطمینان رہے کہ اگر گاڑی کی بجلی ختم ہو گئی تو ہم وقتی طور پر جنریٹر چلا کر اس سے بجلی حاصل کر کے اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے۔ جنریٹر کی حمایت کرنے اور مخلوط گاڑی کی نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ضرور جاگزیں ہوگی کہ چاہے، جنریٹر سے سہی، گاڑی بہرحال بجلی سے چلنے والی موٹر ہی چلا رہی ہے۔

مخلوط ہونے کی صورت میں تو بجلی کے ختم ہونے پر گاڑی چلانے والے کو کوئی احساس دلائے بغیر خود کار طور پر انجن سے چلنے لگتی ہے اور یہی اصل مسئلہ ہے کہ اس سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ یقین پختہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ گاڑی چلانے کے لیے اصل طاقت تو معدنی تیل سے چلنے والا انجن فراہم کرتا ہے اور یہ کہ بجلی سے چلانا عارضی و آزمائشی چیز ہے جس سے وقتی طور پر کچھ دیر کے لیے تو کام لیا جا سکتا ہے لیکن اصل طاقت تو صرف انجن کے پاس ہے۔

ایک اور ترکیب یہ بھی کی جا سکتی ہے کہ کینگرو کی جیب یا اونٹ کے کوہان کی طرح اس کی ڈگی میں بجلی کی فاضل ذخیرہ گاہ ہونی چاہیے جو صرف اسی وقت استعمال ہونا شروع ہو جب اصل ذخیرہ گاہ میں بجلی ختم ہو جائے۔

چلتے چلتے یہ بتاتے چلیں کہ گاڑیاں بنانے والے معروف ادارے ”پورشے“ نے ابھی چند دن پہلے بتایا ہے کہ اس کی پہلی مکمل برقی گاڑی ”ٹائیسن“ جو سنہ 2019 میں پیش کی گئی تھی، کی فروخت اس سال ادارے کی سب سے مشہور کار ”نائن ون ون“ کی فروخت سے زیادہ رہی ہے جو ایک دفعہ پھر اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ زیادہ افراد برقی گاڑیوں کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سولہ ممالک کی مرکزی یا صوبائی حکومتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ سنہ 2025 سے سنہ 2040 کے درمیان صرف معدنی ایندھن سے چلنے والی نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن پر پابندی عائد کرنے والی ہیں اور اس کی جگہ وہ پہلے مخلوط اور پھر مکمل برقی گاڑیوں کی رجسٹریشن کریں گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت پوری دنیا میں وبا کی وجہ سے مائیکرو چپس کی کمی کا سامنا ہے جس کا اثر دیگر اداروں کے ساتھ کار ساز اداروں پر بھی پڑا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments