تئیس لاشیں، مشیت ایزدی کے کھاتے میں ڈال دیں – مکمل کالم


ہم دسمبر کے آخری ہفتے میں مری گئے تھے، خیال تھا کہ برف باری دیکھنے کو مل جائے گی، دو دن مری میں رہے پر برف باری نہ ہوئی۔ نتھیا گلی بھی گئے پر وہاں بھی دھوپ نے ہی استقبال کیا۔ بالآخر مایوس ہو کر واپسی کا راستہ لیا۔ جونہی موٹر وے پر پہنچے تو بارش شروع ہو گئی، فون دیکھا تو ایک دوست نے مری سے برف باری کی ویڈیو بھیجی تھی اور ساتھ پیغام لکھا تھا کہ آپ کے نکلنے کی دیر تھی کہ برف باری شروع ہو گئی۔ قسمت کا لکھا سمجھ کر ہم نے صبر شکر کر لیا۔ دوست کو جوابی پیغام بھیجا کہ برف باری تو بہت خوبصورت ہے مگر اکثر جب یہ خبریں آتی ہیں کہ برف باری کے بعد ہزاروں گاڑیاں مری میں پھنس گئیں تو میری بہت جان جاتی ہے۔ اور یہ بات سچ ہے۔

ان دو دنوں میں جب مری میں کوئی برف باری نہیں تھی اور ’معمول کا رش‘ تھا تو بھی ہم جھیکا گلی میں ٹریفک جام میں تقریباً دو گھنٹے پھنسے رہے۔ مجھے سیاحت میں مہم جوئی کا کوئی شوق نہیں اور میں تفریح کے لیے ایسا رسک لینے کا بالکل قائل نہیں جس میں خواری کا ذرہ برابر بھی اندیشہ ہو۔ میں آج تک خود کو کوستا ہوں کہ جھیل سیف الملوک دیکھنے کے لیے خستہ حال جیپ میں ٹوٹے پھوٹے پہاڑی راستوں پر کیوں گیا جہاں ڈرائیور کی ذرا سی غلطی ہزاروں فٹ کھائی میں دھکیل سکتی تھی جبکہ اس جھیل میں ایسی کوئی خاص بات بھی نہیں تھی۔ میں آج تک اسی لیے ’فیری میڈوز‘ بھی نہیں گیا کہ وہاں جانے کا راستہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور دنیا کی کوئی جگہ ایسی ’جنت‘ نہیں کہ جس کے لیے جان جوکھوں میں ڈالی جائے۔

میرے دوست اس احتیاط پسندی کا مذاق اڑاتے ہیں مگر میں پروا نہیں کرتا۔ دو سال پہلے اسی احتیاط پسندی کی وجہ سے کچھ بچت بھی ہو گئی تھی، ہم جنوری کے انہی دنوں میں مری گئے تھے، اس وقت وہاں ایسے ہی شدید برف باری ہو رہی تھی۔ مری میں داخلے سے ذرا پہلے ہم ایکسپریس ہائی وے پر ٹریفک میں پھنس گئے اور مری میں داخل نہ ہو سکے، کوئی اور جی دار ہوتا تو مری پہنچ کر ہی دم لیتا مگر ہماری گاڑی میں پٹرول تقریباً ختم ہو چکا تھا سو میں نے گاڑی واپس موڑ لی اور بڑی مشکل سے گاڑی کو پٹرول کی ایک ’دکان‘ تک پہنچایا جہاں سے پٹرول ڈلوا کر ہم واپس لاہور آ گئے۔

یہ تمام باتیں اپنی جگہ مگر مری بہرحال ایسی کوئی خطرناک جگہ نہیں جہاں جانے کے لیے لمبی چوڑی منصوبہ بندی کرنی پڑے۔ لوگ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مری اس لیے جاتے ہیں کہ اس پہاڑی مقام تک پہنچنا سب سے آسان ہے، امیر اور غریب دونوں یہاں یورپ جیسی برف باری کا نظارہ کر سکتے ہیں، یہ شہر دارالحکومت سے تقریباً جڑا ہوا ہے، ہوٹلوں کی یہاں بھرمار ہے، سڑکیں بہترین ہیں، انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے، آپ کے پاس پیسے کم ہیں یا زیادہ، دونوں صورتوں میں آپ اس شہر کے موسم سے لطف اٹھا سکتے ہیں۔ مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ وہ ہے جو ہم سب نے گزشتہ تین دنوں میں دیکھا۔ ان تین دنوں میں مری میں شدید برف باری ہوئی جسے دیکھنے کے لیے لوگ لاکھوں کی تعداد میں مری پہنچ گئے جنہوں نے وہاں برف سے کھیلتے ہوئے اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیں، ان سیاحوں کے انٹرویو بھی ٹی وی پر نشر کیے گئے جس سے ایک ایسا ماحول بن گیا کہ برف باری دیکھنے کے لیے مری ایک آئیڈیل مقام ہے۔

مسئلہ مگر یہ ہے کہ برف کو دو تین گھنٹوں سے زیادہ انجوائے نہیں کیا جا سکتا، اس کے بعد یہ وبال جان بن جاتی ہے اور ایسا ہی ہوا۔ کچھ گھنٹوں کے بعد لوگوں کا دل بھر گیا مگر برف باری اسی تواتر کے ساتھ جاری رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جھیکا گلی اور کلڈانہ کے راستے میں گاڑیوں کی طویل قطار لگ گئی، گاڑیاں برف میں دھنس گئیں اور ان گاڑیوں میں بیٹھے لوگ وہیں پھنس گئے۔ ان میں سے کچھ گاڑیوں میں لوگوں نے اپنے ہیٹر آن رکھے اور وہ شیشے بند کر کے سو گئے، گیس سے ان کا دم گھٹ گیا اور وہ اپنے بچوں سمیت گاڑی میں ہی مر گئے۔ ان معصوم بچوں کی اپنے ماں باپ کے ساتھ فوت ہونے کی دل ہلانے دینے والی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو پتا چلا کہ مری میں آفت آ چکی ہے۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

بطور پاکستانی تین باتیں ہمیں ذہن نشین کر لینی چاہئیں۔ پہلی، اس ملک میں جو کرنا ہے آپ نے خود کرنا ہے، ریاست سے کسی قسم کی مدد مل جائے تو اسے بونس سمجھیں اور اپنی تعلیم، صحت، حفاظت، تفریح اور دیگر تمام ضروریات کا خیال خود رکھیں۔ پولیس کاجو اے ایس آئی اپنے بچوں کے ساتھ گاڑی میں دم گھٹ کر مر گیا، وہ غریب مرنے سے پہلے مدد کے پیغامات بھیجتا رہا مگر کسی نے کان نہیں دھرا، اس کے مرنے کے بعد غالباً نیشنل ہائی وے پولیس والوں نے ٹویٹ کی کہ ہم لواحقین کے ساتھ کھڑے ہیں، بندہ پوچھے اب لواحقین نے آپ کی ٹویٹ کا اچار ڈالنا ہے، جس وقت وہ مدد کے لیے پکار رہا تھا اس وقت کسی نے پروا نہیں کی اور اب ہر بندہ ٹویٹس کرتا پھر رہا ہے اور فوٹو کھنچوا کے ہیرو بن رہا ہے۔

دوسری بات، سیاحت محض خوبصورت مقامات سے فروغ نہیں پاتی بلکہ یہ ایک پورے پیکج کا نام ہے۔ ہم نے خود کو ایک عظیم مغالطے میں ڈال رکھا ہے کہ ہمارا ملک سوئٹزر لینڈ اور ناروے سے بھی زیادہ خوبصورت ہے، اگر ہم اس کی مناسب تشہیر کریں تو اربوں ڈالر تو محض سیاحت سے ہی کما سکتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر ہم اکثر اپنے پہاڑوں، دریاؤں، برف پوش چوٹیوں اور سر سبز میدانوں کی ’فوٹو شاپڈ‘ تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر میرے جیسا بندہ بھی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ان جگہوں پر تو میں بھی گیا ہوں پر یہ جگہیں ایسی تو نہیں جیسی تصویروں میں لگ رہی ہیں۔

سیاحت کے لیے ملک میں خوبصورت مقامات کا ہونا صرف ایک شرط ہے جو ہم پوری کرتے ہیں۔ ان مقامات تک کیسے جانا ہے، راستے میں کہاں رکنا ہے، صاف ستھرے ٹوائلٹس ملیں گے یا نہیں، رات گزارنے کی مناسب جگہ ہوگی یا نہیں، کسی ہنگامی صورتحال میں مدد پہنچے گی یا نہیں۔ ان سب باتوں کے بھی اتنے ہی نمبر ہیں جتنے سیاحتی مقام کے۔ سوائے ان سیاحتی مقامات کے جو موٹر وے سے منسلک ہیں، آپ پورے ملک میں سفر کر کے دیکھ لیں راستے میں کہیں ڈھنگ کے واش روم ملیں گے اور نہ رہنے کے لیے مناسب ہوٹل۔ پورا بلوچستان اس کی مثال ہے۔ سکھر سے آگے کراچی تک کا سفر بھی ایسے ہی ہے۔ اندرون سندھ اور اندرون پنجاب بھی گھوم لیں تو یہی صورتحال ملے گی۔

تیسری بات، ماحولیاتی آلودگی ایک حقیقت ہے جس کے اثرات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں، اگر ہم ٹھوس اقدامات نہیں کریں گے تو برف باری کے طوفان، بے موسمی بارشیں، طویل گرمیاں اور مختصر سردیاں ہمارا جینا محال کر دیں گی۔ مری میں جو کچھ ہوا وہ ایک المیہ تھا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی مسلسل اور طوفانی برفباری شاید وہاں کئی دہائیوں میں نہیں ہوئی۔ موسمیاتی تبدیلی کا مطلب صرف گرمی کا بڑھنا نہیں بلکہ موسموں کی شدت میں اضافہ بھی ہے۔ مری کی برفباری موسمیاتی تبدیلی کی ایک مثال ہے، اس کی دوسری مثال وہ فضائی آلودگی ہے جس سے مری متاثر ہو رہا ہے، مری کی مال روڈ پر گندے نالے کی بدبو اتنی شدید ہے کہ وہاں پھرنا محال ہوتا جا رہا ہے اور یہ بدبو جھیکا گلی تک بھی پھیل چکی ہے۔ لیکن یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے۔ یہاں دارالحکومت سے جڑے ہوئے شہر میں تئیس بندے بچوں سمیت سردی سے ٹھٹھر کر ہلاک ہو گئے، کسی کو فرق نہیں پڑا، باقی ملک میں کیا کیا ہوتا ہے، خدا جانے۔ اسی لیے بہتر یہی ہے کہ مرنے والوں کو شہید کہہ دیا جائے اور اس حادثے کو مشیت ایزدی کے کھاتے میں ڈال دیا جائے، پھر کسی کی جرات نہیں ہوگی سوال پوچھنے کی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 503 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments