ذوق و شوق اور اقبال


علامہ محمد اقبال کی نظم ذوق و شوق ایک اعلی مرتبت نظم ہے جس میں مذہبی فطرت پسندی کے نقطہ نظر کو پیش کرتے ہوئے انسانی خواہشات و جستجو سے پیدا ہونے والی انسانی تمناؤں و بیتابیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال ہمیشہ اپنی روحانی بے تابی، جغرافیائی تخیل اور ادبی الہام کو یکجا کر کے اپنی نظموں میں حقائق ابدی کی تلاش میں اپنی جذباتی نشیب و فراز کی تشریح و تفصیل بیان فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں نظم ذوق و شوق ان باتوں سے مستثنی نہیں ہے۔

علامہ اقبال نے یہ نظم بنیادی طور پر فلسطین میں لکھی تھی جہان اسلامی قوم پسندی کا عروج و زوال اس خطہ کے سیاسی مستقبل کے لئے ایک متنازعہ معاملہ تھا اور آج بھی ہے۔ تاہم دوسری نظموں کے بر خلاف جس میں اسلامی قوم کی فخریہ کے حوالہ سے اپنے خیالات قلم بند کرتے ہیں، یہ نظم انسانی ماورائی پہلو سے ان کی سوچ کو پیش کرتی ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال کا نظریہ نہ صرف جغرافیائی بلکہ گہری ذاتی سوچ پر مبنی ہے۔ اقبال کے نزدیک مشرق وسطی کے فطری جغرافیا‏ئی ماحول اور اسلام کے معنوی جغرافیائی ماحول کے درمیان ہونے والی وحدت اللہ تعالی کی بلا چون و چراں قدرت کا ایک عظیم معجزہ ہے۔ آج بلاشبہ فلسطین جلاوطنی اور نجات کا ایک مقام ہے۔ اگر آج علامہ اقبال یہاں ہوئے ہوتے، اس نظم کی روحانی وسعت اور عمیق پن ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ نظم نے اپنی حقیقی مطابقت کو کھو دیا ہے۔

پہلے بند میں، شاعر جلوۂ حسن ازل کی صفات کو بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام واحد معنوی نخلستان ہے جس میں انسان اپنی نجات کی راہ کو سمجھ سکتا ہے۔ یہاں شاعر ایک دشت کی منظرکشی بیان کرتے ہوئے وہاں کے سکوت، کائنات کی لا محدودیت، انسانی وجود اور اللہ پاک کے انسان سے عشق کے امکان کو واضح کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک دشت ہرگز ایک ویرانی کا منظر نہیں ہے اور اس میں کائنات کا جمال پوری طرح سے انسان کو نظر آتا ہے۔

دشت کی ”سطح“ پرنیاں ”کی مانند ہموار ہوتی ہے۔ سمندر کی ناہموار لہروں کے مقابلے میں، دشت کی ہمواری صحرا کو ایک مثالی مقام بناتی ہے جہاں اللہ پاک سے عشق اور روحانی بالیدگی جڑ پکڑ سکتی ہے۔ دشت ہرگز ایسی جگہ نہیں جہاں زندگی حرام ہوتی ہے، بلکہ یہ ایسی جگہ ہے جہاں مخلوق کو تمام مشکلات کے باوجود اللہ تعالی کی دی ہوئی شبنم ملتی رہتی ہے جو مخلوق کو عشق کی پیاس سے نجات دلاتی ہے۔

دوسرے بند میں شاعر جہاد کی صفات کو بیان فرماتے ہوئے جہاد اسلامی میں عشق خداوندی کو اسلامی عسکریت پسندی کا واحد جواز تصور کرتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے سربراہ اور ہیرو حضرت امام حسین یہ ثابت کرتے ہیں کہ شہادت انسان کی مادی حدود سے بالاتر ہونے کا ایک جائز طریقہ ہے۔ جنگ ہرگز جارحیت کی علامت نہیں ہے، بلکہ اللہ پاک سے دیے گئے دینی حکم کے تحت عشق خداوندی میں اپنی ”تابیداری“ کے اظہار کا ایک اعلی طریقہ ہے۔ اشراقیہ اور حکومت کے خلاف ہونے والی جنگ، ذاتی مفاد کی ہرگز نہیں ہے، بلکہ مغربی مرکزیت کی پیداوار ہے جس میں انسان بے راہ روی کا شکار ہوتے ہوئے غلط راستہ اختیار کر لیتے ہیں یہ اس کے خلاف ہونے والی جنگ ہے۔ یہاں نبی پاک ﷺ ایسی جنگوں کے ”مرشد اعلی“ ثابت ہوئے جن کی ”عقل“ ”دل“ و ”نگاہ“ اسلامی فقہ کا فلسفیانہ سر چشمہ حیات ہے۔

تیسرے بند میں شاعر دینی و اسلامی عشق میں اپنے مبتلا ہونے کی وضاحت فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ تصوف ذوق و شوق کی بنیاد ہے۔ شاعر کے نزدیک، ادبی تخلیق تصوف کی ایک بنیادی شکل ہے جس میں نہ صرف وہ اسلامی عشق سے اپنے لطف کا اظہار کر سکتے ہیں بلکہ انہیں خود شناسی کا موقع بھی ملتا رہتا ہے۔ خود شناسی کے لئے انسان اسلامی حکمت کے قدر سے چشم پوشی نہیں کر سکتا ہے جس کے ذریعے شاعر اور مرد مومن اپنی زندگی میں مختلف کھوئے ہوئے تاریخی واقعات کی بھر پور ترجمانی کر کے اپنی خودی کی تکمیل اور دین کی سربلندی کے درمیان تعلق کو ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔ یہاں شاعر تصوف کے سائنس کو بیان فرماتے ہیں جس کے ذریعے انسان اللہ تعالی کی کامل اطاعت کے واسطے مرد مومن بے شعوری کی موج کو محسوس کر سکتے ہیں۔ لہذا اللہ تعالی کے قریب تر ہونے کی ”آرزو“ میں اور وحی کو سمجھنے کی ”کش مکش“ تک ”بے قراری“ کا ایک خوشگوار سفر رہتا ہے۔

چوتھے بند میں شاعراللہ پاک کی تعریف بیان کرتے ہوئے اس بات پر ماتم کرتے ہیں کہ منکر اللہ کی ”شان و شوکت“ کو ہرگز نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ مغربی استدلال اور تہذیب کے غلبہ کی وجہ سے انسان اسلامی عقل کی سچائی کے حوا لے سے شکوک و شبہات کا شکار ہو گیا ہے۔ مغربی تہذیب نے ہمیں بتایا ہے کہ ہر چیز کا وجود سائنسی جواز پر انحصار کرتا ہے۔ لیکن سائنس آپ کو یہ نہیں بتائے گی کہ مسلمانوں کو سجدے سے کس قسم کا احساس لطف مل سکتا ہے کیونکہ یہ جذبات اللہ تعالی کا روحانی ثبوت ہیں۔

اللہ پاک کے وجود و وحی کی اہمیت کو مغربی فکری منافقت کا نشانہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ، چوتھے بند میں شاعر دکھاوے باز مومن اور مرد مومن کے فرق کو بیان کرتے ہے کہ ایک دکھاوے باز مومن صرف اپنی فلاح و بہبود پر توجہ دیتا ہے، جبکہ ایک مرد مومن اپنی خوشحالی میں مشغول رہنے کے بجائے حق کی جستجو میں اپنے خون اور جسم کو قربان کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اخر میں اللہ تعالی مومن و منکر کا فرق بخوبی جانتا ہے۔

آخری بند میں شاعر عاجزانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے اسلامی حقوق کی جستجو میں اپنے جذبات، ہنگامہ و شورش کو بیان فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی کے تقدس کے سامنے شاعر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہاں شرمندگی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ سے انسانی محبت ہمیشہ مادی و روحانی تکمیل پر مبنی ہے، جبکہ انسانوں سے اللہ پاک کا عشق غیر مشروط ہے۔ اس لئے شاعر خدا کے قریب ہونے کی آرزو رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی کی مختصر فراق سے پیدا ہونے والا احساس دوری، دکھ و درد سے لبریز ہونے کے باوجود، ”مرد مومن“ کی تقدیر کی تصدیق کرتا ہے۔ انسانیت میں پاکیزہ تر دل وہ ہے جو خدا کے عشق و نگہبانی میں پرورش پاتا ہے۔

انسانی جدیدیت کے دور میں سائنسی جدت و ترقی کے ساتھ ہی ساتھ شک و شبہ کی بنیاد بھی رکھی جا رہی ہے۔ سائنسی عینی‌گرایی کے تحت اسلامی جمال و کمال کی طرف غیر ذمہ دارانہ تنقید پیش کی جا رہی ہے۔ لیکن اللہ کی رحمت اور نبی پاکﷺ کی متانت ایسی تنقید آسانی سے مسترد کرتے ہوئے اپنے مدام تابانی کا دوبارہ مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر چہ ”ذوق و شوق“ علامہ محمد اقبال کی سب سے نمایاں نظم نہ ہو، لیکن اس نظم میں شاعر اسلام، انسانیت اور خود کے لازوال تعلق کو حیا کی طرز سے بیان کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک، مسلمان ہونا نہ صرف خودی کی تکمیل کے لئے ایک جائز اور بہترین راستہ ہے بلکہ روحانی پیاس اور ذہنی خالی پن کی نجات کے لئے ایک زبردست ضامن ہوتا ہے۔ لہذا، یہ نظم ایک فنی آئینہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان اللہ تعالی کی اطاعت کرتے ہوئے اپنا شکرانہ کس حد تک ادا کر سکتا ہے۔

ذوق و شوق
(ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے )

’دریغ آمدم زاں ہمہ بوستاں
تہی دست رفتن سوئے دوستاں ’

قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں

حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں

سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب
کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں

گرد سے پاک ہے ہوا، برگ نخیل دھل گئے
ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں

آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

آئی صدائے جبرئیل، تیرا مقام ہے یہی
اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی

کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مے حیات
کہنہ ہے بزم کائنات، تازہ ہیں میرے واردات

کیا نہیں اور غزنوی کارگہ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات

ذکر عرب کے سوز میں، فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیلات

قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات

صدق خلیلؑ بھی ہے عشق، صبر حسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

آیۂ کائنات کا معنی دیر یاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو

جلوتیان مدرسہ کور نگاہ و مردہ ذوق
خلوتیان مے کدہ کم طلب و تہی کدو

میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو

باد صبا کی موج سے نشوونمائے خار و خس
میرے نفس کی موج سے نشوونمائے آرزو

خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش
ہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو

فرصت کشمکش مدہ ایں دل بے قرار را
یک دو شکن زیادہ کن گیسوے تابدار را ’

لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب

شوکت سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنیدؒ و بایزیدؒ تیرا جمال بے نقاب

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب

تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب

تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے
طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے

تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب

تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی ﷺ ، عقل تمام بولہب

گاہ بحیلہ می برد، گاہ بزور می کشد
عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب

عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل میں مرگ آرزو، ہجر میں لذت طلب

عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا
گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب

گرمی آرزو فراق، شورش ہائے و ہو فراق
موج کی جستجو فراق، قطرے کی آبرو فراق!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments